PA Media
برطانیہ کی ارب پتی شخصیت ضیا یوسف کا برطانوی سیاسی جماعت ’ریفارم یو کے‘ کی قیادت سے مستعفیٰ ہونا اس لیے اہم ہے کیونکہ وہ رواں عام انتخابات میں ابھرتی ہوئی دائیں بازو کی جماعت کے بڑے رہنما کے طور پر سامنے آئے تھے۔ ریفارم یو کے برطانوی سیاستدان نائیجل فراج کی پارٹی ہے جس نے حالیہ عرصے کے دوران اپنی مقبولیت میں اضافہ دیکھا ہے۔
تقریبا 11 ماہ اس عہدے پر فائز رہنے کے بعد ضیا یوسف نے جمعرات کو اعلان کیا کہ پارٹی کو برسر اقتدار میں لانے کی کوششیں اب ان کے ’وقت کا اچھا استعمال نہیں‘۔ تاہم انھوں نے اس سے زیادہ اپنے فیصلے کی وضاحت نہیں کی۔
دوسری جانب برطانوی پارلیمنٹ کے ممبر نائیجل فراج نے ضیا یوسف کو گذشتہ ماہ کے بلدیاتی انتخابات میں ریفارم یو کے کی کامیابی کا ایک بڑا محرک قرار دیا لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ انھیں لگتا ہے کہ ضیا یوسف نے ’سیاست سے تنگ آ کر‘ جماعت سے کنارہ کشی اختیار کی ہے۔
ضیا یوسف کا استعفیٰ ان کے ایک ایسے بیان کے بعد سامنے آیا ہے جس میں انھوں نے ریفارم کی رکن پارلیمان کی جانب سے برقعے پر پابندی کی تجویز کو ’بے وقوفی‘ قرار دیا تھا۔
یاد رہے کہ برقعہ وہ نقاب ہے جو بعض مسلم خواتین چہرے اور جسم کو ڈھانپنے کے لیے پہنتی ہیں۔
پہلی بار اس 30 سالہ مسلمان شخص سے تقریباً ایک سال پہلے ملا تھا جو سری لنکن تارکینِ وطن کا بیٹا اور سابق کنزرویٹو (پارٹی کا حمایتی) تھا۔ جس وقت انھیں ریفارم یو کے نے باضابطہ طور پر متعارف کروایا تب تک وہ پارٹی کو دو لاکھ پاؤنڈز عطیہ دے چکے تھے۔
ضیا یوسف اپنی محنت کے بل بوتے پر ارب پتی بنے ۔ انھوں نے ’ولاسٹی بلیک‘ کے نام سے سفری سہولیات فراہم کرنے والی لگژری سروس بنائی جسے بعد میں انھوں نے فروخت کر دیا۔
ریفارم کو عطیہ دینے کے کچھ ہی عرصے بعد انھیں پارٹی چیئرمین کا عہدہ پیش کیا گیا جو انھوں نے قبول کر لیا۔ اس سے وہ صرف پس پردہ کام کرنے والے شخص نہیں رہے بلکہ ایک عوامی شخصیت بھی بن گئے۔
تو ایسے میں ان کے مستعفی ہونے کے لمحات کی اہمیت کو کیسے جانچا جا سکتا ہے؟
پیسہ، شناخت اور صلاحیت
میں سمجھتا ہوں ضیا یوسف کی ریفارم یو کے میں شراکت کا اندازہ لگانے کے لیے یہ تین پہلو قابلِ غور ہیں:
پیسہ: یوسف ایک امیر شخص ہیں اور دو لاکھ پاؤنڈز عطیہ کسی کے لیے بھی ایک بڑی رقم ہے۔ لیکن چونکہ ریفارم یو کے نے گذشتہ سال 2.8 ملین پاؤنڈز کے عطیات حاصل کیے، اس لیے پارٹی صرف ان کے پیسے پر انحصار نہیں کرتی۔نسلی شناخت: اگر ریفارم یو کے کو بطور پارٹی اپنی مقبولیت میں اضافہ کرنا ہے یا عام انتخابات جیتنے ہیں تو اسے اپنی پذیرائی کو وسعت دینا ہو گی۔ حریف جماعتوں بعض اوقات ریفارم پر نسل پرستانہ ہونے کا الزام لگاتی ہیں اور بظاہر ایک اقلیتی پس منظر کے شخص کو پارٹی کی قیادت میں شامل کر کے اس تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔تنظیمی صلاحیتیں: ریفارم کے بنیادی تنظیمی ڈھانچے کو بنانے کا کریڈٹ یوسف کو دیا جاتا ہے۔ انھوں نے مختصر سی مدت میں ریفارم کو عام انتخابات جیتنے والی جماعت میں ڈھالنے کی کوشش کی۔ لیکن اب وہ جا چکے ہیں۔ ان کے دورِ قیادت میں پارٹی نے نمایاں کامیابیاں حاصل کیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ انھوں نے پارٹی کے اندر کئی افراد کو ناراض بھی کیا۔آتش زنی کا شبہ، خاندان کی ہلاکت اور شواہد ضائع ہوجانا: برطانیہ میں انصاف کے منتظر پاکستانی نژاد ڈاکٹر شکور کی کہانی’فراج امریکہ میں برطانیہ کے اچھے سفیر ہوں گے‘برطانیہ کی مسلم آبادی انتخابات جیتنے والی جماعت لیبر پارٹی سے ناراض کیوں؟مسلمان ووٹ بینک اور ’غزہ جنگ‘ جس کی گونج برطانیہ کے سیاسی منظرنامے میں سنائی دے رہی ہے
نائیجل فراج نے جی بی نیوز سے گفتگو میں کہا ہے کہ ’کیا ان کی انٹرپرسنل سکلز (یعنی شخصی خوبیاں) سب خوبیوں پر حاوی تھیں؟ تو اس کا جواب ہے نہیں۔‘
ضیا یوسف پہلے گولڈمین سیکس نامی کمپنی میں کام کرتے تھے تو جب عملے کو نوکری سے برخاست کیا جاتا تھا تو طنزاً ’گولڈمین سیک‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی تھی۔ انگریزی میں سیک سے مراد عہدے سے ہٹانا ہوتا ہے۔
بہت سے لوگ بتاتے ہیں کہ ان کے پارٹی چلانے کے طریقہ کار پر کئی لوگ معترض تھے۔ اور یہ شکایات روایتی ’دفتر کے باس‘ والی ناراضی سے کہیں آگے کی تھیں۔
فراج اور ان کی سابقہ جماعتیں یو کے انڈیپینڈنس پارٹی، بریگزٹ پارٹی اور اب ریفارم یو کے طویل عرصے سے اندرونی اختلافات، جھگڑوں، برخاستگیوں اور استعفوں کی تاریخ رکھتی ہیں۔
ڈگلس کارسویل، ڈیان جیمز، پیٹرک او فْلِن، گاڈفری بلوم، سوزین ایونز، بین حبیب، روپرٹ لو اور اب ضیا یوسف۔
اس استعفے کی سب سے بڑی اہمیت یہ ہے کہ یہ ایک تلخ حقیقت کی یاد دہانی ہے کہ ریفارم یو کے کی تیزی سے بڑھتی ہوئی طاقت کو پائیدار بنانے کے لیے ایسے افراد کی ضرورت ہے جو پارٹی کے ساتھ مستقل طور پر جڑے رہیں اور اسے انتخابی کامیابی کی مشین میں تبدیل کرنے میں مدد کریں۔
یہ جماعت ایک ایسا ہدف حاصل کرنا چاہتی ہے جو اس سے پہلے کسی نے حاصل نہیں کیا۔ اگرچہ نائیجل فراج کی شخصیت پارٹی کو بہت آگے لے جا سکتی ہے لیکن مستقل اور تجربہ کار ٹیم کے بغیر یہ ہدف حاصل کرنا مشکل ہوگا۔
اور اب نائیجل فراج کو اپنے لیے نیا چیئرمین تلاش کرنا ہوگا۔
’فراج امریکہ میں برطانیہ کے اچھے سفیر ہوں گے‘برطانیہ کی مسلم آبادی انتخابات جیتنے والی جماعت لیبر پارٹی سے ناراض کیوں؟مسلمان ووٹ بینک اور ’غزہ جنگ‘ جس کی گونج برطانیہ کے سیاسی منظرنامے میں سنائی دے رہی ہےفائزہ شاہین: پاکستانی نژاد سیاستدان جنھیں ’یہودی مخالف‘ مواد لائیک کرنے پر پارٹی ٹکٹ سے محروم کر دیا گیاگھریلو ملازمین کے استحصال پر برطانیہ کے سب سے امیر خاندان کو قید کی سزا: ’وہ ملازمین سے زیادہ اپنے کتے پر خرچ کرتے تھے‘آتش زنی کا شبہ، خاندان کی ہلاکت اور شواہد ضائع ہوجانا: برطانیہ میں انصاف کے منتظر پاکستانی نژاد ڈاکٹر شکور کی کہانی