پہلگام حملے کے بعد پاکستان اور انڈیا میں کشیدگی: ماضی میں دونوں ملکوں کے درمیان حالات کیسے بہتر ہوئے؟

بی بی سی اردو  |  May 04, 2025

Getty Images

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں مسلح افراد کے حملے میں 26 شہریوں کی موت کے بعد انڈین سکیورٹی فورسز اور سفارت کاروں کو ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے ایسا پہلے بھی ہو چکا ہے۔

سنہ 2016 میں جب اوڑی حملے میں انڈین فوج کے 19 اہلکار ہلاک ہوئے تو انڈیا نے لائن آف کنٹرول کے پار ’سرجیکل سٹرائیک‘ کی۔

سنہ 2019 میں پلوامہ میں انڈین نیم فوجی دستے (سی آر پی ایف) کے 40 اہلکار ہلاک ہو گئے تھے، جس کے بعد انڈیا نے پاکستان کے علاقے بالا کوٹ میں سرجیکل سٹرائیک کا دعویٰ کیا۔

اس دونوں واقعات سے قبل سنہ 2008 میں ممبئی حملوں مییں 166 افراد مارے گئے تھے۔

ہر بار انڈیا نے پاکستان میں موجود عسکریت پسند گروہوں پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ان کو سپورٹ کرتا ہے تاہم پاکستان اس الزام کی تردید کرتا ہے۔

سنہ 2016 کے بعد اور خاص طور پر 2019 کے فضائی حملے کے بعد کشیدگی اور ردِعمل میں ڈرامائی طور پر تبدیلی آئی۔

انڈیا کی جانب سے سرحد پار فضائی حملے نیا معمول بن گیا جس نے پاکستان کو جوابی کارروائی کے لیے اشتعال دلایا۔اس سب نے پہلے سے غیر مستحکم صورتحال کو مزید بدتر بنا دیا۔

ماہرین کا ماننا ہے کہ تناؤ کے اس ماحول میں انڈیا ایک بار پھر اس کشمکش میں ہے کہ کوئی ردعمل دیا جائے یا پھر تحمل کا مظاہرہ کیا جائے۔

ایک شخص جو اس بار بار دہرائے جانے والے عمل سے اچھی طرح واقف ہیں، وہ پلوامہ حملے کے وقت پاکستان کے لیے انڈیا کے سابق ہائی کمشنر اجے بیساریا ہیں۔

انھوں نے اپنی کتاب ( Anger Management: The Troubled Diplomatic Relationship between India and Pakistan) میں پلوامہ حملے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے بارے میں لکھا۔

حالیہ حملے کے دس دن بعد جمعرات کے روز اجے بساریا نے مجھے بتایا کہ ’پلوامہ بم دھماکے کے بعد اور پہلگام میں ہونے والی ہلاکتوں کے درمیان حیرت انگیز مماثلتیں ہیں۔‘

لیکن اس کے باوجود وہ ایک تبدیلی کی جانب اشارہ بھی کرتے ہیں۔ پلوامہ اور اوڑی میں سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا گیا لیکن حالیہ حملے میں سیاحوں کو ہلاک کیا گیا جس سے سنہ 2008 کے ممبئی حملوں کی یاد تازہ ہو گئی۔

وہ وضاحت کرتے ہیں کہ ’اس حملے میں کچھ چیزیں پلوامہ لیکن زیادہ تر باتیں ممبئی حملوں سے ملتی جلتی ہیں۔ ہم ایک بار پھر تنازع کی صورتحال میں ہیں اور کہانی ایک بار پھر اسی انداز میں دہرائی جا رہی ہے۔‘

Getty Imagesسنہ 2019 میں پلوامہ میں انڈین نیم فوجی دستے (سی آر پی ایف) کے 40 اہلکار ہلاک ہو گئے تھے

حالیہ حملے کے بعد انڈیا نے پاکستان کے ساتھ اپنی مرکزی سرحد کو بند کر دیا، سندھ طاس معاہدے کو معطل کر دیا، پاکستانی سفارت کاروں کو ملک سے نکال دیا اور پاکستانی شہریوں کے ویزے منسوخ کرتے ہوئے انھیں چند دن میں ملک چھوڑنے کا کہا۔ حالیہ دنوں میں دونوں ملکوں کے درمیان سرحد پار سے فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا۔

پہلگام حملے کے بعد پاکستان اور انڈیا کے درمیان بڑھتی کشیدگی کی وجہ سے دونوں ملکوں نے اپنی اپنی فضائی حدود کو بھی ایک دوسرے کی پروازوں کے لیے بند کر دیا۔

پاکستان کی جانب سے بھی جواب میں ویسے ہی اقدامات سامنے آئے اور اس نے انڈیا کے ساتھ 1972 کا ایک امن معاہدہ بھی معطل کر دیا۔

اپنی کتاب میں اجے بیساریا 14 فروری 2019 کو پلوامہ حملے کے بعد انڈیا کے ردعمل کے بارے میں لکھتے ہیں۔

انھیں اگلی صبح نئی دہلی طلب کیا گیا کیونکہ انڈین حکومت نے فوری ہی پاکستان کے ساتھ تجارت معطل کر دی۔ آنے والے کچھ دنوں میں کابینہ کی کمیٹی برائے سکیورٹی نے پاکتسانی اشیا پر 200 فیصد ڈیوٹی عائد کر دی، پاکستان سے درآمدات کو بند کر دیا اور واہگہ کی سرحد سے تجارت معطل ہو گئی۔

’مجھے چپ رہنے کو کہا گیا‘: سابق گورنر نے پلوامہ حملے پر مودی حکومت کو کیوں موردالزام ٹھہرایا؟ابھینندن ورتھمان: پاکستان کی تحویل میں انڈین پائلٹ کی موجودگی کے دوران پسِ پردہ کیا ہوتا رہا؟کیا انڈین فضائی حدود کی بندش سے پاکستانی ایئرلائنز متاثر ہوں گی؟پہلگام حملہ انڈین سکیورٹی اداروں کی ناکامی، پاکستان اور انڈیا کے درمیان باقاعدہ جنگ کا امکان نہیں: سابق سربراہ ’را‘ کا بی بی سی کو انٹرویو

اجے بیساریا بتاتے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کم کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر دیگر اقدامات کی تجویز بھی دی گئی تھی، جن میں سے بیشتر کو بعد میں نافذ کیا گیا۔ جیسے دونوں ملکوں کے درمیان چلنے والی سمجھوتہ ایکسپریس جبکہ دہلی اور لاہور کے درمیان بس سروس کو بھی معطل کر دیا گیا۔

دیگر اقدامات میں سکھوں کے مقدس ترین مقامات میں سے ایک کرتارپور راہداری پر مذاکرات روک دیے گئے، ویزا کے اجرا پر پابندی کے علاوہ دونوں ممالک کے درمیان پروازیں بھی معطل کر دی گئیں۔

سابق ہائی کمشنر لکھتے ہیں کہ ’میں نے سوچا کہ اعتماد قائم کرنا کتنا مشکل تھا اور اسے توڑنا کتنا آسان۔‘

’اس مشکل رشتے میں اعتماد سازی کے لیے تمام اقدامات کی منصوبہ بندی اور مذاکرات، جو برسوں میں ممکن ہو پائی تھی، ایک پیلے نوٹ پیڈ پر منٹوں میں ختم کی جا سکتی ہے۔‘

ایک اور سفارتی واقعے کے بعد جون 2020 میں اسلام آباد میں انڈین ہائی کمیشن کے عملے کی تعداد 110 سے کم ہو کر 55 رہ گئی تاہم پہلگام حملے کے بعد اب یہ تعداد صرف 30 تک محدود ہے۔

AFP27 فروری 2019 کو پاکستان کی فضائیہ نے انڈین جنگی طیارہ مار گرایا اور فائٹر پائلٹ وِنگ کمانڈر ابھینندن ورتھمان کو اپنی تحویل میں لے لیا

انڈیا نے پھر سفارتی سطح پر بھی حملہ شروع کیا۔

پلوامہ حملے کے ایک روز بعد اس وقت کے سیکرٹری خارجہ وجے گھوکھلے نے امریکہ، برطانیہ، چین، روس اور فرانس سمیت 25 ممالک کے نمائندوں کو اس واقعے میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک شدت پسند گروپ جیش محمد کے ملوث ہونے سے متعلق بریفنگ دی اور الزام عائد کیا کہ دہشتگردی پاکستان کی ریاستی پالیسی کا حصہ ہے۔

یاد رہے کہ جیش محمد نے پلوامہ حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ اس کے بعد مئی 2019 کو اقوامِ متحدہ نے جیشِ محمد کے سربراہ مسعود اظہر کا نام عالمی دہشتگردوں کی فہرست میں شامل کر دیا تھا۔

اجے بیساریا لکھتے ہیں کہ انڈیا کی جانب سے ممکنہ معطلی کے لیے دونوں ملکوں کے کل 48 معاہدوں کا جائزہ بھی لیا گیا۔ نئی دہلی میں کل جماعتی اجلاس بلایا گیا، جس کے نتیجے میں ایک متفقہ قرارداد منظور کی گئی۔

لیکن اس وقت میں دونوں ملکوں کے درمیان رابطے بھی جاری رہے۔ جیسے دونوں ممالک کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز (DGMO) کے درمیان ہاٹ لائن، جو ’ملٹری ٹو ملٹری‘ رابطے کے لیے انتہائی اہم ہے۔

حالیہ حملے کی طرح سنہ 2019 میں بھی پاکستان نے اسے ’فالس فلیگ آپریشن‘ قرار دیا تھا۔

اس وقت بھی کشمیر میں کریک ڈاؤن دیکھا گیا اور تقریباً 80 ایسے افراد کو گرفتار کیا گیا جن پر جیش محمد کو مدد فراہم کرنے کا الزام تھا۔

اس وقت انڈین وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے جموں و کشمیر کا دورہ کیا اور حملے اور مشتبہ مجرموں کے بارے میں ڈوزیئر تیار کروائے گئے۔

اس وقت کی وزیر خارجہ سشما سوراج کے ساتھ ایک ملاقات میں اجے بیساریا نے انھیں بتایا کہ ’اس نوعیت کے دہشت گرد حملے سے نمٹنے کے لیے انڈیا کے پاس سفارتی آپشن محدود ہیں۔‘

اجے بیساریا لکھتے ہیں کہ ’انھوں نے مجھے یہ تاثر دیا کہ کوئی بڑی کارروائی ہونے والی ہے، جس کے بعد ہی مجھے سفارت کاری میں وسعت کی توقع کرنی چاہیے۔‘

اور پھر 26 فروری 2019 کو انڈین فضائی حملے میں پاکستان کے علاقے بالاکوٹ میں جیش محمد کے تربیتی کیمپ کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ دونوں ملکوں کے درمیان 1971 کی جنگ کے بعد بین الاقوامی سرحد میں اس نوعیت کی پہلی کارروائی تھی۔

اس فضائی حملے کے چھ گھنٹے بعد انڈیا کے سیکرٹری خارجہ نے اعلان کیا کہ ’بہت بڑی تعداد‘ میں شدت پسندوں اورکمانڈروں کو ہلاک کیا گیا تاہم پاکستان نے اس دعوے کی تردید کی۔ اس کے بعد نئی دہلی میں مزید اعلی سطحی میٹنگز ہوئیں۔

اگلے روز یعنی 27 فروری کو کشیدگی میں مزید شدت آئی جب پاکستان نے جوابی فضائی حملہ کیا۔

’ڈاگ فائٹ‘ کے دوران پاکستان کی فضائیہ نے انڈین جنگی طیارہ مار گرایا اور فائٹر پائلٹ وِنگ کمانڈر ابھینندن ورتھمان کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے اپنی تحویل میں لے لیا۔

دشمن کے علاقے میں وِنگ کمانڈر ابھینندن کی حراست نے انڈیا میں تشویش کی لہر کو جنم دیا اور جوہری ہتھیاروں سے لیس پڑوسیوں کے درمیان تناؤ مزید بڑھ گیا۔

سابق ہائی کمشنر اجے بیساریا اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’انڈیا نے امریکہ اور برطانیہ سمیت متعدد سفارتی چینلز کو اسلام آباد پر دباؤ ڈالنے کے لیے متحرک کر دیا۔‘

انڈین پیغام میں کہا گیا تھا کہ ’پاکستان کی طرف سے صورتحال کو مزید خراب کرنے یا پائلٹ کو نقصان پہنچانے کی کوئی بھی کوشش کشیدگی میں اضافے کا سبب بنے گی۔‘

28 فروری کو اس وقت پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے انڈین پائلٹ کی رہائی کا اعلان کیا اور یکم مارچ کووِنگ کمانڈر ابھینندن کو انڈیا کے حوالے کر دیا گیا۔

پاکستان نے اس اقدام کو کشیدگی کم کرنے کے لیے ’جذبہ خیر سگالی‘ کے طور پر پیش کیا۔

پانچ مارچ تک انڈیا کے سیاسی درجہ حرارت میں کمی آ چکی تھی۔ کابینہ کی کمیٹی برائے سکیورٹی نے انڈین ہائی کمشنر کو واپس پاکستان بھیجنے کا فیصلہ کیا جو سفارت کاری کی جانب ایک اشارہ تھا۔

اجے بیساریا لکھتے ہیں کہ میں پلوامہ کے 22 روز بعد 10 مارچ کو اسلام آباد پہنچا۔ ’کارگل کے بعد سب سے زیادہ سنگین فوجی معاملہ ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں ختم ہو گیا۔‘

’انڈیا پرانے انداز کی سفارت کاری کو ایک اور موقع دینے کے لیے تیار تھا۔ اس سے انڈیا نے ایک سٹریٹجک اور فوجی مقصد حاصل کر لیا اور پاکستان نے اپنے ملک میں فتح کا دعویٰ کیا۔‘

اجے بیساریا نے اسے ایک سفارت کار کے لیے ’آزمائشی اور دلچسپ وقت‘ قرار دیا لیکن وہ کہتے ہیں کہ سب سے اہم فرق یہ ہے کہ اس بار نشانہ انڈین شہری تھے اور ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ حملہ ایسے وقت میں ہوا جب کشمیر میں حالات ڈرامائی طور پر بہتر ہو چکے تھے۔

اجے بیساریا ایسے حالات میں کشیدگی کو ناگزیر قرار دیتے ہیں تاہم ان کا ماننا ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ کشیدگی کم کرنے کی کوششیں بھی جاری رہتی ہیں۔

’جب کابینہ کی کمیٹی برائے سکیورٹی ایسے تنازعات کے دوران ملتی ہے تو ان کے فیصلوں سے تنازع کے معاشی اثرات کا جائزہ بھی لیا جاتا ہے اور ایسے اقدامات کی کوشش کی جاتی ہے، جن کے ذریعے انڈیا کو نقصان پہنچے بغیر پاکستان کو نقصان اٹھانا پڑے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’اس بار باڈی لینگوئج اور آپٹکس ایک جیسے ہیں لیکن انڈیا کی جانب سے سب سے اہم اقدام سندھ طاس معاہدے کی معطلی ہے۔ اگر انڈیا ایسا کرتا ہے تو اس کے پاکستان کے لیے دیرپا سنگین نتائج ہوں گے۔‘

اجے بیساریا کہتے ہیں کہ ’یاد رکھیں ہم ابھی بھی اس تنازع کے درمیان میں ہیں اور ابھی تک ہم نے کوئی فوجی کارروائی نہیں دیکھی۔‘

پلوامہ: حملہ آور عادل ڈار کے گھر کا آنکھوں دیکھا حالپہلگام حملہ انڈین سکیورٹی اداروں کی ناکامی، پاکستان اور انڈیا کے درمیان باقاعدہ جنگ کا امکان نہیں: سابق سربراہ ’را‘ کا بی بی سی کو انٹرویوپہلگام حملہ اور آئی ایس آئی سربراہ کی بطور مشیر قومی سلامتی تعیناتی: عاصم ملک کون ہیں اور پاکستان حکومت کا یہ فیصلہ کیوں اہم ہے؟پہلگام: انڈیا میں تحقیقات کہاں تک پہنچیں اور پاکستان کیوں غیر جانبدارنہ تحقیقات کا مطالبہ کر رہا ہے؟ابھینندن ورتھمان: پاکستان کی تحویل میں انڈین پائلٹ کی موجودگی کے دوران پسِ پردہ کیا ہوتا رہا؟’مجھے چپ رہنے کو کہا گیا‘: سابق گورنر نے پلوامہ حملے پر مودی حکومت کو کیوں موردالزام ٹھہرایا؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More