انڈیا کی جانب سے پاکستانی ساز و سامان سے لدے بحری جہازوں کی آمد و رفت پر پابندی کے بعد بین الاقوامی شپنگ کمپنیوں کو متبادل راستہ اپنانا پڑ رہا ہے جس سے پاکستان کی بندرگاہوں پر برآمدی مال کے کنٹینرز کا رش لگ گیا ہے۔عرب نیوز کے مطابق بین الاقوامی شپنگ کمپنیوں کا کہنا ہے کہ علاقائی کشیدگی سے ان کے آپریشن متاثر ہوئے ہیں اور اس خلل کی وجہ سے انہیں متعدد پاکستانی کارگو پر اضافی سرچارج عائد کرنا پڑ رہا ہے۔اس اقدام سے شپنگ اخراجات میں اضافے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں پاکستانی صارفین کے لیے اشیا کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔ پاکستان شپ ایجنٹس ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل سید طاہر حسین نے کا کہنا ہے کہ ’انڈیا کی جانب سے پاکستانی ساز و سامان سے لدے ہوئے جہازوں کے گزرنے پر پابندی کے بعد یورپی شپنگ سروسز پاکستان کی بندرگاہوں کے بجائے متبادل راستہ اختیار کر رہی ہیں۔‘
انہوں نے نئی دہلی پر الزام لگایا کہ وہ پاکستان کی معیشت کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
پاکستان شپ ایجنٹس ایسوسی ایشن کے چیئرمین محمد اے راجپر نے انڈیا کے اس اقدام کو ’غیرضروری‘ اور بین الاقوامی کنونشنز کے خلاف قرار دیا ہے۔پاکستان کو ایک ایسے وقت پر اس صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جب اسلام آباد برآمدات کو بڑھا کر معاشی بحران سے نکلنے کی کوشش کر رہا ہے۔کچھ عرصہ پہلے تک بہت سی بین الاقوامی شپنگ سروسز پاکستانی کارگو کو انڈیا کی سب سے بڑی بندرگاہوں موندرا اور نہوا شیوا کے ذریعے منتقل کرتی تھیں تاہم انڈیا نے گزشتہ ہفتے اس عمل پر پابندی عائد کر دی تھی۔پاکستان کا کنٹینرز میں آنے والا زیادہ تر کارگو ساؤتھ ایشیا پاکستان ٹرمینل کے ذریعے ہینڈل کیا جاتا ہے جو ہچیسن ہولڈنگز، قاسم انٹرنیشنل کنٹینر ٹرمینل جسے ڈی پی ورلڈ چلاتا ہے اور کراچی گیٹ وے ٹرمینل ابوظہبی پورٹس گروپ کے زیر انتظام ہے۔ بین الاقوامی شپنگ لائنز نے پاکستانی برآمد کنندگان اور درآمد کنندگان پر سرچارج عائد کرنا شروع کر دیا ہے (فوٹو: گیٹی امیجز)سید طاہر حسین نے بتایا کہ قاسم انٹرنیشنل کنٹینر ٹرمینل سے پاکستان کی برآمدات لے جانے والے کچھ جہازوں کو انڈیا میں رکنے کی اجازت نہیں تھی، انہیں دبئی اور دیگر قریبی بندرگاہوں کی طرف موڑنا پڑتا تھا۔عرب نیوز کو دستیاب شپنگ دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ رواں ہفتے کے شروع میں انڈین حکام نے کراچی جانے والے کارگو کی وجہ سے کم از کم چار جہازوں کو داخلے سے روک دیا تھا۔ پاکستانی بندرگاہوں پر برآمدی سامان سے لیس سینکڑوں کنٹینرز کا رش لگ گیا ہے۔پاکستان ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن (پی ٹی ای اے) کے پیٹرن ان چیف خرم مختار نے کہا کہ ’بڑا بیک لاگ ہے۔‘ ٹیکسٹائل پاکستان کا سب سے بڑا برآمدی شعبہ ہے جس نے گزشتہ سال 17 ارب ڈالر کا حصہ ڈالا۔خرم مختار نے کہا کہ زیادہ تر شپنگ لائنیز اب برآمدات کو کولمبو کے راستے روٹ کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہیں۔سوئس کیریئر میڈیٹیرینین شپنگ سروس (ایم ایس سی) نے پاکستان-کولمبو شٹل سروس کا آغاز کیا ہے۔ اس بحران کے دوران بین الاقوامی شپنگ لائنز نے پاکستانی برآمد کنندگان اور درآمد کنندگان پر سرچارج عائد کرنا شروع کر دیا ہے۔