اسلام آباد میں ٹک ٹاکر ثنا یوسف کا قتل: ’ملزم نے پہلے مقتولہ کے گھر کی ریکی کی، پھر ان کے کمرے میں داخل ہو کر فائرنگ کر دی‘

بی بی سی اردو  |  Jun 03, 2025

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں 17 برس کی ٹک ٹاکر ثنا یوسف کے قتل کا مقدمہ ان کی والدہ کی مدعیت میں درج کر لیا گیا ہے۔

ثنا یوسف کو گذشتہ روز اسلام آباد میں ان کے گھر کے اندر قتل کیا گیا جہاں وہ اپنے اہلخانہ کے ساتھ رہائش پذیر تھیں۔

درج مقدمے کے مطابق پیر کی شام ثنا یوسف کومبینہ طور پر ان کے گھر میں ایک نامعلوم شخص نے گولی مار کر قتل کر دیا تھا۔

اسلام آباد کے تھانہ سمبل میں درج ایف آئی آر میں بتایا گیا کہ ’گذشتہ روز ایک شخص اچانک ہمارے گھر میں داخل ہوا اور اس نے میری بیٹی ثنا یوسف پر سیدھے فائر کیے جن میں سے دو ان کے سینے پر لگے۔‘

ایف آئی آر کے مطابق ’نامعلوم شخص سیڑھیاں اتر کر بھاگ گیا اور ہمارے شور کرنے پر اہل محلہ جمع ہو گئے۔ میں اپنی بیٹی کو ہمسایوں کی گاڑی میں ڈال کر ہسپتال لے گئی لیکن میری بیٹی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے فوت ہو چکی تھی۔‘

مقتولہ کی والدہ کی جانب سے درج ایف آئی آر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس واقعے کے وقت ان کے شوہر گھر پر موجود نہیں تھے بلکہ صرف وہ خود، ان کی نند اور ان کی بیٹی ثنا یوسف گھر پر تھیں۔

بی بی سی نے اس واقعے سے متعلق مقتولہ کے والدین سے رابطہ کر کے ان کا موقف جاننے کی کوشش کی ہے لیکن تاحال جواب موصول نہیں ہوا ہے۔

خیال رہے کہ یہ پاکستان میں کسی خاتون ٹک ٹاکر کے قتل کا پہلا واقعہ نہیں ہے، گذشتہ کے اواخر میں ٹک ٹاک اقرا اعظم کو پنجاب کے ضلع خوشاب میں پولیس کے مطابق مبینہ طور پر ان کے اپنے رشتہ دار نے قتل کر دیا گیا تھا۔

اس مقدمے کی تفیشی ٹیم میں شامل سب انسپکٹر منصب دار نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) سے مقتولہ کی لاش کا پوسٹ مارٹم کروانے کے بعد لاش ورثا کے حوالے کر دی گئی ہے اور ورثا لاش لے کر چترال روانہ ہو گئے ہیں۔

Getty Imagesپولیس اہلکار نے دعوی کیا ہے کہ اس واقعہ میں ملوث ملزم کے بارے میں بہت سارے شواہد حاصل کرلیے گئے ہیں اور جلد ہی ملزم کو گرفتار کر لیا جائے گا (فائل فوٹو)’ملزم گھر میں داخل ہو کر سیدھا ثنا یوسف کے کمرے میں گیا‘

ثنا یوسف کے قتل کے مقدمے کی تفیشی ٹیم میں شامل سب انسپکٹر منصب دار نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جس جگہ پر وقوعہ پیش آیا، پولیس نے وہاں لگے سی سی ٹی وی کیمرے کی فوٹیجز بھی حاصل کر لی ہیں جبکہ اس کے علاوہ سیف سٹی کیمروں سے بھی اس وقوعہ سے متعلق فوٹیجز حاصل کی گئی ہیں۔

پولیس اہلکار نے دعویٰ کیا ہے کہ اس واقعہ میں ملوث ملزم کے بارے میں بہت سارے شواہد حاصل کر لیے گئے ہیں اور جلد ہی ملزم کو گرفتار کر لیا جائے گا۔

انھوں نے کہا کہ دستیاب شہادتوں کے علاوہ پولیس قتل کے اس واقعہ کے مختلف پہلوؤں پر تفتیش کر رہی ہے۔

تفتیشی ٹیم میں شامل پولیس اہلکار کا کہنا تھا کہ ابتدائی تفتیش میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ملزم نے ثنا یوسف کو قتل کرنے سے پہلے جس گھر میں مقتولہ رہائش پذیر تھیں وہاں کی ریکی کی اور جب یہ دیکھا کہ ثنا کے والدین گھر پر نہیں تو وہ گھر میں داخل ہوا اور پستول نکال کر ثنا یوسف پر دو فائر کیے۔

تفتیشی ٹیم میں شامل ایک اور اہلکار کا کہنا تھا کہ ملزم گھر میں داخل ہو کر سیدھا ثنا یوسف کے کمرے میں گیا اور جاتے ہی اس پر فائرنگ شروع کر دی۔

پولیس اہلکار کے مطابق ثنا یوسف جب فائر لگنے سے نیچے گر گئیں تو اس کے فوری بعد ملزم جائے وقوعہ سے فرار ہوگیا۔

ثنا یوسف کون تھیں؟

ثنا یوسف کی عمر صرف 17 برس تھی۔ ان کا تعلق صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع چترال سے تھا لیکن ان کا خاندان کچھ عرصے سے اسلام آباد میں مقیم تھا۔

ان کے ٹک ٹاک اکاؤنٹ پر تقریباً 81 ہزار فالوورز ہیں۔

گذشتہ روز ثنا یوسف کے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر ان کی سالگرہ کی ایک ویڈیو بھی شیئر کی گئی تھی، جس میں انھیں اپنے دوستوں کے ساتھ سالگرہ مناتے دیکھا جا سکتا ہے۔

ان کی زیادہ تر ویڈیوز میں وہ اپنی دوستوں کے ساتھ اسلام آباد کے مختلف مقامات پر گھومتی اور کھانے سے لطف و اندوز ہوتی نظر آتی ہیں۔

اس مقدمے کے تفتیشی افسر کے مطابق مقتولہ کے والدین اور اس کے رشتہ داروں کا کہنا تھا کہ ثنا یوسف کو سوشل میڈیا انفلوئنسر ہونے کی وجہ سے کبھی بھی ان کے رشتہ داروں یا کسی دوسرے فرد کی طرف سے کوئی دھمکیاں موصول نہیں ہوئی تھیں۔

صحافی محمد زبیر نے ثنا یوسف کی دوستوں سے بات کی ہے۔ ان کے والد کافی عرصہ تک سرکاری ملازمت میں رہے، جس کے بعد انھوں نے ریٹائرمنٹ لے لی۔ ثنا یوسف کا ایک چھوٹا بھائی ہے۔

ثنا یوسف کی ایک دوست نے بتایا کہ جس روز وہ قتل ہوئیں اس سے چند گھنٹے قبل انھوں نے اپنی سالگرہ کا دن منایا تھا۔

’اس نے اپنے کچھ انتہائی قریبی دوستوں کو دعوت دی تھی۔ جس میں، میں بھی شامل تھی مگر میں کسی وجہ سے نہیں جا سکی تھی، جس کا مجھے ساری زندگی افسوس رہے گا۔‘

ثنا یوسف کے خاندان سے مراسم رکھنے والے برہان الدین کا کہنا تھا کہ ثنا نے ایف ایس سی کا امتحان دیا تھا اور وہ مستقبل میںمیڈیکل کالج میں داخلے کی تیاری کر رہی تھی۔ ’ان کا خیال تھا کہ وہ میڈیکل کی تعلیم حاصل کر کے چترال میں لوگوں کی خدمت کریں گی۔‘

برہان الدین کا کہنا تھا کہ ثنا یوسف کے والد انسانی حقوق کے کارکن اور ’چترال بچاؤ تحریک‘ کے اہم رکن تھے اور انھوں نے اپنے دونون بچوں کو بھی انسانیت کا درس دیا تھا۔

’پاکستان میں عورت ہونے کی سزا موت نہیں ہونی چاہیے‘

پاکستان کے سوشل میڈیا پر رات سے ثنا یوسف کا نام ٹرینڈ کر رہا ہے اور لوگ ان کے لیے فوری انصاف کا مطالبہ کرتے نظر آ رہے ہیں۔

مونا فاروق احمد نے لکھا کہ ’پاکستان میں خواتین، بچے اور اقلیتیں محفوظ نہیں۔ ہر دن کسی معصوم کو اپنی ہی موت کا ذمہ دار ٹھرایا جاتا ہے۔ وہ ایک بچی تھی جو زندگی سے بھرپور تھی۔‘

ماہین غنی نے لکھا کہ ’پاکستان میں عورت ہونے کی سزا موت نہیں ہونی چاہیے۔‘

سماجی کارکن ندا کرمانی نے لکھا کہ ’باہمت، پر اعتماد اور خوش رہنے پر خواتین اور لڑکیوں کو نہ صرف قتل کر دیا جاتا ہے بلکہ مرد ان کی قبروں پر رقص کرنے کے لیے جمع ہو جاتے ہیں۔

صحافی احتشام الحق نے لکھا کہ ’17 برس کی ثنا یوسف اس انجام کی حقدار نہیں تھیں۔ اس معاملے میں جلد از جلد انصاف ہونا چاہیے اور قاتلوں کو ایک مثال بنانا چاہیے۔‘

ٹک ٹاک پر ’قابل اعتراض ویڈیوز‘ بنانے پر 14 سالہ لڑکی قتل: ’حرا نے ابو ابو کی آوازیں لگائیں‘ٹک ٹاک پر شادی کی مشکلات اور طلاق کا ذکر کرنے والی ثانیہ جنھیں ان ہی کے شوہر نے قتل کر دیاسور کا گوشت کھانے سے پہلے ’بسم اللہ‘ پڑھنے والی ٹک ٹاکر کو دو سال قید کی سزاحضرت عیسیٰ کی تصویر سے مخاطب ہو کر انھیں بال کٹوانے کا مشورہ دینے پر ٹک ٹاکر کو قید کی سزابٹگرام میں پسند کی شادی کے 12 سال بعد خاتون کا قتل، چار بھائی گرفتار: پولیس ملزمان تک کیسے پہنچی؟کوہستان میں ’نام نہاد غیرت‘ کے نام پر ایک اور لڑکا لڑکی قتل: ’وقوعہ پر پہنچے تو لاشیں خون میں لت پت پڑی تھیں‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More