پاکستان میں رواں سال کے آخر پر گندم کے بڑے بحران کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے، ملک میں خوراک کی کمی کو پورا کرنے کیلئے حکومت اور پرائیویٹ سیکٹر کو 4 سے 5 ملین میٹرک ٹن گندم درآمد کرنا پڑے گی جس پر کم از کم تین ارب ڈالرز خرچ کرنا پڑینگے۔
ذرائع کے مطابق رواں سال28 ملین میٹرک ٹن گندم پیدا کرنے والے کسان کو ایک من گندم پر 1500 روپے کا نقصان ہو رہا ہے، لیکن گرائونڈ پر کاشتکاروں کے مطابق گندم کے بحران سے نمٹنے کیلئے کسانوں کی بات سننے والا کوئی نہیں اور نہ ہی منافع خوروں اور غلط پالیسی بنانے والوں سے کوئی پوچھنے والا ہے۔
ایسے لگتا ہے کہ ایک بار پھر گندم اسمگل ہوگی یا پھر ذخیرہ اندوز پیسہ کمائیں گے؟ لوگ قطاروں میں لگ کر آٹا خریدنے پر مجبور ہوں گے؟
ہر پاکستانی ایک سال میں 125 کلوگرام گندم کھا جاتا ہے۔ پاکستان ایگریکلچر ریسرچ سینٹر کا دعویٰ ہے کہ گندم کا آٹا اور اس سے بنی اشیاء کھانے کے حوالے سے دنیا بھر میں پاکستانیوں کا شاید ہی کوئی ثانی ملے گا۔
ایک عام آدمی روزانہ 72 فیصد کیلوریز 450 گرام گندم کھا کر پوری کرتا ہے۔ پاکستان میں جو کہ دنیا میں گندم پیدا کرنے والا ایک بڑا ملک ہے ایک بار پھر گندم کے بحران کی زد میں ہے لیکن ابھی پہلی چوٹ گندم کاشت کرنے والے کسان کے سر پر پڑی ہے۔ سندھ میں کسان گندم کاٹ چکا ہے جب کہ پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں گندم کی کٹائی کا کام جاری ہے۔ اگلے چند دنوں میں جب وہ گندم کی کٹائی مکمل کر لے گا تو اس کو فکر لاحق ہوگی کہ اب اضافی گندم کو کس ریٹ پر اور کس کے ہاتھ فروخت کرنا ہے؟
ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اس مرتبہ کسان نے ایک من گندم پر تقریباً 3300 سے 3400 روپے خرچ کیا ہے جب کہ اس وقت مارکیٹ میں فی من گندم کا ریٹ 2000 سے 2100 روپے تک ہے۔ اگر ایک تقابل کیا جائے تو حیران کُن اعداد و شمار سامنے آتے ہیں۔ پریشان کُن صورت حال کچھ یوں ہے کہ 175 من گندم کی قیمیت ایک تولہ سونے سے بھی کم ہے۔
رواں سال گندم کی پیداوار کے بارے میں حکومت کو توقع ہے کہ 28 ملین میٹرک ٹن ہو گی۔ یاد رہے کہ گذشتہ برس گندم کی پیداوار 31.6 ملین میٹرک ٹن رہی، خیال کیا جا رہا ہے کہ اس سال خشک موسم، بارانی علاقوں میں پانی کی قلت اور مہنگی کھاد اور ادویات کے باعث گندم کی کاشت کے رقبے میں تقریباً 7 فیصد کمی واقع ہوئی ہے جس کا لامحالہ اثر گندم کی سالانہ پیداوار پر پڑے گا۔
اس میں شک نہیں کہ اس سال بعض وجوہات کے باعث گندم کی پیداوار توقع سے کم ہوئی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی وہ کسان جو سارا سال گندم کی فصل کا انتظار کرتا ہے تاکہ اپنے اخراجات پورے کرسکے اور اگلی فصلوں کی تیاری کر سکے۔ لیکن رواں سال کسان شدید مالی نقصانات کا سامنا کرے گا۔
پاکستان میں گندم کی موجودہ صورتحال تشویشناک ہے، کیونکہ حکومتی پالیسیوں، موسمیاتی تبدیلیوں، اور کسانوں کی بدلتی ہوئی ترجیحات نے اس بحران کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ رواں سال گندم کی پیداوار گزشتہ سال کی 31.6 ملین میٹرک ٹن کی پیداوار سے 11% سے 13% کم ہے۔ اس کمی کی بنیادی وجوہات میں خشک موسم، بارانی علاقوں میں پانی کی قلت، اور کاشت کے رقبے میں 6.8% کی کمی شامل ہیں۔
حکومت کی جانب سے گندم کی قیمتوں اور خریداری پالیسیوں میں غیر یقینی صور تحال کے باعث کسانوں کا اعتماد متزلزل ہوا ہے۔ کئی کسان گندم کی بجائے زیادہ منافع بخش نقد آور فصلوں کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔ مزید برآں، حکومت نے آئی ایم ایف کے دباؤ کے تحت گندم کی مارکیٹ کو ڈی ریگولیٹ کرنے کا فیصلہ کیا، جس سے حکومتی خریداری میں کمی دیکھنے میں آئی۔ ملک کی گندم کی سالانہ طلب تقریباً 30.9 ملین میٹرک ٹن ہے، جس کے مقابلے میں موجودہ پیداوار کم ہے۔
اس فرق کو پورا کرنے کے لیے پاکستان کو 1.7 ملین میٹرک ٹن گندم درآمد کرنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے، حکومت نے جولائی 2024 سے گندم کی درآمد اور برآمد پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ تاہم حکومت یہ کہتی ہے کہ قومی سطح پر گندم کی پیداوار 28.42 ملین ٹن رہی جو ہدف کو پورا کرنے کے لیے کافی ہے۔ گندم کی پیداوار میں پچھلے سال کے مقابلے میں نمایاں کمی آئی، 6.4% کم زمین زیر کاشت اور 10.66% کم مجموعی پیداوار ہوئی ماہرین نے متعدد عوامل کو مورد الزام ٹھہرایا۔
موسمی نمونوں کی تبدیلی، مارکیٹ کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ، اور ریگولیٹڈ سے ڈی ریگولیٹڈ گندم مارکیٹ سسٹم میں سخت تبدیلی اور حکومتی ناقص پالیسیاں شامل ہیں۔ حکومتی نمائندے، وفاقی حکومت، پاسکو، پنجاب حکومت اور وزارت خوراک جو اس موجودہ بحران کے معاملات کو دیکھ رہے ہیں وہ اپنا گندم کے بحران کے معاملے پر موقف کسی بھی وقت دے سکتے ہیں۔