17 نومبر 2008 پیر کا دن تھا۔ اُس وقت کی مہمند ایجنسی کے ایک گاؤں بھائی کورونہ میچنی کے ایک کچے مکان پر نامعلوم مقام سے دو راکٹ داغے گئے، جس میں یہ مکان اور اس میں موجود تمام سامان مکمل طور پر تباہ ہو گیا۔ اس کے مکین جو برسوں سے یہاں رہ رہے تھے، خوش قسمتی سے ایک دن پہلے ہی چارسدہ منتقل ہو چکے تھے۔اور آج پانچ مئی 2025 پیر کا دن ہے، گارے اور سیمنٹ سے بنے اس مکان میں ایک بڑا برآمدہ بنا ہوا ہے، جس سے سلائی مشینوں اور ہنستی بولتی خواتین کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔مشال سینٹر میں مختلف عمر کی خواتین سلائی کڑھائی میں مصروف ہیں، کسی کے ہاتھ میں کپڑے ہیں اور کٹنگ کر رہی ہیں، تو کسی کے ہاتھ میں رنگین دھاگے اور کڑھائی کر رہی ہیں۔اسی مکان کے باہر ایک کمرہ بنا ہوا ہے، جہاں کچھ نوجوان مطالعے میں مصروف ہیں، اور کچھ علمی گفتگو میں۔مشال سینٹر اور یہ چھوٹی سی ’پبلک لائبریری‘ ایک نوجوان نجیب اللہ مہمند کی انتھک کوششوں کا نتیجہ ہے، جس نے کم عمری میں غربت، دہشت گردی، اور سکولوں کو تباہ ہوتے دیکھا۔30 برس کے نجیب اللہ مہمند جو ’پرائڈ آف پاکستان‘ ہیں، ضلع مہمند میں سوشل ورکر کی حیثیت سے مشہور ہیں، وہ اپنے علاقے کے نوجوانوں کو نہ صرف گھر گھر تک کتابیں پہنچا رہے ہیں، بلکہ انہوں نے خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والی خواتین کے لیے مفت سلائی کڑھائی کا ایک سینٹر بھی کھولا ہے، جو وہاں اپنی ضروریات کو پورا کرنے کا خواب دیکھ رہی ہیں۔گزشتہ ایک دہائی کے دوران افغانستان کی سرحد سے متصل پاکستان کے قبائلی علاقے دہشت گردی کی لپیٹ میں رہے، یہ وہ سیاہ دور تھا جب سکولوں کو نشانہ بنایا جا رہا تھا، اور ریاست کی رِٹ کو چیلنج کیا جا رہا تھا۔اس دوران پاکستان کی وفاقی حکومت نے ان علاقوں میں شدت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن کیے، جس کی وجہ سے لاکھوں افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے تھے۔ضلع مہمند کے ہر عمر کے لوگ لائبریری سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ (فوٹو: نجیب اللہ مہمند)نجیب اللہ مہمند کے مطابق ’یہ وہ وقت تھا جب ایک نسل مایوسی اور مواقع سے محروم ہو گئی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب سکولوں کو بارودی مواد سے اڑایا جا رہا تھا، میرا سکول بھی بم سے اڑایا گیا تھا، جب میں میٹرک کی تعلیم حاصل کر رہا تھا۔‘انہوں نے 2024 میں خواتین کے لیے مشال کے نام سے ایک سینٹر کا آغاز کیا، جو ان کے مطابق ’ضلع مہمند کا واحد سلائی کڑھائی کا سینٹر ہے۔‘کیا وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے ہی بل بوتے پر ایک سلائی سینٹر اور لائبریری قائم کی؟اردو سے گفتگو میں نجیب اللہ مہمند نے کہا کہ ’میں خود بھی ایک غریب گھرانے سے ہوں، اور علاقے میں بھی غربت کو قریب سے دیکھا ہے۔ اس لیے میری خواہش تھی کہ نوجوانوں کے لیے بنیادی نوعیت کے کتابوں کا بندوبست کر سکوں جو ان کے امتحانات میں مددگار ثابت ہوں، اور وہ خواتین جنہوں نے 100 روپے بھی مشکل سے دیکھے ہیں، ان کو ایک باعزت روزگار کا موقع فراہم کر سکوں۔‘ان کے مطابق ’مشال جس کا مطلب ہے چراغ جلانا ہے، تو میں نے 2014 میں مٹی کے بنے ایک کمرے سے ایک چراغ جلایا تھا، جب میری عمر 17 برس تھی، اور فاٹا کی پہلی لائبریری 140 کتابوں کے ساتھ کھولی تھی۔ نوجوانوں کے پاس کوئی لائبریری نہیں تھی۔ اس لیے میں نے لائبریری بنائی۔‘انہوں نے بتایا کہ 2015 میں موبائل لائبریری سروس کا بھی آغاز کیا، اور موٹر سائیکل کے ذریعے گھر گھر کتابیں پہنچائیں۔ ’میرا اس دوران مشاہدہ رہا کہ لڑکیوں اور خواتین نے سب سے زیادہ اس لائبریری سے فائدہ اٹھایا۔‘نجیب اللہ مہمند کو علاقے میں خدمات سرانجام دینے کی وجہ سے گزشتہ برس 23 مارچ ’پرائیڈ آف پاکستان‘ ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔انہوں نے کہا کہ 2021 میں پیس اینڈ کونفلکٹ سٹڈیز میں نیشنل ڈیفنس ایم فِل کیا ہے کہ ’میں نے خود تنازع کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ میں نے یہ سبجیکٹ اس لیے منتخب کیا کہ میں امن کے لیے کیا کر سکتا ہوں۔‘2018میں 25ویں آئینی ترمیم کے بعد خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع کی حالت آج بھی نہیں بدلی۔ قبائلی اضلاع کے مکینوں کا کہنا ہے کہ انضمام کے باجود تعلیم، صحت، معاشی ترقی، امن و امان کی صورتحال اور انفراسٹرکچر کی حالت آج بھی وہی ہے۔شائستہ نامی خاتون نے 40 برس کی عمر میں سلائی کا کام سیکھا۔ (فوٹو: نجیب اللہ مہمند)’نہ تعلیم، نہ مدرسہ، کم از کم ہنر ساتھ ہونا چاہیے‘مشال سینٹر میں مختلف عمر کی خواتین سلائی کڑھائی میں مصروف ہیں، کسی کے ہاتھ میں کپڑے ہیں اور کٹنگ کر رہی ہیں، تو کسی کے ہاتھ میں رنگین دھاگے اور کڑھائی کر رہی ہیں۔40 برس کی شائستہ نامی خاتون نے اردو نیوز کو بتایا کہ جب تعلیم حاصل کرنے کی عمر تھیں، تو اُس وقت سکول کی سہولت دستیاب نہیں تھی کہ وہ پڑھ لکھ نہ سکیں۔ان کے شوہر مزدور ہیں اور بمشکل گھر کی ضروریات پوری کر پاتے ہیں۔ ’اس عمر میں کام سیکھنے کا موقع ملا ہے، اب شوہر کے ساتھ گھر چلا رہی ہوں۔ تعلیم کا موقع تو نہیں ملا لیکن میں خوش ہوں کہ تعلیم جتنی خوشی مجھے اس سینٹر سے ملی۔ آج صاحب روزگار ہوں۔ میں نے ہنر اور کپڑوں کی سلائی کے ساتھ اس کے ڈیزائن بنانا بھی سیکھ لیے ہیں۔ اب میں سلائی سے پیسے کما رہی ہوں، اور بچوں کو پڑھا رہی ہوں۔‘نجیب اللہ مہمند مزید بتاتے ہیں کہ ’یہاں ایسی خواتین بھی آتی ہیں کہ جن کے لیے 100 روپے بھی خواب ہوتا تھا، کہ کیسے کمائیں گے۔ اب اس علاقے کی خواتین اسی سینٹر کی بدولت 1200 ہفتہ کما لیتی ہیں۔‘اس سینٹر میں پشاور کی خواتین ٹرینرز تربیت دیتی ہیں۔ سلائی مشینیں نجیب اللہ مہمند نے مخیر حضرات سے حاصل کی ہیں۔انہوں نے یہ بھی شکوہ کیا کہ ضلع مہمند کے منتخب نمائندگان نے کبھی ان کی مدد نہیں کی۔نجیب اللہ مہمند کی والدہ دنیا بی بی جنہوں نے شوہر کی غیرموجودگی میں اپنے گھر کو سنبھالا، ہر صبح سینٹر اور لائبریری کا دروازہ کھولتی ہیں۔وہ علاقے کی دیگر خواتین کی طرح خود بھی ان پڑھ ہیں، تاہم اکثر خواتین کو یہ مشورہ دیتی ہیں کہ زندگی کا پہیہ چلانے کے لیے خواتین کو کم از کم ہنر سیکھ لینا چاہیے۔’نہ تعلیم، نہ مدرسہ، کم از کم ہنر ساتھ ہونا چاہیے، زندگی تھوڑی سی آسان ہو جاتی ہے۔‘نجیب اللہ مہمند نے 2024 میں خواتین کے لیے مشال کے نام سے ایک سینٹر کا آغاز کیا۔ (فوٹو: نجیب اللہ مہمند)’لائبریری کی کتابوں کی وجہ سے اپنی بیماری بھول گیا ہوں‘عبدالواحد جو گورنمنٹ ڈگری کالج یکہ غونڈ میں لیکچرار ہیں، آج کل مقابلے کی امتحان کی تیاری اسی لائبریری سے کر رہے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ میچنی جیسے پسماندہ علاقے میں ایسی پبلک لائبریری کا ہونا بڑی بات ہے۔ ’میں میٹرک سے اس لائبریری سے فائدہ اٹھا رہا ہوں، لیکچرار کے امتحان کے لیے یہاں سے تیاری کی اور اب مقابلے کے امتحان کے لیے یہاں سے تیاری کر رہا ہوں۔‘ان کے مطابق سابق قبائلی اضلاع کے ضم ہونے سے قبل خواتین تعلیم کا نہیں سوچ سکتی تھیں، اور لڑکوں کے لیے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا مشکل کام ہوتا تھا۔’قبائلی اضلاع کے ضم ہونے کے بعد اب تھوڑی بہت آگاہی آ گئی ہے۔ لوگ اپنی بچیوں کو پڑھانے لگ گئے ہیں۔ ہمارا ایک سینچری اولڈ سسٹم تھا، اس کو بدلنے میں وقت لگے گا، لیکن ہم تبدیلی دیکھ رہے ہیں۔‘الف خان ایک سابق سکول ٹیچر رہ چکے ہیں، وہ پہلے خود اس لائبریری جاتے تھے۔ تاہم اب ذیابیطس کی وجہ سے ان کو ہاتھ پاؤں سے محروم ہونا پڑا۔ وہ گھر پر ہی لائبریری سے کتابیں منگواتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ’میں شوگر کا مریض ہوں، چارپائی پر پڑا ہوں، چھ سات سال سے میں اس لائبریری کی کتابیں پڑھ رہا ہوں۔ ان کتابوں کی وجہ سے میں اپنی بیماری بھول گیا ہوں۔ اب تک 210 کتابیں پڑھی ہیں۔ یہ کتابیں نہ ہوتیں تو میں تو کمرے میں پڑا رہتا، اور صرف چھت کو گھور رہا ہوتا۔