نکاح کی تیاریاں قریباً مکمل ہو چکی تھیں۔ گھر میں شادی ہو رہی تھی، چناںچہ شور و غل اور موسیقی کا ہونا ایک فطری بات تھی۔لکھنؤ کے اُس گھر میں فلم ’رتن‘ کا مقبولِ عام گیت ’اکھیاں ملا کے جیا بھرما کے، چلے نہیں جانا‘ لاؤڈ سپیکر پر بج رہا تھا۔ لیکن دلہے کے سُسر کو یہ گیت شدید ناگوار گزرا۔ وہ بولے: ’ایسے گانے اس معاشرے کو برباد کر رہے ہیں جس نے یہ گانا بنایا ہے، اُسے جوتے مارنے چاہییں۔‘یہ سن کر سہرا سجائے دلہا کے ہوش اُڑ گئے۔ اُسے ڈر تھا کہ سسر کو اگر حقیقت کا علم ہو گیا تو قیامت آ جائے گی کیوں کہ سچ تو یہ تھا کہ اُس گیت کی دُھن دلہے کی ہی تخلیق کردہ تھی۔تاہم کسی نہ کسی طور پر نکاح ہو ہی گیا۔ اور وہ نوجوان، جس سے کوئی اپنی بیٹی بیاہنے کو تیار نہ تھا، بالآخر رشتہ ازدواج میں بندھ گیا۔اس دلہے کا نام نوشاد علی تھا، جو بعد میں ہندی فلمی موسیقی کی تاریخ کے عظیم ترین موسیقاروں میں شمار ہوئے۔چالیس کی دہائی کے غیرمنقسم ہندوستان میں، چاہے موسیقار فلموں میں ہی کیوں نہ کام کیا کرتے، اُنہیں سماجی طور پر حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ نوشاد کے والد جب اپنے بیٹے کے لیے رشتہ تلاش کر رہے تھے تو اکثر انہیں یہ کہہ کر ٹال دیا جاتا کہ وہ ایک ’میراثی‘ (یعنی موسیقار) کے باپ ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نوشاد نے اپنے والد سے بھی یہ حقیقت پوشیدہ رکھی تھی کہ وہ موسیقی کو بطور پیشہ اختیار کر چکے ہیں۔چناںچہ نوجوان موسیقار کے والد اکثر یہ کہا کرتے کہ اُن کے صاحبزادے تو بمبئی (ممبئی) میں موسیقار نہیں بلکہ درزی کا کام کرتے ہیں۔ یہ تو نوجوان موسیقار کی خوش قسمتی تھی کہ جب اُن کے سسرال والوں کو اُن کے اصل پیشے کا علم ہوا تو وہ اپنے فنی کیریئر کے عروج پر پہنچ چکے تھے۔بات نوشاد کی ہو اور ذکر کے ایل سہگل نہ ہو، یہ ممکن ہی نہیں۔ وہ ایک ایسے سپرسٹار تھے جن کا اثر مکیش سے لے کر محمد رفیع تک کئی بے مثل گلوکاروں پر دکھائی دیتا ہے۔یہ اُن کے عروج کے دن تھے جب وہ ہمہ وقت نشے میں دھت رہا کرتے۔ وہ کوئی گیت ریکارڈ کرواتے تو ریکارڈنگ سے قبل تھوڑی سی پی لیتے۔ یہ فلم ’شاہ جہاں‘ تھی جس کا ایور گرین گیت ’جب دل ہی ٹوٹ گیا‘ گلوکار نے دو بار گایا یعنی ایک بار پیگ لگانے سے پہلے اور ایک بار بعد میں۔اُن سے جب فلم کے موسیقار یعنی نوشاد نے دونوں گیتوں کی ریکارڈنگ کے بعد یہ استفسار کیا کہ اُن کو کون سا ورژن بہتر لگ رہا ہے تو انہوں نے عالمِ مدھوشی میں گیت کے اپنے پہلے ورژن کو بہتر قرار دیا اور موسیقار سے کہا کہ ’کاش میں نے تمہارے ساتھ پہلے کام کیا ہوتا۔‘نوشاد نے صرف کے ایل سہگل ہی نہیں بلکہ لتا منگیشکر، محمد رفیع، مکیش، طلعت محمود، رفیع، شمشاد بیگم، زہرہ بائی اور اُما بائی کے کیریئر کو آگے بڑھانے کے علاوہ اُن کی رہنمائی بھی کی۔ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ انہوں نے صرف ایورگرین گیت ہی تخلیق نہیں کیے بل کہ اُن کی موسیقی کی وجہ سے بہت سے عظیم گلوکاروں کا جنم بھی ہوا۔نوشاد نے صرف راگوں کو فلمی سانچے میں نہیں ڈھالا بلکہ کلاسیکی موسیقی کے بڑے ستونوں کو بھی سنیما سے جوڑا۔ فائل فوٹودلچسپ بات یہ ہے کہ ’سنگیت سمراٹ‘ (موسیقارِ اعظم) اور بالی وُڈ کی موسیقی کی روایت کا کوہِ نور کہلائے جانے والے نوشاد نے صرف 65 فلموں کے لیے موسیقی ترتیب دی، مگر ان کے گیتوں کی دُھنیں جن میں سے کئی امر ہو چکی ہیں، انہیں موسیقی کی دنیا کا بے تاج بادشاہ بنانے کے لیے کافی ہیں۔نوشاد کی موسیقی میں کلاسیکی اور لوک، غزل، بھجن اور قوالی کا ایک حسین امتزاج تھا۔ عہد ساز موسیقار ایس ڈی برمن نے ایک بار کہا تھا کہ ’نوشاد ہی سے موسیقاروں نے یہ سیکھا کہ معیار کو مقبولیت کے ساتھ کیسے ہم آہنگ کیا جائے۔‘لیکن نوشاد اپنی فنی عظمت کے بارے میں ہمیشہ منکسرالمزاجی کا مظاہرہ کیا کرتے تھے اور اپنی کامیابی کو خدائے بزرگ و برتر کی عطا قرار دیا کرتے تھے۔یہ عظیم موسیقار غیرمنقسم ہندوستان کے شہر لکھنؤ کے ایک متوسط مسلمان خاندان میں 25 دسمبر 1919 کو پیدا ہوئے۔ والد واحد علی منشی تھے۔نوشاد بچپن میں ہی موسیقی کے سات سُروں کے سحر میں کھو گئے۔ ان دنوں وہ لکھنؤ میں سازوں کی ایک دکان کے باہر کھڑے ہو کر حسرت بھری نگاہوں سے سازوں کو دیکھا کرتے۔دکان کے مالک غربت علی نے ایک روز بچے سے اُس کے وہاں کھڑے ہونے کی وجہ پوچھ ہی لی۔ بچے نے جواب دیا، وہ ملازمت کرنا چاہتا ہے۔ نوشاد کو اس دکان پر ملازمت ملی مگر اُن کے عزائم کچھ اور ہی تھے۔ وہ تو ہارمونیم بجانا چاہتے تھے۔ ایک روز وہ ریاض کر رہے تھے کہ دکان کے مالک غربت علی نے اُن کو دیکھ لیا اور ساز میلا کرنے پر خوب ڈانٹ پلائی مگر اُن کے دل میں کہیں یہ بات گھر کر گئی تھی کہ یہ بچہ کمال کی دُھن بجا رہا تھا تو انہوں نے نوشاد کو موسیقی کے ساز تحفے میں دینے کے علاوہ اُن کو موسیقی سکھانے کا بندوبست بھی کر دیا۔نوشاد کے لیے مگر یہ سفر آسان نہیں تھا۔ اُن کے والد کسی طور پر یہ نہیں چاہتے تھے کہ اُن کا بیٹا موسیقار بنے جس کے باعث دونوں میں اختلافات بھی پیدا ہوئے اور باپ نے دوٹوک انداز میں نوشاد کو کہہ دیا کہ ’تم گھر یا موسیقی میں سے کسی ایک کو منتخب کر لو۔‘نوشاد نے ایک روز جرأت کر کے والد سے کہہ ہی دیا کہ ’آپ کو آپ کا گھر مبارک اور مجھے میری موسیقی۔‘اُن دنوں ہی نوشاد کو لکھنؤ میں ایک ناٹک کمپنی میں ملازمت مل گئی جہاں اُن کی بنیادی ذمہ داری کمپنی کے ڈراموں کی موسیقی ترتیب دینا تھی اور یوں انہوں نے کمپنی کے ساتھ انڈیا بھر کا سفر کیا۔نوشاد کی موسیقی میں کلاسیکی اور لوک، غزل، بھجن اور قوالی کا ایک حسین امتزاج تھا۔ فائل فوٹو: سکرین گریب1937 میں نوجوان نوشاد اپنے ایک دوست سے 25 روپے قرض لے کر بالآخر ممبئی آ گئے جو اس وقت تک فلمی سرگرمیوں کا مرکز بن چکا تھا لیکن اُن کے لیے فلموں میں کام پانا آسان ثابت نہیں ہوا۔ بہت بار ایسا ہوا کہ اُن کو فٹ پاتھ پر رات گزارنا پڑی۔برطانوی اخبار ’گارڈین‘ کے لیے للت موہن جوشی لکھتے ہیں کہ ’نوشاد نے کسی قسم کے تعلقات کے بغیر سال 1940 میں ایم بھاونانی کی فلم ’پریم نگر‘ سے بطور میوزک ڈائریکٹر اپنے سفر کا آغاز کیا۔ لیکن اصل معنوں میں ‘نوشاد کے عہد‘ کا آغاز سال 1944 میں جامنی دیوان کی فلم ’رتن‘ سے ہوا، جس کے بعد وہ سب سے زیادہ معاوضہ لینے والے موسیقاروں کی فہرست میں شامل ہو گئے۔ اگلے تیس برسوں تک وہ شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں پر براجمان رہے۔‘دلچسپ بات یہ ہے کہ کچھ جگہوں پر ہی اس فلم کے پروڈیوسر کا نام جامنی دیوان لکھا ہے جو اداکار کرن دیوان کے بھائی تھے جنہوں نے فلم ’رتن‘ میں بھی اداکاری کی تھی اور وہ گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے تھے۔ فلم کے گیت نگار لیجنڈ شاعر ڈی این مدھوک بھی گوجرانوالہ سے ہی تھے جن کا نوشاد کے کیریئر کو آگے بڑھانے میں اہم کردار رہا۔حقیقت یہ ہے کہ اس فلم کے پروڈیوسر اے آر کاردار تھے، جن کے ساتھ نوشاد اس سے قبل فلموں ’نئی دنیا‘ اور ’شاردا‘ میں بھی کام کر چکے تھے۔جریدے ’ہیرلڈ‘ کے لیے ایم اے صدیقی لکھتے ہیں کہ ’نوشاد کو شہرت اُس وقت ملی جب انہوں نے سال 1944 میں فلم ’رتن‘ کے لیے موسیقی ترتیب دی، جو لاہور سے تعلق رکھنے والے عبدالرشید کاردار نے پروڈیوس کی تھی، وہ پاکستان کے پہلے ٹیسٹ کرکٹ کپتان عبدالحفیظ کاردار کے کزن تھے۔ فلم ’رتن‘ کی موسیقی کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ محض 75,000 روپے کے بجٹ سے بننے والی اس فلم کی موسیقی نے گراموفون ریکارڈز کی فروخت سے ہی 200,000 روپے سے زیادہ کما لیے۔‘نوشاد نے موسیقی میں آرکیسٹرا، سازوں اور آواز کے حوالے سے مختلف اختراعات کیں جو انقلابی ثابت ہوئیں۔ وہ پسِ پردہ گائیکی میں آواز اور موسیقی کو الگ الگ ریکارڈ کرنے والے پہلے موسیقار تھے۔ اسی طرح بانسری اور کلیرینٹ، ستار اور مینڈولن کو پہلی بار ایک ساتھ استعمال کرنے کا سہرا بھی انہی کے سر ہے۔نوشاد نے ہندی فلمی موسیقی میں اکارڈین متعارف کروایا، اور مختلف سازوں کو ملا کر منفرد دھنیں تخلیق کیں۔ نوشاد کی موسیقی کی ایک انفرادیت یہ بھی تھی کہ وہ کہانی کے جذبات اور فضا کو موسیقی سے اس طرح اجاگر کرتے کہ سامع خود کو منظر کا حصہ محسوس کرنے لگتا۔نوشاد بچپن میں ہی موسیقی کے سات سُروں کے سحر میں کھو گئے تھے۔ فوٹو: اے ایف پیسال 1946 میں ریلیز ہوئی فلم ’انمول گھڑی‘ کا ملکۂ ترنم نور جہاں کی آواز میں گایا گیت ’آواز دے کہاں ہے، دنیا میری جواں ہے‘ آج بھی سماعتوں میں رَس گھولتا ہے۔ نوشاد نے اس گیت کی دُھن کی تخلیق کے بارے میں بات کرتے ہوئے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’میں بیٹھ کر گانا نہیں بناتا، میری عادت ہے کہ جب کوئی دُھن میرے ذہن میں آ جائے تو پھر میں کھڑے ہو کر چلنا شروع کر دیتا ہوں۔ فلم’انمول گھڑی‘کا یہ گانا بنانے کے لیے میں کئی میلوں چلا ہوں گا۔ دُھن تھی کہ مکمل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ انسان کے شعور میں جو کچھ ہوتا ہے، وہی لا شعور میں بھی آ جاتا ہے۔ میں ایک دن اس دُھن پر تھوڑا کام کر کے سویا تو خواب میں یہ گانا مکمل کر لیا۔‘نوشاد کا ذکر ہو اور محمد رفیع پر بات نہ ہو، یہ ممکن ہی نہیں۔ یہ سال1949 کی بات ہے، محمد رفیع موسیقار نوشاد سے ملاقات کے لیے آئے۔ وہ کچھ بےچین اور دل گرفتہ دکھائی دے رہے تھے۔ انہوں نے موسیقار سے کہا کہ ‘بمبئی میں میرا من نہیں لگ رہا۔ میں پنجاب لوٹ رہا ہوں۔ وہاں راگوں پر منحصر ترانے گاؤں گا۔‘محمد رفیع اُس وقت اگرچہ شہرت حاصل کر رہے تھے مگر یہ نوشاد تھے جنہوں نے محمد رفیع کے ٹیلنٹ کو درست سمت دی۔ انہوں نے محمد رفیع کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ ’آپ چند روز رُکیے، میں آپ کے لیے ویسے ترانے بنائوں گا۔‘دونوں نے جلد ہی فلم ’دُلاری‘ (1949) میں ایک ساتھ کام کیا جس کے لیے محمد رفیع نے گیت ’سہانی رات ڈھل چُکی، نہ جانے تم کب آئو گے‘ گایا۔ یہ فلم بھی اے آر کاردار نے ہی پروڈیوس کی تھی۔اخبار ’دکن ہیرلڈ‘ اپنے ایک مضمون میں لکھتا ہے کہ ’بہت سے لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ محمد رفیع، رفیع اس لیے بنے کیوں کہ نوشاد نے نہ صرف اُن کی رہنمائی کی بل کہ اُن کی حیرت انگیز گائیکی پر کبھی شک نہیں کیا۔ نوشاد کا یقین، رفیع کے فن کا سب سے بڑا سہارا تھا۔ یہاں تک کہ جب 1970 کی دہائی کے اوائل میں کشور کمار کی ماورائی شہرت کے باعث رفیع کو خود پر شبہ ہونے لگا تو اس وقت بھی نوشاد اُن کے ساتھ کھڑے رہے۔‘یہ ذکر کرنا دل چسپی سے خالی نہ ہوگا کہ نوشاد نے کبھی کشور کمار کے لیے موسیقی ترتیب نہیں دی۔ کہا جاتا ہے کہ رفیع کلاسیکی موسیقی کی جانب جھکاؤ رکھتے تھے چناں چہ نوشاد نے اُن سے فلموں کے لیے کلاسیکی نوعیت کے گیت گوائے۔فلمی نقاد فہیم ملک اُردو جریدے ’شمع‘ (1984) میں لکھتے ہیں کہ نوشاد نے شکیل بدایونی سے محمد رفیع کو ذہن میں رکھتے ہوئے گیت لکھنے کے لیے کہا جس کے بعد یہ بے مثل تخلیقی تکون تشکیل پائی جس نے سامعین کو اپنے گیتوں سے سحرانگیز کر دیا۔نوشاد نے فلم ’شاہجہاں‘ کے گیتوں کی موسیقی ترتیب دی۔ فائل فوٹواس کی ایک مثال سال 1952 میں ریلیز ہوئی فلم ’بیجو باورا‘کا گیت ’اوہ دنیا کے رکھوالے، سُن درد بھرے میرے نالے‘ ہے جس میں یہ تکون اپنے فن کی معراج پر نظر آتی ہے۔ اختتامی الاپ ’رکھوالے، رکھوالے‘ نوشاد کا آئیڈیا تھا جس کے ذریعے وہ رفیع کی آواز کی وسعت کو نمایاں کرنا چاہتے تھے اور وہ اس میں کامیاب بھی رہے۔اخبار ’دکن ہیرلڈ‘ لکھتا ہے کہ ’نوشاد علی کو اپنے دور کے تمام عظیم ہم عصر موسیقاروں ایس ڈی برمن، چترگپت شریواستو، سلیل چودھری، روی شنکر شرما، مدن موہن، محمد ظہور خیام ہاشمی اور شنکرجےکشن پر نمایاں برتری حاصل تھی۔ وہ یہ کہ اگرچہ یہ سب اپنی اپنی جگہ پر کہنہ مشق موسیقار تھے، لیکن نوشاد ایک غیر معمولی حد تک اچھے شاعر بھی تھے۔’اُن کی سحر انگیز دُھنوں کے ساتھ اُن کی اپنی نفیس شعری حساسیت بھی جُڑی ہوتی تھی، جو اکثر اُن کے گیتوں میں نمایاں ہو کر سامنے آتی۔ یہ فنی امتزاج تب پوری شان کے ساتھ جلوہ گر ہوا جب نوشاد نے محمد رفیع سے گیت ’کوئی ساگر دل کو بہلاتا نہیں‘ (دل دیا درد لیا، 1966) یا ’آج پرانی راہوں سے، کوئی مجھے آواز نہ دے‘ (آدمی، شاعر: شکیل بدایونی، 1968) گوائے۔ یہ ذکر کرنا ازبس ضروری ہے کہ شکیل بدایونی نے جو گیت لکھے، اُن میں نوشاد کا لکھا کوئی نہ کوئی مصرعہ ضرور شامل ہوتا تھا۔‘ نوشاد نے جب لتا منگیشکر کے غیرمعمولی ہنر کو پہچانا، تو وہ ان کی پسندیدہ خاتون گلوکارہ بن گئیں۔ لتا نے نوشاد کی موسیقی میں 160 گیت گائے۔ چاہے وہ ’اُٹھائے جا اُن کے سِتم‘ (انداز) ہو،’موہے بھول گئے سانوریا‘ (بیجو باورا)، ہو یا ’ڈھونڈو ڈھونڈو رے سجنوا‘(گنگا جمنا)، نوشاد کی موسیقی اور لتا کی آواز سحر طاری کر دیا کرتی۔گلوکارہ نے نوشاد کو ایک ’پرفیکشنسٹ‘ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ ’ان کا علم صرف موسیقی تک محدود نہیں تھا۔ وہ پیانو بجانے میں بھی ماہر تھے، مغربی موسیقی کی نوٹیشنز اور تمام سازوں پر عبور رکھتے تھے۔‘سال 1960 میں ریلیز ہوئی فلم ’مغلِ اعظم‘ کے لیے استاد بڑے غلام علی خان سے گوانا آسان نہیں تھا۔ صحافی اور مصنفہ روشمیلا بھٹّاچاریہ اپنی کتاب ’میٹنی مین‘ میں اس واقعے کا ذکر کرتی ہیں کہ ’فلم مغلِ اعظم کے گیت ’پریم جوگن بن کے‘کے لیے ہدایت کار کے آصف نے یہ خواہش ظاہر کی کہ اسے لیجنڈری کلاسیکی گائیک استاد بڑے غلام علی خان سے گوایا جائے۔ نوشاد نے کے آصف کو بتایا کہ استاد صاحب فلموں کے لیے نہیں گاتے مگر کے آصف نے قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔یہ نوشاد تھے جنہوں نے گلوکار محمد رفیع کے ٹیلنٹ کو درست سمت دی۔ فائل فوٹووہ دونوں استاد بڑے غلام علی خان کے گھر گئے۔ کے آصف نے ان (استاد بڑے غلام علی خان) سے کہا کہ وہ جتنا چاہیں معاوضہ طلب کریں، وہ ادا کر دیں گے۔ استاد نے 25,000 روپے مانگے جو اس وقت کے لحاظ سے ایک ناقابلِ یقین رقم تھی، کیوں کہ عام گلوکاروں کو اس دور میں ایک گانے کے 500 سے 1000 روپے ملتے تھے لیکن کے آصف نے فوراً حامی بھر لی اور موقع پر ہی 10,000 روپے ایڈوانس بھی دے دیے۔‘نوشاد نے صرف راگوں کو فلمی سانچے میں نہیں ڈھالا بلکہ کلاسیکی موسیقی کے بڑے بڑے ستونوں کو بھی سنیما سے جوڑا۔ فلم ’بیجو باورا‘ میں استاد عامر خان اور پنڈت ڈی وی پالُسکر نے گایا، جب کہ ’مغلِ اعظم‘ میں استاد بڑے غلام علی خان نے اپنی آواز کا جادو جگایا۔یوں نوشاد نے کلاسیکی موسیقی کو عوام میں عام کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ نوشاد شاعر بھی تھے تو اُن کی اُردو شاعری کا مجموعہ ’آٹھواں سُر‘ بھی شائع ہوا۔نوشاد نے اپنے 65 سال پر مبنی طویل فنی کیریئر (1937 سے 2005) میں مجموعی طور پر 65 فلموں کے لیے موسیقی ترتیب دی، جن میں 636 گانے شامل ہیں۔ یہ تعداد کوئی بہت زیادہ نہیں ہے مگر یہ نوشاد کی فنی عظمت کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے۔ موسیقار کو دوسرے بہت سے اعزازات کے علاوہ دادا صاحب پھالکے ایوارڈ اور پدما بھوشن سے بھی نوازا گیا۔ہندی سنگیت کا یہ بے مثل فن کار آج ہی کے روز 5 مئی 2006 میں ممبئی میں 86 برس کی عمر میں چل بسا مگر اُن کا فنی ورثہ آج بھی زندہ، سانس لیتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔