Getty Images
پاکستان اور اس کے زیرِ انتظام کشمیر کے متعدد علاقوں پر انڈیا کے میزائل حملوں کے تقریباً 36 گھنٹوں کے بعد ایک بار پھر دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی اس وقت بڑھی جب انڈیا کی جانب سے پاکستان کے مختلف شہروں میں دراندازی کی کوشش کے دوران پاکستانی فوج نے متعدد ڈرونز مار گرانے کا دعویٰ کیا۔
جمعرات کو پاکستانی فوج کی جانب سے جاری کیے جانے والے ایک بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اب تک سافٹ کِل (تکنیکی طریقے سے) اور ہارڈ کِل (ہتھیاروں کے ذریعے) سے 25 اسرائیلی ساخت کے ہیروپ ڈرونز کو مار گرایا گیا ہے۔
اس سے قبل پاکستانی فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ 'انڈیا نے پاکستانی حدود کی دوبارہ خلاف ورزی کرتے ہوئے لاہور، گوجرانوالہ، چکوال، اٹک، راولپنڈی، بہاولپور، میانو چھور اور کراچی کی جانب ڈرون بھیجے، جنھیں تباہ کر دیا گیا۔'
دوسری جانب پاکستان کی جانب سے انڈیا پر ڈرونز کے ذریعے دراندازی کرنے اور اس دوران متعدد ڈرونز گرانے کے دعوے کے بعد انڈیا کا کہنا ہے کہ یہ کارروائی پاکستان کی بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب انڈین تنصیبات کو نشانہ بنانے کی کوشش کا جواب تھا۔
انڈیا کی وزاتِ دفاع کی جانب سے جمعرات کو جاری کیے گئے بیان میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ سات اور آٹھ مئی کی درمیانی شب پاکستان نے ڈرونز اور میزائلوں کی مدد سے شمالی اور مغربی انڈیا میں متعدد عسکری اہداف کو نشانہ بنانے کی کوشش کی۔
انڈیا کا کہنا ہے کہ پاکستان نے جن مقامات پر اہداف کو نشانہ بنانے کی کوشش کی ان میں آونتیپورہ، بھٹنڈہ، چندی گڑھ، نال، پھالودی، اترلائی اور بھوج شامل ہیں۔
بیان میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے 'پاکستانی حملے کے جواب میں انڈین فوج نے پاکستان میں ایئر ڈیفینس ریڈارز اور دفاعی نظام کو نشانہ بنایا اور یہ کہ انڈیا کا جواب پاکستان کے اقدام کا اسی شعبے میں اسی شدت سے دیا گیا جواب ہے۔'
انڈیا نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ اس کارروائی میں لاہور میں موجود ایک ایئر ڈیفینس سسٹم ناکارہ بنا دیا گیا۔
پاکستانی فوج یا حکومت کی جانب سے تاحال انڈین دعوؤں پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا تاہم جمعرات کی دوپہر پاکستانی فوج کے ترجمان نے جن علاقوں میں انڈین ڈرونز گرانے کا دعویٰ کیا تھا ان میں لاہور بھی شامل تھا۔
اس سب میں ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہروپ ڈرونز کیا ہیں؟ ریڈار پر ان کی نشاندہی مشکل کیوں ہے؟ اور انڈیا کا پاکستان میں ڈرونز بھیجنے کا مقصد کیا ہو سکتا ہے؟
Getty Imagesہروپ ڈرون کیا ہے؟
ہروپ دراصل ایک اسرائیلی ڈرون ہے جسے اسرائیل ایروسپیس انڈسٹریز (آئی اے آئی) کے ایم بی ٹی میزائل ڈویژن نے بنایا ہے۔
آئی اے آئی کی ویب سائٹ پر موجود معلومات کے مطابق ہروپ ہائی لیول اہداف جیسے کہ جنگی کشتیوں، کمانڈ پوسٹس، سپلائی ڈپو، ٹینکس اور ایئر ڈیفینس سسٹمز کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
آئی اے آئی کے مطابق ہروپ ڈرون کسی بھی علاقے میں تقریباً نو گھنٹوں تک اپنے ہدف کا پیچھا کرنے اور اس کو نشانے بنانے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔
'ہروپ میں گائیڈڈ ویپن سسٹم نصب ہوتا ہے جس کا مشن اس کا آپریٹر کنٹرول کرتا ہے اور ضرورت پڑنے پر اس مشن کا اختتام بھی کیا جا سکتا ہے۔'
ویپنز سسٹم پر ریسرچ کرنے والے ادارے آٹومیٹڈ ڈیسیژن ریسرچ کے مطابق ہروپ ڈرون کی رفتار 225 ناٹس ہے اور یہ اپنے آپریٹر سے تقریباً ایک ہزار کلومیٹر دور تک پرواز کر سکتا ہے جبکہ اس میں 23 کلوگرام تک دھماکہ خیز مواد لے جانے کی بھی صلاحیت موجود ہے۔
پاکستان انڈیا کی جانب سے داغے گئے میزائلوں کو کیوں نہیں روک پایا؟انڈیا کے فضائی حملوں کا پاکستان کیسے جواب دے گا اور کیا جوابی کارروائی اب ناگزیر ہو چکی؟’میزائل گرنے کے بعد ایسا محسوس ہوا جیسے آسمان سُرخ ہو گیا‘مریدکے سے مظفرآباد تک: انڈیا نے چھ مئی کی شب پاکستان اور اس کے زیرِ انتظام کشمیر میں کن مقامات کو نشانہ بنایا اور کیوں؟
ہروپ ڈرونز کو کسی لانچر کی مدد سے ہوا میں چھوڑا جاتا ہے۔ اس میں الیکٹرو آپٹیکل سینسرز نصب ہیں جو کسی بھی ’حرکت کرتے ہدف‘ کی نگرانی کرنے کے ساتھ ساتھ ریڈارز کو بند کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
ہروپ ڈرون کو کسی بھی مشتبہ بیلسٹک میزائل سائٹ پر میزائل سائلوز کو نشانہ بنانے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
یاد رہے کہ انڈیا گذشتہ کئی برسوں سے اسرائیل سے دفاعی مصنوعات خرید رہا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق گذشتہ انڈیا ایک دہائی میں دو ارب 90 کروڑ ڈالر کا عسکری ساز و سامان بشمول ریڈارز، جاسوسی کا ساز و سامان، ڈرونز اور میزائل اسرائیل سے خرید چکا ہے۔
Getty Imagesہروپ ڈرونز کو ریڈار پر تلاش کرنا مشکل کیوں؟
اس بارے میں ایروناٹیکل انجینئرنگ کے ماہر اور پاکستان فضائیہ کے سابق ائیر وائس مارشل اسد اکرام نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے چھوٹے ڈرونز کو یقیناً ریڈارز پر تلاش کرنا اس لیے مشکل ہوتا ہے کیونکہ یہ زیادہ بلندی پر پرواز نہیں کرتے اور اس میں ریڈارز کو جام کرنے کی صلاحیت بھی موجود ہوتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ اور اسرائیل جیسے ممالک بھی ایسے چھوٹے ڈرونز کو دراندازی سے روکنے میں مشکل کا سامنا کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ ڈرونز ریڈار پر بالکل نظر نہیں آتے، یہ بالکل نظر آتے ہیں اور ان کو مار گرانے کے لیے صورتحال کے مطابق مختلف عسکری حکمت عملی اپنائی جاتی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اگر ہم آج کے واقعے کی بات کریں تو اس وقت گراؤنڈ پر موجود حکام ہی یہ بہتر بتا سکتے ہیں کہ انھوں نے ان کو مار گرانے کے لیے کن عسکری حکمت عملی کا انتخاب کیا ہے۔‘
Getty Imagesانڈیا کی جانب سے پاکستان میں ڈرونز بھیجنے کا مقصد کیا ہو سکتا ہے؟
پاکستانی فضائیہ کے ریٹائرڈ ایئر کموڈور اور اسلام آباد کی ایئر یونیورسٹی سے منسلک ڈاکٹر عادل سلطان کہتے ہیں کہ ظاہری طور پر 'انڈیا کا ڈرون بھِیجنے کا مقصد پاکستان کو تنگ کرنا یا عوام میں خوف پیدا کرنا لگتا ہے۔'
انھوں نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ انڈین ڈرونز سے پاکستان کا زیادہ نقصان نہیں ہوا ہے اور 'انڈیا کا مقصد صرف ان حملوں سے اپنے لوگوں کو خوش کرنا ہے۔'
ائیر وائس مارشل ریٹائرڈ اسد اکرام کا اس بارے میں کہنا تھا کہ 'بظاہر ایسا لگتا ہے کہ انڈیا نے ان ڈرونز کو پاکستان کی عسکری تنصیبات کی نگرانی کے لیے بھیجا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ 'ان ڈرونز کو پاکستان بھیجنے کا مقصد پاکستان کے ریڈار سسٹمز اور ایئر ڈیفنس سسٹمز کے فٹ پرنٹس حاصل کرنا ہو سکتا ہے۔'
خیال رہے پاکستان نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے رافیل طیاروں سمیت انڈیا کے پانچ لڑاکا طیارے اور ایک ڈرون مار گرائے ہیں۔
ڈاکٹر عادل سلطان اس کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ انڈیا سمجھ گیا ہے کہ 'وہ اپنی مہنگی جنگی مشینری سے پاکستان پر حملہ نہیں کر سکتا اور اسی لیے اب وہ ڈرونز کا استعمال کر رہا ہے۔'
سوشل میڈیا پر یہ اطلاعات بھی چل رہی تھیں کہ انڈیا نے ڈرونز کے ذریعے پاکستان کے ایئر ڈیفینس سسٹم کو نشانہ بنایا ہے۔ تاہم ڈاکٹر عادل سلطان کا دعویٰ ہے کہ 'انڈیا کی جانب سے بھیجے گئے ڈرون کسی بھی ایئر ڈیفینس سسٹم کو تباہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔'
انھوں نے کہا کہ 'اس طرح کے ڈرونز میں دو، تین کلو دھماکہ خیز مواد نصب کیا جاتا ہے اور یہ کہیں بھی گر کر پھٹ سکتے ہیں۔ ان میں روٹرز اور بلیڈ بھی نصب ہوتے ہیں جس سے نقصان ہو سکتا ہے۔'
ڈرونز نہ صرف جدید دور کی جنگوں میں دشمن پر حملوں کے لیے استعمال ہوتے ہیں بلکہ ان سے جاسوسی بھِی کی جاتی ہے۔
ڈاکٹر عادل سلطان کہتے ہیں کہ ڈورنز کا پہلا مقصد تو جاسوسی کرنا ہی ہوتا ہے لیکن انڈیا نے جو ڈرونز بھیجے ہیں وہ 'آرٹیفشل انٹیلیجنس سے چلنے والے نہیں لگتے اور نہ ہی ان میں کیمرے نصب نظر آئے۔'
'میرانہیں خیال کے یہ ڈرونز ریئل ٹائم میں کوئی انفارمیشن بھیجنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔'
انڈیا کی جانب سے پاکستان میں ڈرونز کے ذریعے دراندازی کی کوشش اور پاکستانی فوج کی جانب سے انھیں مار گرانے پر بی بی سی کے نامہ نگار نیاز فاروقی سے بات کرتے ہوئے انڈین فوج کے سابق بریگیڈیئر راہول بھونسلے کہتے ہیں کہ ’فی الحال یہ بتانا مشکل ہے کہ یہ ڈرونز ہتھیاروں یا دھماکہ خیز مواد سے لیس تھے یا محض نگرانی کرنے والے تھے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’ممکنہ طور پر انڈیا نے ڈرونز کو نگرانی کے لیے، پاکستان کی مستقبل کی منصوبہ بندی جاننے کے لیے یا انڈین حملوں میں ہونے والے نقصان کی تشخیص کے لیے بھیجا ہو گا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ جیسا کے پاکستانی فوج نے ان ڈرونز کے گرنے سے کم از کم ایک شخص کے ہلاک اور متعدد شہریوں کے زخمی ہونے کا بتایا ہے کہ تو یہ واضح نہیں ہے کہ یہ ڈرونز مسلح تھے یا ایسا ڈرون کے گولہ بارود سے ہوا۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر نگرانی کرنے والے ڈرون نیچے گرتے ہیں تو زمین پر ان کا زیادہ اثر نہیں ہوتا ہے لیکن ان کے گرنے کی رفتار کی وجہ سے جانی نقصان ہو سکتا ہے۔
پاکستان انڈیا کی جانب سے داغے گئے میزائلوں کو کیوں نہیں روک پایا؟’میزائل گرنے کے بعد ایسا محسوس ہوا جیسے آسمان سُرخ ہو گیا‘انڈیا کے فضائی حملوں کا پاکستان کیسے جواب دے گا اور کیا جوابی کارروائی اب ناگزیر ہو چکی؟پاکستان اور انڈیا کی فوجی طاقت کا موازنہ: لاکھوں کی فوج سے جدید طیاروں، بیلسٹک میزائلوں اور ڈرونز تک