عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کی معیشت سے متعلق کنٹری رپورٹ جاری کر دی، جس میں کہا گیاہے کہ رواں مالی سال معاشی شرح نمو 2.6 فیصد جبکہ اگلے مالی سال معاشی شرح نمو 3.6 فیصد تک جانے کی پیشگوئی کی گئی ہے۔
آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق 2026-27میں پاکستان کی معاشی شرح نمو4.1 فیصد تک پہنچ جائے گی جبکہ 2027 تا 2030 معاشی شرح نمو 4.5 فیصد رہنے کی پیش گوئی ہے ۔اگلے مالی سال افراط زر کی شرح 7.7 رہنے کی توقع ہے، رواں مالی سال کے دوران مہنگائی 5.1 فیصد تک محدود ہے، 2026 تا 2030 افراط زر 6.5 فیصد رہنے کی پیش گوئی ہے۔
آئی ایم ایف نے آئندہ مالی سال قرض ٹو جی ڈی پی تناسب میں کمی کا امکان ظاہر کیا ہے ۔ رپورٹ میں کہا گیاہے کہ 2025-26 میں قرض ٹو جی ڈی پی تناسب 71.9 فیصد رہنے کا امکان ہے۔ 2026-27میں قرض ٹو جی ڈی پی تناسب 70 فیصد تک ، 2030 تک قرض ٹو جی ڈی پی تناسب 61 فیصد تک آنے کا امکان ہے۔
حکومت نےآئی ایم ایف کو ترقیاتی فنڈز و دیگر اخراجات میں کٹوتی کی یقین دہانی کرا دی ہے، 87 ارب روپے پی ایس ڈی پی کیلئےمختص رقم میں سے روک لئے جائیں گے، مقصد عدالتی مقدمات کا بروقت حل ہے تاکہ مالیاتی خلا کو پورا کیا جا سکے۔
عدالتی مقدمات کا فیصلہ مئی اور جون میں متوقع ہے، اگر آمدن میں کمی ہوتی ہے، تو اخراجات میں متناسب کٹوتیاں کی جائیں گی۔ حکومت نے یقین دہانی کروائی کہ بنیادی اخراجات کو 15,958 ارب روپے تک محدود رکھا جائے گا۔ آئی ایم ایف کے مطابق سماجی شعبے کے اہم اخراجات کیلئے گنجائش برقرار رکھی جائے گی، غیرضروری توانائی سبسڈیوں سے 54 ارب روپے کی بچت ہوگی، ہنگامی مختص رقوم میں سے استعمال نہ ہونے والے 188 ارب روپے الگ ہیں۔
رپورٹ کے مطابق حکومت بنیادی خسارہ جی ڈی پی کے1.0 فیصد سرپلس کرنے کیلئےپُرعزم ہے، نان ٹیکس ریونیو جی ڈی پی کے 3.0 فیصد تک پہنچنے کی توقع ہے، ٹیکس آمدن میں اضافہ کرنے پر زور دیا گیاہے ، صوبائی ٹیکس حکام نےبہتر کارکردگی دکھائی۔
ایف بی آر کی آمدن جی ڈی پی کے 10.6 فیصد کے مساوی ہونی چاہیے، ایف بی آر کا رواں مالی سال نظرثانی شدہ ہدف 12 ہزار 332 ارب روپے ہے، حکومت کے مطابق ٹیکس ایڈمنسٹریشن بہتر کی جارہی ہے تاکہ ٹیکس ادائیگیوں میں خلا کم ہو۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کمپلائنس رسک مینجمنٹ، ڈیجیٹل ویلیو چین کی مانیٹرنگ کی جائے گی، سیلز ٹیکس ریٹرنز میں بے ضابطگیوں کی نشاندہی کہ گئی ہے، کسٹمز کے نظام میں فیس لیس اسسمنٹ کو مضبوط بنایا جارہا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ حکومت نے یقین دہانی کروائی ہے کہ 770 ارب مالیت کے زیر التوا عدالتی مقدمات کو حل کرنے کیلئے سرگرم ہیں۔
سپریم کورٹ میں 43 ارب روپے مالیت کے مقدمات زیر التوا ہیں، اسلام آباد، سندھ اور لاہور ہائی کورٹس میں 217 ارب روپے کے ٹیکس کیسز ہیں، ان لینڈ ریونیو ایپلٹ ٹربیونل میں 104 ارب روپے کے کیسز شامل ہیں، سپریم کورٹ نے ابتدائی سماعت مکمل کر لی ہے، ایک مثبت فیصلہ ان مقدمات میں سے تقریباً 120 ارب روپے کےکیسز کو حل کر سکتا ہے۔