’ڈاکو راج کے مترادف‘: ٹیکس افسران کو لامحدود اختیارات دینے سے فائدہ ہوگا یا نقصان؟

اردو نیوز  |  May 06, 2025

پاکستان میں ٹیکس وصولی کا نظام ہمیشہ سے پیچیدہ، سست اور عدالتی پیچیدگیوں میں گھِرا رہا ہے۔ تاہم اتوار کو صدر آصف علی زرداری کے دستخط سے جاری ہونے والے ’ٹیکس لاز (ترمیمی) آرڈیننس 2025‘ نے فیڈرل بورڈ آف ریوینیو (ایف بی آر)  کو وہ اختیارات دے دیے ہیں جن کی ایف بی آر ماضی میں بارہا خواہش کرتا رہا ہے۔

ایف بی آر اب عدالت سے اپنے حق میں فیصلہ آنے کی صورت میں بغیر کسی نوٹس کے نہ صرف ٹیکس دہندہ کے بینک اکاؤنٹس منجمد کرنے بلکہ منقولہ و غیرمنقولہ جائیداد سے بھی براہ راست رقوم وصول کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کی شق 138 کے تحت اب نیا نوٹس جاری کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔

صرف یہی نہیں بلکہ ایف بی آر کو نئے آرڈیننس کے ذریعے کاروباری اداروں کے اندر ٹیکس اہلکار تعینات کرنے کا اختیار بھی حاصل ہو گیا ہے جو پیداوار، سپلائی اور سٹاک کی براہ راست نگرانی کر سکیں گے۔

لیکن ماہرینِ قانون و معیشت اور تاجر برادری ایف بی آر کے اختیارات کو زیادہ قرار دے رہے ہیں اور قانونی طور پر بھی ان کی بنیاد کو کمزور سمجھتے ہیں۔

ایف بی آر کے آرڈیننس میں مزید کیا اختیارات شامل ہیں؟

صدرِ مملکت آصف علی زرداری کی منظوری سے جاری اس آرڈیننس کے ذریعے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 اور فیڈرل ایکسائز ایکٹ 2005 میں اہم ترامیم کی گئی ہیں جن میں ایف بی آر کو یہ اختیارات دیے گئے ہیں کہ وہ پیداواری مراکز یا کاروباری مقامات پر ٹیکس اہلکار تعینات کر کے پیداوار، سامان کی سپلائی اور غیر فروخت شدہ اشیا کے سٹاک کی نگرانی کر سکے۔

اس آرڈیننس کے تحت ایف بی آر کے افسروں کو منقولہ و غیرمنقولہ جائیدادیں ضبط کر کے فروخت کرنے، بینک اکاؤنٹس منجمد کرنے اور کسی بھی شخص یا ادارے کے خلاف فوری کارروائی کا اختیار دے دیا گیا ہے۔

آرڈیننس کے تحت انکم ٹیکس آرڈیننس کی سیکشن 138 (3A) اور 140 (6A) میں ترمیم کی گئی ہے، جن کے تحت ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ٹیکس فوری قابلِ ادائیگی اور قابلِ وصول ہو گا، چاہے دیگر قوانین کچھ بھی کہتے ہوں۔

سیکشن 175C کے تحت ایف بی آر کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ کاروباری مقامات پر افسر تعینات کرے جو براہِ راست نگرانی کر سکیں۔

ایف بی آر کو نئے آرڈیننس کے ذریعے کاروباری اداروں کے اندر ٹیکس اہلکار تعینات کرنے کا اختیار مل گیا ہے۔ فائل فوٹو: پکسابے

اسی طرح فیڈرل ایکسائز ایکٹ 2005 میں کی گئی ترامیم کے مطابق جعلی ٹیکس اسٹیمپ، بارکوڈز یا لیبلز کے خلاف کارروائی کا دائرہ وسیع کر دیا گیا ہے، اور صوبائی و وفاقی حکومتوں کے اہلکاروں کو بھی انفورسمنٹ کا اختیار دیا گیا ہے۔

ماہرین کی رائے

ٹیکس قوانین کے ماہر اور حکومتی اداروں کے ساتھ کام کا تجربہ رکھنے والے معیشت دان ڈاکٹر اکرام الحق کے مطابق اگر سینیٹ اور قومی اسمبلی کا اجلاس چل رہا ہو تو حکومت کو آرڈیننس کا سہارا نہیں لینا چاہیے۔ لیکن ہمارے ہاں ہر حکومت اپنی پسند کے قوانین نافذ کرنے کے لیے آرڈیننس کا سہارا لیتی ہے۔

انہوں نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ٹیکس قوانین میں ایف بی آر کو دیے گئے اختیار کا ذکر کیا کہ ’عدالت کا فیصلہ ایف بی آر کے حق میں آ جاتا ہے تو وہ نوٹس جاری کیے بغیر کسی کمپنی یا شخص سے مطلوبہ ٹیکس حاصل کر سکتا ہے۔ لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فیصلہ اگر ایف بی آر کے حق میں نہ آئے تو کیا وہ اس کمپنی یا ادارے کو ریفنڈ بھی کریں گے؟ اگر ایف بی آر کے لیے کوئی قانون بنانا تھا تو قانون دو طرفہ ہوتا، جہاں ایف بی آر کسی شخص یا کمپنی سے ٹیکس لے بھی سکتا تھا اور فیصلہ اس کے حق میں نہ آنے کی صورت میں وہ اس کمپنی یا شخص کو ریفنڈ بھی کر سکتا تھا۔‘

عدالتی اپیل کا حق

ڈاکٹر اکرام الحق نے مزید بتایا کہ ’پاکستان کے قانون کے مطابق ہائیکورٹ سے فیصلہ آنے کے بعد اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں جانے کا اختیار موجود ہے لیکن آپ اگر کسی شہری کے رائٹ ٹو اپیل سے پہلے ہی فوری کارروائی شروع کر دے تو کیا یہ خود ہی آئین کے خلاف اقدام نہیں ہوگا؟‘

انہوں نے ایف بی آر کے افسروں کو فیلڈ میں تعینات کرنے کے معاملے پر بتایا کہ ’فیڈرل بورڈ آف ریوینیو کو اپنی ڈیجیٹلائزیشن اور اپنے سٹاف کی جدید تقاضوں کے مطابق تربیت کرنی چاہیے نہ کہ ان کو فیلڈ میں تعینات کرنا چاہیے۔ فیلڈ میں افسروں کی تعیناتی سے کرپشن اور کمپنیوں اور مختلف کاروباری اشخاص پر اثر و رسوخ میں اضافہ ہوگا جس سے مزید ٹیکس شارٹ فال کا امکان پیدا ہو سکتا ہے۔ البتہ اس اقدام سے ٹیکس کلیکشن میں بہتری کی توقع نہیں۔‘

ڈاکٹر اکرام الحق کے مطابق کمپنیوں کے بینک اکاؤنٹس سے ٹیکس حاصل کرنا اور ان اکاؤنٹس کو منجمد کر دینے کا اقدام سمجھ سے بالاتر ہے۔ آپ اگر کسی کمپنی کا اکاؤنٹ منجمد کرتے ہیں تو وہ کمپنی اپنے آپریشن کیسے چلائے گی؟ اپنے ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی اور دیگر اخراجات کیسے کرے گی؟ یہ ایف بی آر کو ایک غیر ضروری اختیار دیا گیا ہے۔‘ 

تجزیہ کاروں کے مطابق ٹیکس لاز آرڈیننس 2025 کے عدالتوں میں چیلنج ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔ فائل فوٹو: اے پی پیایف بی آر کو اختیارات دینے کے مقاصد

ڈاکٹر اکرام الحق نے واضح کیا کہ ’ایف بی آر کو یہ اختیارات دینے کا مقصد موجودہ مالی سال میں ٹیکس ہدف کو پورا کرنا ہے کیونکہ جون کے مہینے میں ایف بی آر کو پہلے ہی 70 سے 80 لاکھ کے ٹیکس خسارے کا سامنا ہے۔‘

تاجر برادری کیا کہتی ہے؟

صدر مرکزی تنظیم تاجران پاکستان کاشف چوہدری نے ٹیکس افسروں کو لامحدود اختیارات دینے کے حکومتی فیصلے کو معیشت دشمن اقدام قرار دیا ہے۔

اُنہوں نے بتایا کہ ’کرپشن کا بازار گرم کرنے کے لیے ٹیکس افسروں کے اختیارات میں لامحدود اضافہ کیا گیا ہے، قانونی کارروائی یا نوٹس کے بغیر کاروباری افراد کے اکاؤنٹس سے پیسہ نکلوانے کا اختیار دینا ڈاکو راج کے مترادف ہے۔‘

کاشف چوہدری کا کہنا تھا کہ ’مارکیٹوں اور کاروباری مقامات پر ٹیکس افسروں کو تعیناتی کی اجازت نہیں دی جائے گی کیونکہ یہ اختیار کاروباری سرگرمیوں کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’حکومت کو فوری طور پر انکم ٹیکس ترمیمی آرڈیننس واپس لینے کا الٹی میٹم دیتے ہیں۔ حکومت نے اگر ملک اور تاجر دشمن ترمیمی آرڈیننس واپس نہ لیا تو تاجر برادری آئندہ کا لائحہ عمل دے گی۔‘

آرڈیننس کے تحت انکم ٹیکس آرڈیننس کی سیکشن 138 (3A) اور 140 (6A) میں ترمیم کی گئی ہے۔ فائل فوٹو: فری پِکس’آرڈیننس کے عدالتوں میں چیلنج ہونے کے امکانات ہیں‘

کارپوریٹ اور ٹیکس قوانین کے وکیل ایڈووکیٹ خرم ابراہیم بیگ کے مطابق حکومت کی جانب سے متعارف کروائے جانے والے ٹیکس لاز آرڈیننس 2025 کے عدالتوں میں چیلنج ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔ 

انہوں نے بتایا کہ ’عام طور پر کوئی بھی آرڈیننس 90 دن کے لیے نافذ العمل رہ سکتا ہے، تاہم ہمارے پاس تاریخ میں کچھ ایسے شواہد موجود ہیں کہ بعض آرڈیننسز پر طویل عرصے تک عمل درآمد کیا جاتا رہا۔ لیکن وہ آرڈیننس مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں۔ اس قسم کے ٹیکس لاز والے آرڈیننس زیادہ عرصہ نہیں چلتے۔‘

انہوں نے واضح کیا کہ پارلیمان سے منظور ہونے والے قانون کے مقابلے میں آرڈیننس کو بہت کمزور سمجھا جاتا ہے اسی وجہ سے یہ اکثر عدالتوں میں چیلنج کر دیے جاتے ہیں۔ ’حکومت کو چاہیے کہ وہ پارلیمان کی بجائے شارٹ کٹ لیتے ہوئے آرڈیننس کے ذریعے قوانین نافذ نہ کرے۔‘

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More