بلوچستان میں نصف سے زائد کوئلے کی کانیں کیوں بند ہو گئی ہیں؟

اردو نیوز  |  Apr 29, 2025

بلوچستان میں کوئلہ کان کنی کا شعبہ بحران کا شکار ہے، جس کے باعث نصف سے زائد کوئلے کی کانیں بند ہو چکی ہیں اور پیداوار آدھی سے کم ہو کر رہ گئی ہے۔

کوئلہ کانوں کے مالکان کہتے ہیں کہ امن وامان کی خراب صورتحال  کے بعد افغان مزدوروں کی بے دخلی کی مہم نے کوئلہ کان کنی کے شعبے کو مزید متاثر کر دیا ہے۔

محکمۂ معدنیات بلوچستان کے مطابق صوبے میں کوئٹہ، بولان، ہرنائی، لورالائی اور دکی کے اضلاع میں تقریباً 268 ملین ٹن کوئلہ کے ذخائر موجود ہیں۔

ماضی میں کوئلہ کی سینکڑوں کانوں میں 70 ہزار سے ایک لاکھ مزدور کام کرتے تھے، جن میں اکثریت کا تعلق خیبرپختونخوا اور افغانستان سے تھا۔ اب حکام، کان مالکان اور مزدور تنظیمیں تسلیم کرتی ہیں کہ غیر مقامی مزدوروں کی بڑی تعداد واپسی پر مجبور ہو گئی ہے جس سے کان کنی کم ہو گئی ہے۔

آل پاکستان مائنز اینڈ منرلز ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل فتح شاہ عارف کے مطابق بلوچستان سے نکلنے والا کوئلہ ملک بھر کی صنعتوں میں استعمال ہوتا ہے، مگر کئی برسوں سے بدامنی کے باعث کان کنی کی سرگرمیاں شدید متاثر ہیں۔ ہرنائی، شاہرگ، مچھ، دکی اور کوئٹہ کے نواحی علاقوں میں بیشتر کانیں سکیورٹی خدشات کے باعث بند ہو چکی ہیں۔

ان کے مطابق بدامنی کے بعد افغان مزدوروں کی بے دخلی نے صورتحال کو مزید خراب کر دیا ہے۔

فروری میں ہرنائی میں 11 مزدور بارودی سرنگ دھماکے میں ہلاک ہوئے۔ (فوٹو: اے ایف پی)دکی اور ہرنائی سمیت کئی اضلاع کی انتظامیہ نے غیر قانونی افغان مزدوروں اور افغان سٹیزن کارڈ رکھنے والوں کو ملک واپس جانے کی ہدایت کی ہے۔ افغان مزدور کلیم بارکزئی کے مطابق ’بہت سے مزدور پکڑے جانے کے خوف سے چلے گئے ہیں اور جو بچ گئے ہیں وہ خوف کے سائے میں کام کر رہے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’میرا خاندان  پشین کے قریب مہاجر کیمپ میں رہتا ہے، حکومت نے سب کو واپس جانے کا کہا ہے اور گرفتاریاں ہو رہی ہیں۔ جب پورا خاندان واپس جا رہا ہے تو میں اکیلا یہاں کیسے رہ سکتا ہوں اس لیے ہمیں بھی کام چھوڑ کر جانا پڑ رہا ہے۔‘

فتح شاہ عارف کے مطابق ’اس صورتحال میں کان کنی نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ بلوچستان میں پہلے یومیہ کوئلہ پیداوار 18 ہزار ٹن سے زائد تھی جو اب گھٹ کر صرف آٹھ ہزار ٹن رہ گئی ہے۔‘

چیف انسپکٹر مائنز بلوچستان عبدالغنی کے مطابق کوئلہ کان کنی میں 30 سے 40 فیصد مزدور افغان شہری ہیں، جن کی بے دخلی سے  افرادی قوت میں کمی پیدا ہو جائے گی۔

انہوں نے تسلیم کیا کہ بدامنی اور غیر مقامی مزدوروں کی نقل مکانی کی وجہ سے کوئلہ کی پیداوار میں  بہت کمی آئی ہے۔

ایک کوئلہ کان کے مالک کے مطابق بعض علاقوں میں عسکریت پسندوں کی دھمکیوں کی وجہ سے کام نہیں ہو رہا۔ (فوٹو: اے ایف پی)اکتوبر 2024 میں دکی میں 20 کوئلہ کان کن کو قتل کیا گیا جبکہ رواں سال فروری میں ہرنائی میں 11 مزدور بارودی سرنگ دھماکے میں ہلاک ہوئے۔ ماضی میں کان کنوں کے اغوا اور قتل کے درجنوں واقعات ہو چکے ہیں۔

دکی میں پچھلے سال مزدوروں کے قتل کے واقعے کے بعد انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں نشاندہی کی تھی کہ حملے کے بعد علاقے کی 40 فیصد کانیں بند ہو گئیں اور نصف سے زیادہ مزدور علاقہ چھوڑ گئے۔ رپورٹ کے مطابق دکی سے سندھ اور پنجاب جانے والے کوئلہ ٹرکوں کی تعداد روزانہ 150 سے 200 سے کم ہو کر ہفتہ وار پانچ سے سات ٹرک رہ گئی ہے۔

مچھ کے ایک کوئلہ کان مالک نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ مچھ اور کوئٹہ کے گردونواح میں 50 سے 60 فیصد کانیں پچھلے دو سال سے بند ہیں۔ ان کے مطابق بعض علاقوں میں عسکریت پسندوں کی دھمکیوں کی وجہ سے کام نہیں ہو رہا اور بعض میں حکومت نے سکیورٹی خدشات کے پیش نظر کان کنی معطل کر دی ہے۔

آل پاکستان مائنز اینڈ منرل ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل فتح شاہ کا کہنا ہے کہ کوئلہ کان کنی میں مقامی مزدور بہت کم دلچسپی لیتے ہیں۔ اس لیے کان کنی کا انحصار خیبر پختونخوا اور افغانستان سے آنے والے غیر مقامی مزدوروں پر رہا ہے۔

چیف انسپکٹر مائنز بلوچستان عبدالغنی کے مطابق کوئلہ کان کنی میں 30 سے 40 فیصد مزدور افغان ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)فتح شاہ عارف کا کہنا ہے کہ افغان مزدوروں کی واپسی سے کان کنی کا شعبہ مزید نقصان اٹھا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے حکومت کو تجویز دی ہے کہ افغان مزدوروں کے لیے قانونی دستاویزات اور ویزوں کا عمل آسان بنایا جائے تاکہ کان کنی متاثر نہ ہو۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان سالانہ ڈیڑھ ارب ڈالر سے زائد مالیت کا کوئلہ درآمد کرتا ہے، جسے بجلی بنانے والے پاور پلانٹس، سیمنٹ فیکٹریوں اور دیگر صعنتوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔

فتح شاہ کے مطابق مقامی پیداوار میں اضافے سے درآمدی انحصار کم کیا جا سکتا ہے۔ ’اگر حکومت توجہ دے اور حالات سازگار بنائے تو بلوچستان اور ملک میں موجود وسیع کوئلہ ذخائر سے ملک کی ضروریات پوری کی جا سکتی ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ کوئلہ سے ملک میں تقریباً پانچ لاکھ افراد کا براہ راست روزگار وابستہ ہے۔ اگر حکومت نے مسائل حل نہ کیے تو لاکھوں افراد بے روزگار ہو سکتے ہیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More