"میں بھی ملیر جیل سے قیدیوں کے ساتھ بھاگا تھا۔ بھاگتے ہوئے میں زخمی ہو گیا، اور پھر کافی دیر تک پیدل چلتا رہا…"
یہ وہ آخری الفاظ تھے جو رضا نے اپنی زندگی کے اختتام سے پہلے ایک ویڈیو میں ریکارڈ کیے وہ رضا، جو ملیر جیل سے فرار ہونے والے قیدیوں میں شامل تھا، لیکن اب ہمیشہ کے لیے خاموش ہو چکا ہے۔
کراچی کے علاقے ماڑی پور، بدھنی گوٹھ کے ایک خاموش کمرے سے وہ لاش برآمد ہوئی جس نے پولیس کو ایک اور دردناک داستان سنائی۔ ڈی آئی جی ساؤتھ کے مطابق، رضا نے چھاپے کے خوف سے اپنی بہن کے گھر پناہ لی، مگر شاید گرفتاری کا خوف، یا جرم کا بوجھ اس کے اعصاب پر اتنا بھاری تھا کہ اس نے رات کی تنہائی میں گلے میں پھندا ڈال کر زندگی کو خیرباد کہہ دیا۔
رضا پر منشیات کے مقدمے میں 2022 میں عیدگاہ تھانے میں مقدمہ درج ہوا تھا۔ حالیہ فرار کے دوران وہ صرف ایک اور مفرور نہیں تھا — وہ اپنے جرم، اپنی بے بسی اور اپنے انجام کا اعلان کرنے والا شخص بھی بن چکا تھا۔
پولیس حکام نے بتایا کہ ویڈیو پیغام میں رضا نے اپنی ہمت کا نہیں، اپنی تھکن کا اعتراف کیا۔ اس کے الفاظ جذبات سے عاری نہیں تھے — وہ بھاگا، زخمی ہوا، چلا، اور پھر شاید زندگی سے تھک کر رُک گیا۔
ادھر دوسری جانب، حکام کے مطابق ملیر جیل سے فرار ہونے والے 216 قیدیوں میں سے اب تک 126 دوبارہ گرفتار ہو چکے ہیں۔ 90 تاحال غائب ہیں۔ پولیس ان تمام مفرور افراد کے ڈیٹا پر کام کر رہی ہے اور ان کی واپسی کے لیے کوششیں تیز ہو گئی ہیں۔ ان کے گھروں پر چھاپے، نگرانی اور رابطے جاری ہیں۔
پولیس کی جانب سے سخت اعلان بھی سامنے آیا ہے: جو قیدی خود کو قانون کے حوالے نہیں کریں گے، ان کے خلاف مزید کارروائی ہوگی۔ جیل کی سیکیورٹی کو اس وقت سخت کر دیا گیا ہے، تاکہ ایسی صورتحال دوبارہ جنم نہ لے۔
یاد رہے، یہ پورا واقعہ پیر کی رات اس وقت پیش آیا جب کراچی میں زلزلے کے جھٹکوں نے شہریوں کو ہلا دیا، اور اسی لمحے جیل کی دیواروں میں موجود کمزوری ایک اجتماعی فرار کی شکل میں ظاہر ہوئی۔