بھارت نے ایک بار پھر سندھ طاس معاہدے کو نظر انداز کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں دو نئے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس پر کام شروع کر دیا ہے، جن میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش میں اضافہ بھی شامل ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق بھارت نے ان منصوبوں سے متعلق پاکستان کو پیشگی اطلاع نہیں دی، جو کہ سندھ طاس معاہدے کی صریح خلاف ورزی ہے۔
یہ معاہدہ بھارت کو یکطرفہ طور پر ایسے اقدامات اٹھانے سے روکتا ہے۔
یاد رہے کہ بھارت پہلے ہی غیر قانونی طور پر اس معاہدے کو یکطرفہ معطل کرنے کا اعلان کر چکا ہے، حالانکہ یہ عالمی بینک کی ثالثی سے 1960 میں طے پایا تھا اور اس پر کوئی یکطرفہ قدم نہیں اٹھایا جا سکتا۔
بھارت کی جانب سے دریائے چناب پر قائم بگلیہار ڈیم کے بعد اب سلال ڈیم کے دروازے بھی بند کر دیے گئے ہیں، جس کے باعث پاکستان آنے والا پانی کم ہو کر صرف 5,300 کیوسک رہ گیا ہے۔
بھارتی اقدامات کو ماہرین نے آبی جارحیت قرار دیا ہے اور اسے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی بڑھانے والا عمل کہا جا رہا ہے۔
22 اپریل کو پہلگام میں پیش آئے فائرنگ کے واقعے کے بعد بھارت نے بغیر کسی تحقیق کے پاکستان پر الزام عائد کیا اور اسی بہانے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کا اعلان کر دیا، جسے پاکستان نے مکمل طور پر مسترد کر دیا ہے۔