’بس، بہت ہو گیا‘: نیتن یاہو کے لیے ہنگامہ خیز ہفتہ، غزہ میں بھوک اور عالمی ’سفارتی سونامی‘ کے بیچ خاموش بیٹھے ٹرمپ

بی بی سی اردو  |  May 24, 2025

Getty Images

رواں ہفتے اسرائیل کے لبرل روزنامے ہارٹز کی ایک شہ سرخی میں واضح طور پر لکھا گیا تھا ’سفارتی سونامی قریب آ رہا ہے‘۔ اس تحریر میں ’غزہ میں اسرائیل کے ’مکمل پاگل پن‘ کے خلاف یورپ کی ممکنہ کارروائی‘ کے بارے میں خبردار کیا گیا۔

اس ہفتے کے سفارتی حملے کئی شکلوں میں سامنے آئے جن میں سے کئی غیر متوقع تھے۔

غزہ میں اسرائیل کے اقدامات کی بین الاقوامی سطح پر مذمت سے لے کر واشنگٹن میں اسرائیلی سفارت خانے کے دو نوجوان عملے کے قتل تک، یہ یہودی ریاست کے لیے ایک ہنگامہ خیز ہفتہ رہا ہے۔

یہ سب پیر کی شام اس وقت شروع ہوا جب اسرائیل کے خلاف برطانیہ، فرانس اور کینیڈا نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا جس میں غزہ میں اس کے ’بدترین اقدامات‘ کی مذمت کی گئی۔

تینوں ممالک نے خبردار کیا کہ اگر اسرائیل نے اپنی نئی فوجی کارروائی جاری رکھی اور انسانی امداد پر عائد پابندیاں اٹھانے میں ناکام رہا تو ’مزید ٹھوس اقدامات‘ کے امکانات ہیں۔

انھوں نے مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیل کی آبادکاری کی سرگرمیوں کے جواب میں ’ٹارگٹڈ پابندیوں‘ کی دھمکی بھی دی۔

اس کے بعد 24 عطیہ دہندگان ممالک کی جانب سے ایک بیان جاری کیا گیا جس میں غزہ کے لیے اسرائیل کے حمایت یافتہ امداد کی فراہمی کے نئے ماڈل کی مذمت کی گئی۔

لیکن یہ صرف آغاز تھا۔ منگل کے روز برطانیہ نے اسرائیل کے ساتھ تجارتی مذاکرات معطل کرتے ہوئے کہا تھا کہ مستقبل کے تعاون کے لیے 2023 کے روڈ میپ کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔

یہودی آباد کاروں پر نئی پابندیاں عائد کی گئیں جن میں ڈینیلا ویس بھی شامل تھیں، جو لوئس تھیروکس کی حالیہ دستاویزی فلم، دی سیٹلرز میں نمایاں کردار تھیں۔

لندن میں اسرائیل کے سفیر تزیپی ہوٹوویلی کو دفتر خارجہ طلب کیا گیا ایسا عام طور پر روس اور ایران جیسے ممالک کے نمائندوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔

یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ کاجا کلاس کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کے ارکان کی ’مضبوط اکثریت‘ اسرائیل کے ساتھ 25 سال پرانے ایسوسی ایشن معاہدے پر نظر ثانی کے حق میں ہے۔

Getty Imagesکینیڈا، برطانیہ اور فرانس کا ’سخت لہجے‘ میں دیا گیا مشترکہ بیان: کیا اسرائیل کے لیے عالمی حمایت کمزور پڑنے لگی ہے؟نڈھال بدن، ہاتھوں پر چھالے اور خوراک کی قلت: غزہ کے ہسپتال میں لاغر اور خوفزدہ بچوں کی کہانیکیا اسرائیل بین الاقوامی قانون کو نظر انداز کر کے غزہ پر ’قبضہ‘ کر سکتا ہے؟ پانچ اہم سوالوں کے جوابغزہ پر ’قبضے‘ کے اسرائیلی منصوبے کے بعد جنگ بندی پر بات چیت کی کوئی وجہ باقی نہیں رہی: حماسGetty Images’بس بہت ہو گیا‘

سفارتی مذمت کی اس لہر کی وجوہات کافی واضح نظر آتی ہیں۔

اکتوبر 2023 میں حماس کے حملے کے بعد جنگ شروع ہونے کے بعد سے غزہ اب تک سب سے زیادہ فاقہ کشی کا شکار ہے، صورتحال کے شواہد نے دنیا بھر میں خوف کی لہر دوڑا دی ہے۔

اسرائیل کی فوجی کارروائی اور اس کے ارد گرد بیان بازی سے پتہ چلتا ہے کہ متاثرہ علاقے میں حالات ایک بار پھر خراب ہونے والے ہیں۔

برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے منگل کے روز ارکانِ پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے اسرائیل کے سخت گیر وزیر خزانہ بیزال سموٹریچ کے الفاظ کا حوالہ دیا جنھوں نے غزہ کو صاف کرنے، جو کچھ بچا ہے اسے تباہ کرنے اور شہری آبادی کو کسی تیسرے ملک منتقل کرنے کی بات کی تھی۔

لیمی نے کہا: ’ہمیں اسے وہی قرار دینا چاہیے جو ہو رہا ہے۔ یہ انتہا پسندی ہے، یہ خطرناک ہے، یہ مکروہ ہے، یہ خوفناک ہے۔۔۔ اور میں اس کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتا ہوں۔‘

اگرچہ غزہ میں جنگ کرنے کی بات آتی ہے تو سموٹریچ فیصلہ ساز نہیں ہیں۔ پہلے شاید ان کے اشتعال انگیز بیانات کونظرانداز کر دیا جاتا تھا۔

لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ دن جا چکے ہیں۔ اب اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو اپنے انتہائی دائیں بازو کے ساتھیوں کے زیرِ اثر دکھائی دیتے ہیں۔ ناقدین ان پر الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ فلسطینی شہریوں یا غزہ میں قید باقی اسرائیلی یرغمالیوں کی زندگیوں کی پرواہ کیے بغیر مسلسل جنگ کی پیروی کر رہے ہیں۔

وہ ممالک جو طویل عرصے سے اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق کی حمایت کرتے رہے ہیں، اب یہ کہنے لگے ہیں کہ بس 'بس، بہت ہو گیا'۔

Getty Images

یہ ہفتہ واضح طور پر برطانیہ کے وزیر اعظم سر کیئر سٹارمر کے لیے ایک اہم لمحہ تھا، جو اسرائیل کا دفاع کرتے رہے(انھوں نے ایک بار کہا تھا کہ ’میں بغیر اہلیت کے صیہونیت کی حمایت کرتا ہوں‘) جنھیں گذشتہ سال غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کرنے میں ہچکچاہٹ پر لیبر پارٹی میں ہی سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

منگل کو سر کیئر سٹارمر نے کہا کہ غزہ میں معصوم بچوں کی تکالیف ’مکمل طور پر ناقابل برداشت‘ ہیں۔

اپنے ملک کے کچھ مضبوط ترین اتحادیوں کی جانب سے اس غیر معمولی ٹھوس اقدام کے سامنے نتن یاہو نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ برطانیہ، فرانس اور کینیڈا حماس کی حمایت کرنے کے مجرم ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’جب بڑے پیمانے پر قاتل، ریپ کرنے والے، بچوں کے قاتل اور اغوا کار آپ کے شکر گزار ہوںتو آپ انصاف کے غلط رخ پر ہوتے ہیں۔‘

'آپ انسانیت کے غلط رخ پر ہیں اور آپ تاریخ کے غلط رخ پر ہیں۔'

اسرائیل کے وزیر خارجہ گیڈون سار نے اس حوالے سے کہا کہ سٹارمر سمیت اسرائیل کے ناقدین اور بدھ کی رات واشنگٹن میں ایک میوزیم کے باہر اسرائیلی سفارت خانے کے دو ملازمین یارون لیسچنسکی اور سارہ لین ملگریم کے قتل کے درمیان ’براہ راست تعلق‘ ہے۔

لیکن فائرنگ کے واقعے کے بعد ہمدردی کی لہر کے باوجود اسرائیلی حکومت تیزی سے الگ تھلگ ہوتی دکھائی دے رہی ہے اور مغربی اتحادیوں اور یہودی تارکین وطن کے نمایاں ارکان نے غزہ کی جنگ پر غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔

مشرق وسطیٰ کے سابق سفیر اور ٹونی بلیئر کے مشیر لارڈ لیوی نے کہا کہ وہ موجودہ حکومت کی تنقید کی حمایت کرتے ہیں، یہاں تک کہ یہ بھی کہتے ہیں کہ انھوں نے ’تھوڑی دیر‘ کر دی۔

انھوں نے بی بی سی ریڈیو فور کے پروگرام ’دی ورلڈ ایٹ ون‘ سے بات کرتے ہوئے اپنے آپ کو ’انتہائی قابلِ فخر یہودی‘ قرار دیا جو اسرائیل کی پرواہ کرتا ہے اور کہا کہ ’غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے خلاف نہ صرف اس ملک میں بلکہ بین الاقوامی سطح پر ہماری جانب سے ایک مؤقف ہونا چاہیے۔‘

لیکن اس سب کے دوران خاموش وہ شخص ہے جو چاہے تو جنگ کو روک سکتا ہے۔

خلیج کے اپنے حالیہ دورے کے اختتام پر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ ’بہت سے لوگ بھوک سے مر رہے ہیں۔‘ وائٹ ہاؤس کے عہدیداروں نے اشارہ دیا کہ امریکی صدر جنگ سے مایوس ہیں اور چاہتے ہیں کہ اسرائیلی حکومت ’اسے ختم کرے۔‘

لیکن جہاں دیگر مغربی رہنماؤں نے غم و غصے کا اظہار کیا ہے، وہیں ٹرمپ فی الحال کچھ نہیں کہہ رہے۔

کینیڈا، برطانیہ اور فرانس کا ’سخت لہجے‘ میں دیا گیا مشترکہ بیان: کیا اسرائیل کے لیے عالمی حمایت کمزور پڑنے لگی ہے؟نڈھال بدن، ہاتھوں پر چھالے اور خوراک کی قلت: غزہ کے ہسپتال میں لاغر اور خوفزدہ بچوں کی کہانیکیا اسرائیل بین الاقوامی قانون کو نظر انداز کر کے غزہ پر ’قبضہ‘ کر سکتا ہے؟ پانچ اہم سوالوں کے جوابغزہ پر ’قبضے‘ کے اسرائیلی منصوبے کے بعد جنگ بندی پر بات چیت کی کوئی وجہ باقی نہیں رہی: حماسجنگ بندی کے باوجود غزہ پر اسرائیلی حملوں کے پیچھے چھپی نتن یاہو کی حکمت عملی اور نیا امریکی منصوبہ
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More