زبانی قول و قرار، بلوچستان میں نکاح نامے کا رجحان کیوں نہیں؟

اردو نیوز  |  Apr 30, 2025

گذشتہ دنوں کوئٹہ کے نواحی علاقے کچلاک میں پولیس اہلکاروں کی جانب سے فیملیز سے نکاح نامے طلب کرنے اور مبینہ رشوت خوری کی شکایات پر کوئٹہ پولیس کے سربراہ ڈی آئی جی اعتزاز احمد گورائیہ نے دو اہلکاروں کو ملازمت سے برخاست اور دو سب انسپکٹرز کو تنزلی دے کر اے ایس آئی بنا دیا۔

ڈی آئی جی پولیس کے اس اقدام کو سراہا گیا مگر اس واقعہ نے بلوچستان میں نکاح نامے کی عمومی حیثیت، قانونی ضرورت اور سماجی قبولیت پر کئی سوالات کو جنم دیا ہے

بلوچستان کے روایتی قبائلی معاشرے، خواہ وہ بلوچ ہوں یا پشتون، میں نکاح زیادہ تر زبانی قول و قرار اور قبائلی و مذہبی رسوم کے مطابق انجام پاتا ہے اور اکثر اس پر مکمل اعتماد کیا جاتا ہے۔ یہاں نکاح کو تحریری شکل دینے کا رجحان ہمیشہ سے کم رہا ہے اس لیے چاہے پولیس کی جانب سے ہی کیوں نہ ہو نکاح نامہ طلب کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔

ادیب اور محقق عبدالرؤف رفیقی کہتے ہیں کہ بلوچ اور پشتون دونوں قبائل میں ’قول‘ اور ’زبان‘ (عہد) کی روایت بہت مضبوط رہی ہے۔ ان کے بقول پہلے لوگ زبان دے کر جان دے دیتے تھے مگر وعدے سے پیچھے نہیں ہٹتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں تحریری نکاح ناموں کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ قول کی اس پاسداری کی وجہ سے طلاق کی شرح بھی بہت کم تھی۔ تاہم اب جدید دور میں ان روایات کی گرفت کمزور پڑ رہی ہے اور نکاح کو دستاویزی شکل دینے کے باوجود طلاق میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔

قانونی نقطۂ نظر سے نکاح نامہ صرف ایک مذہبی رسم نہیں بلکہ ایک باقاعدہ معاہدہ ہے جس میں فریقین کے درمیان شرائط جیسے حق مہر، نان و نفقہ، اور دیگر حقوق و فرائض طے کیے جاتے ہیں۔  

جبکہ سول رجسٹریشن کے نظام میں افراد کی زندگی کے اہم واقعات جیسے پیدائش، اموات، شادیاں، طلاق وغیرہ کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے۔ یہ عمل نہ صرف ایک فرد کو قانونی شناخت، شہریت، بنیادی حقوق، خاندانی تعلقات اور قانونی حیثیت سے جڑے فوائد فراہم کرتا ہے بلکہ یہ مجموعی معلومات ملک کی آبادی کے بارے میں اعداد و شمار فراہم کرکے پالیسی سازی اور منصوبہ بندی کے لیے اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

بلوچستان میں پیدائش، اموات اور شادی کی رجسٹریشن لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2010 کے تحت محکمہ بلدیات کی ذمہ داری ہے۔ اس قانون کے تحت اگر حکومت ہدایت دے تو رجسٹریشن کو لازمی قرار دیا جا سکتا ہے، لیکن نکاح رجسٹر نہ کرانے پر کوئی سزا یا جرمانہ مقرر نہیں۔ نتیجتاً نکاح کی باقاعدہ رجسٹریشن کا رجحان بہت کم ہے۔ کوئٹہ کی آبادی لگ بھگ 25 لاکھ ہے لیکن یہاں روزانہ صرف 60 سے 70 نکاح نامے رجسٹر کیے جاتے ہیں جبکہ دیہی علاقوں میں شرح اس سے بھی کم ہے۔

کوئٹہ میں تعینات نادرا کے ایک سینیئر افسر کے مطابق بلوچستان میں نکاح نامہ ہی نہیں بلکہ شناختی کارڈ جیسے اہم قانونی دستاویز کے لیے بھی خواتین کی رجسٹریشن ملک میں سب سے کم ہے۔ ان کے مطابق بلوچستان میں صرف 73 لاکھ افراد کی رجسٹریشن ہوئی ہے جبکہ 2023 کی مردم شماری کے مطابق صوبے کی آبادی ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ یعنی نصف سے زائد آبادی قانونی طور پر رجسٹرڈ نہیں جس میں اکثریت خواتین کی ہے۔  

نکاح کی دیگر رسوم حق مہر اور جہیز کے معاملات بھی زبانی طے کیے جاتے ہیں (فوٹو: برائڈز)ان کا کہنا ہے کہ کئی خاندانوں میں خواتین کی دستاویزات کو غیر ضروری سمجھا جاتا ہے۔ قبائلی اور معاشرتی رکاوٹوں، تعلیم اور شعور کی کمی اور قانونی حقوق سے لاعلمی کی وجہ سے خواتین کی رجسٹریشن نہیں کی جاتی۔

اس کے ساتھ ساتھ محکمہ بلدیات اور نادرا کے رجسٹریشن مراکز تک رسائی میں مشکلات بھی رجسٹریشن میں کمی کا سبب ہیں۔ صوبے کی 27 تحصیلوں میں نادرا مراکز ہی موجودنہیں۔ اسی طرح سینکڑوں یونین کونسل میں نکاح، پیدائش اور اموات کی رجسٹریشن کی سہولت ہی دستیاب نہیں۔

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم عورت فاؤنڈیشن کے ریجنل ڈائریکٹر علاؤ الدین خلجی کہتے ہیں کہ بلوچستان کے دیہی اورقبائلی معاشرے میں اب بھی نکاح کو دستاویزی شکل دینے کا رجحان بہت کم ہے۔ یہاں اسلامی اور قبائلی روایات کے مطابق زبانی ایجاب و قبول کیا جاتا ہے۔

نکاح کی دیگر رسوم حق مہر، ولور (پشتو ن معاشرے کی ایک روایت) جہیز کے معاملات بھی زبانی طے کیے جاتے ہیں اور ان کو تحریری شکل کم ہی دی جاتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگ اس وقت تک نکاح نامہ نہیں بنواتے جب تک انہیں ضرورت نہ پڑے۔

علاؤ الدین خلجی کے مطابق نکاح نامہ خواتین کے قانونی تحفظ خصوصاً گھریلو تشدد، طلاق، خلع اور وراثت جیسے معاملات میں نہایت اہم دستاویز ہے۔ عدالت اور قانون میں تحریری نکاح نامہ ہی معتبر ثبوت ہوتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ صوبے کے شہری علاقوں اور تعلیم یافتہ طبقے میں نکاح نامے کی اہمیت اور رجحان میں اضافہ ہورہا ہے۔ شناختی کارڈ، پاسپورٹ، ملازمت ، ہیلتھ کارڈ جیسے امور اور سہولیات کے حصول کے لیے بھی لوگ اب دستاویزات بنارہے ہیں۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More