پاکستان اور انڈیا کے بیچ پھنسے خاندان، ویزا کی پابندیاں اور خوف: ’ماں کو چھوڑ کر کیسے چلا جاؤں، ہماری کیا غلطی ہے‘

بی بی سی اردو  |  May 01, 2025

شاہدہ کے چہرے کے تاثرات اس سوال کو سوچ کر بدل رہے تھے کہ وہ اپنے بہن بھائیوں کے پاس لوٹ جائیں یا پھر اپنی محبت کا ساتھ دیں؟

61 سالہ شاہدہ ادریس 2002 میں پاکستان سے انڈیا پہنچی تھیں جب ان کی شادی اپنے کزن ادریس خان سے ہوئی۔ ادریس خان انڈیا کی پنجاب ریاست کے رہائشی ہیں۔

دونوں کی زندگی پرامن تھی۔ ادریس رکشہ چلاتے تھے اور شاہدہ گھر اور بچے کی دیکھ بھال کرتی تھیں۔ لانگ ٹرم ویزا پر انڈیا میں رہائش پذیر شاہدہ ہر چند سال بعد اپنے خاندان سے ملنے پاکستان بھی جایا کرتی تھیں۔

گزشتہ ہفتے ان کی پرامن زندگی میں اس وقت بھونچال آ گیا جب پہلگام حملے کے بعد انڈیا کی حکومت نے تمام پاکستانی شہریوں کے ویزے منسوخ کر دیے۔ پاکستان نے اس حملے سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے جوابی قدم اٹھایا اور انڈین شہریوں کے ویزے منسوخ کر ڈالے۔

شاہدہ کو جب یہ خبر ملی تو وہ جانتی تھیں کہ اس کا مطلب کیا ہے۔ انھیں پاکستان واپس جانا ہو گا یا پھر انڈیا میں رہ کر اپنے خاندان والوں کو ہمیشہ کے لیے نہ دیکھنے کا خطرہ مول لینا ہو گا۔ انھوں نے اپنی بیمار خالہ کی وجہ سے پاکستان جانے کا ارادہ بنا رکھا تھا۔

شاہدہ نے انڈیا میں ہی رکنے کا فیصلہ کیا۔ ’اگر میں چلی جاتی تو انڈیا واپس نہیں آ سکتی تھی۔ لیکن اب میں نہیں جانتی کہ کبھی اپنے بھائیوں اور بہنوں کو دیکھ سکوں گی۔‘

Getty Imagesپاکستان اور انڈیا کی طویل تنازعات کی تاریخ کے باوجود دونوں ملکوں کے شہریوں میں محبت اور شادیوں کی کہانیاں عام ہیں

شاہدہ کا خاندان انڈیا اور پاکستان کے ان سینکڑوں خاندانوں میں شامل ہے جو سرحد کے دونوں جانب موجود ہیں۔ یہ خاندان اب مستقل علیحدگی کے خدشات میں گھرے ہیں۔

پاکستان اور انڈیا کی طویل تنازعات کی تاریخ کے باوجود دونوں ملکوں کے شہریوں میں محبت اور شادیوں کی کہانیاں عام ہیں۔ یوں دونوں ملکوں کے بیچ موجود سرحد صرف زمین پر ہی نہیں بلکہ خاندانوں کے بیچ بھی موجود ہے۔ انڈیا کے بہت سے شہری ایسے ہیں جن کے رشتہ دار پاکستان میں ہیں اور ایسا ہی دوسری جانب بھی ہے۔

شاہدہ کے خاندان کی طرح تقسیم کے وقت الگ ہونے والے چند افراد نے شادیوں کی مدد سے سرحد پار اپنا رشتہ قائم رکھا۔ حالیہ برسوں میں بہت سے جوڑوں کی ملاقات پہلے آن لائن انٹرنیٹ کی مدد سے ہوئی اور پھر مشکلات کے باوجود انھوں نے ساتھ رہنے کا کوئی نہ کوئی طریقہ تلاش کر لیا۔

ان میں سے ایک طریقہ لانگ ٹرم ویزا کا ہے جسے ہر کچھ عرصے کے بعد تجدید کی ضرورت ہوتی ہے۔ کچھ لوگ شہریت حاصل کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں لیکن اس عمل میں برسوں گزر جاتے ہیں۔

رواں ہفتے جب ویزا کی پابندیوں کا اعلان ہوا تو دونوں اطراف سے دلگیر مناظر سامنے آئے۔ جوان جوڑے، کم عمر بچے، ادھیڑ عمر والدین حکام سے مدد کی التجا کرتے دکھائی دیے۔ بی بی سی نے اس معاملے پر انڈیا کی وزارت خارجہ سے ان کا موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا ہے۔

17 سالہ محمد آیت نے انڈیا کی خبر رساں ایجنسی اے این آئی کو بتایا کہ ’میں اپنی والدہ کے ساتھ آیا تھا۔ اب وہ کہہ رہے ہیں کہ مجھے ان کے بغیر واپس جانا ہو گا۔ میں ایسا کیسے کر سکتا ہوں؟‘

سات ماہ کی حاملہ گوجرانوالہ کی ماریہ کو انڈیا چھوڑنے کا حکم: ’بچے کے منتظر تھے لیکن اب سب کچھ بدل گیا ہے‘پہلگام حملے کے بعد انڈیا سے پاکستانی مریضوں کی واپسی: ’بچوں کے دل کا کیا علاج ہوتا، ہمارا تو اپنا دل کرچی کرچی ہو گیا‘پہلگام حملہ اور کشیدگی: پاکستان اور انڈیا کے تنازع میں چین کس کا ساتھ دے گا؟پاکستان اور انڈیا کی فوجی طاقت کا موازنہ: لاکھوں کی فوج سے بیلسٹک میزائلوں اور ڈرونز تک

آیت پاکستانی شہری ہیں جو گزشتہ ماہ ہی اپنے رشتہ داروں سے ملنے انڈیا آئے تھے۔ ان کی والدہ انڈین شہریت رکھتی ہیں جو ویزا پر پاکستان میں رہائش پذیر تھیں لیکن ان کا ویزا کی میعاد ختم ہو چکی ہے۔

آیت نے کہا کہ ’ان کو (شدت پسندوں کو) سزا دینی چاہیے لیکن ہماری کیا غلطی ہے؟‘

دونوں ممالک کے حالیہ اقدامات سے متاثر ہونے والے افراد کی مجموعی تعداد واضح نہیں ہے تاہم یہ سینکڑوں میں ہو سکتی ہے۔

اٹاری واہگہ جانے والی بس میں بیٹھی پروین نے صحافیوں کو بتایا کہ وہ 41 سال سے انڈیا میں رہ رہی تھیں۔ انھوں نے کہا کہ ’پاکستان میں میری ماں ہے، نہ بھائی، نہ بہن۔ میرے پاس وہاں رہنے کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ میں بلکل بے یار و مددگار ہوں۔‘

ایسے خاندانوں کا کہنا ہے کہ ویزا منسوخ ہونے سے پیدا ہونے والی صورت حال نے انھیں غیر یقینی سے دوچار کر دیا ہے۔

انڈیا کی جانب سے عائد پابندیوں میں شاہدہ جیسی خواتین کو استثنی دیا گیا ہے جو قابل تجدید لانگ ٹرم ویزا پر انڈیا میں رہائش پذیر ہیں۔ یہ ویزا پانچ سال کا ہوتا ہے اور ایسی پاکستانی یا بنگلہ دیش کی شہری خواتین کو دیا جاتا ہے جن کی شادی کسی انڈین شہری سے ہو چکی ہوتی ہے۔

انڈیا کے قوانین کے تحت لانگ ٹرم ویزا رکھنے والے ایک دوسرا پرمٹ حاصل کرنے کے بعد، جسے ’نو آبجیکشن ٹو ریٹرن ٹو انڈیا‘ ویزا کہتے ہیں، اپنے ملک کا دورہ کر سکتے ہیں۔

تاہم پہلگام حملے کے بعد غیر یقینی کی صورت حال میں ایسی خبریں سامنے آئیں کہ یہ پرمٹ رکھنے والوں کو بھی انڈیا میں داخل ہونے سے روکا گیا کیوں کہ حکام خود بھی وضاحت کے منتظر ہیں۔

Reutersدونوں ممالک کے حالیہ اقدامات سے متاثر ہونے والے افراد کی مجموعی تعداد واضح نہیں ہے تاہم یہ سینکڑوں میں ہو سکتی ہے

شاہدہ کا کہنا ہے کہ انڈین حکام نے انھیں یقین دلایا ہے کہ نو آبجیکشن پرمٹ کے حامل افراد ان پابندیوں سے مستثنی ہیں۔ پھر بھی وہ انڈیا سے پاکستان جانے کا خطرہ مول نہیں لے رہی ہیں۔

وہ سوچتی ہیں کہ اگر ان کے پاس انڈیا کی شہریت ہوتی تو شاید معاملات بہتر ہوتے۔ انھوں نے بتایا کہ ’میں نے 2009 میں درخواست دی تھی لیکن مجھے جواب نہیں ملا۔‘

طاہرہ احمد انڈین شہری بن جانے کے باوجود حالیہ پریشانی کی لہر سے آزاد نہیں۔ وہ پیدائشی طور پر پاکستانی شہری ہیں اور 2003 میں انڈین پنجاب کے مقبول احمد سے شادی کے بعد انڈیا منتقل ہوئی تھیں۔ 2016 میں، شادی کے 13 سال بعد، انھیں انڈیا کی شہریت مل گئی تھی۔

لیکن انھیں اب بھی یہ خوف ہے کہ انھیں اپنے خاندان سے الگ کر کے پاکستان بھیج نہ دیا جائے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’دونوں ملکوں کے بیچ جب بھی حالات کشیدہ ہوتے ہیں، ہم بیچ میں پھنس جاتے ہیں۔ میری شادی 2001 میں اس وقت دو سال کے لیے رک گئی جب انڈیا کی پارلیمنٹ پر حملہ ہو گیا تھا اور سرحد بند ہو گئی تھی۔‘

موجودہ صورت حال میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ رواں ہفتے کے آغاز میں بی بی سی پنجابی نے ماریا مسیح سے بات کی تھی جو 2024 میں شادی کے بعد انڈیا منتقل ہوئی تھیں۔

سوشل میڈیا پر بات چیت محبت میں تبدیل ہونے کے بعد سونو اور ماریا نے شادی کر لی تھی اور پھر ماریا کے لانگ ٹرم ویزا کے لیے درخواست دے دی گئی تھی لیکن سات ماہ کی حاملہ ماریا کو اب تک یہ ویزا نہیں مل سکا۔

ماریا نے صحافیوں سے بات چیت میں کہا تھا کہ ’میں یہاں رہنا چاہتی ہوں، میں واپس نہیں جانا چاہتی۔ مجھے ویزا دیں اور یہیں رہنے دیں۔‘ خبروں کے مطابق دونوں مبینہ طور پر اپنے گھر پر موجود نہیں اور اس معاملے کی تفتیش جاری ہے۔

طاہرہ احمد کہتی ہیں کہ ’ان کی اس میں کیا غلطی ہے؟ وہ تو محبت میں گرفتار ہو کر آئے تھے۔‘

پاکستان اور انڈیا کی فوجی طاقت کا موازنہ: لاکھوں کی فوج سے بیلسٹک میزائلوں اور ڈرونز تکپہلگام حملہ اور کشیدگی: پاکستان اور انڈیا کے تنازع میں چین کس کا ساتھ دے گا؟پہلگام حملے کے بعد انڈیا سے پاکستانی مریضوں کی واپسی: ’بچوں کے دل کا کیا علاج ہوتا، ہمارا تو اپنا دل کرچی کرچی ہو گیا‘سات ماہ کی حاملہ گوجرانوالہ کی ماریہ کو انڈیا چھوڑنے کا حکم: ’بچے کے منتظر تھے لیکن اب سب کچھ بدل گیا ہے‘واہگہ بارڈر کی بندش سے پاکستان اور انڈیا میں سے کس کو زیادہ نقصان اٹھانا پڑے گا؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More