"یہ کیا آپ لوگوں نے ڈرامہ لگایا ہوا ہے؟ بھارت اپنی پالیسیز پر ذرا غور کرے۔ آپ لوگ اپنے ہی شہریوں کو تنگ کر رہے ہیں۔ جن کی 40، 40 سال پہلے شادیاں ہوئیں، وہ خواتین اب بوڑھی ہو چکی ہیں، انہیں آپ پاکستان واپس بھیج رہے ہیں۔ یا تو ویزا ہی نہ دیتے 40 سال پہلے۔ یہ تو تقسیمِ ہند سے بھی بڑا ظلم ہو رہا ہے۔ ایک، ایک سال کے دودھ پیتے بچوں کو آپ ان کی ماؤں سے الگ کر رہے ہیں۔ بہانہ بنا کر آپ نے یہ سارا ڈرامہ "رچایا تاکہ مسلمانوں کو تنگ کر سکیں۔
جاوید اختر؟ انہیں تو بس بہانہ چاہیے تھا۔ ممبئی میں مکان نہیں ملا ہوگا، اب وہ اللہ کو بھی نہیں مانتے۔ نصیرالدین شاہ اور دوسرے لوگ چپ ہیں، اپنے دل کی بات اپنے تک رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن آپ؟ آپ تو وہاں جا کر پتہ نہیں کیا بولتے ہیں۔ یہاں سے ناچتے ہوئے جاتے ہیں اور وہاں جا کر شرمناک باتیں کرتے ہیں۔
یہ کہنا ہے سینیئر اداکارہ بشریٰ انصاری کا جنھوں نے حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے حوالے سے ویڈیو بنا کر بھارتیوں کے لتے لے لئے۔ بالخصوص جاوید اختر کو آڑے ہاتھوں لیا۔ بشریٰ نے مزید کہا کہ
میں یہاں بھارتی لڑکیوں سے ملی ہوں، بہت محبت سے ملتی ہیں۔ لوگ برے نہیں ہیں، آپ لوگ معاملات بگاڑتے ہیں۔ میں نے ویڈیوز دیکھی ہیں جن میں مسلمانوں کو مار کر نعرے لگوائے جا رہے ہیں، یہ جنتا نہیں، آپ کے بھڑکائے ہوئے چند افراد ہیں۔"
پہلگام کے واقعے کو جواز بنا کر بھارت نے جس طرح برسوں سے بسنے والوں کو سرحد پار دھکیلا، وہ صرف سیاسی چال نہیں بلکہ انسانی اقدار کی پامالی ہے۔ وہ مائیں جن کی آدھی زندگی بھارت میں گزری، اب ان کے بچوں کو واپس پاکستان بھیجا جا رہا ہے اور خود ماں کو بیچ راہ میں چھوڑا جا رہا ہے۔
بشریٰ انصاری نے نہ صرف بھارتی پالیسیز کی کھل کر مذمت کی بلکہ ان بھارتی شخصیات کو بھی آڑے ہاتھوں لیا جو اپنی شناخت بیچ کر خوشامد کے قصیدے پڑھتے ہیں۔ ان کی ویڈیو میں ہر لفظ ایک سوال بن کر گونج رہا تھا — "کیا یہی انسانیت ہے؟ کیا یہی نیا بھارت ہے؟"