Bloomberg via Getty Imagesکنزرویٹو پولیٹیکل ایکشن کانفرنس کے دوران دکھایا گیا 100 ڈالر کا نوٹ جس پر ڈونلڈ ٹرمپ کی تصویر ہے
امریکی ڈالر کی قدر میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے۔
رواں سال جنوری میں ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں واپسی کے بعد سے جاری تجارتی جنگ اور سفارتی تناؤ کے پیش نظر امریکی کرنسی اپنی قدر کھو رہی ہے۔
رواں ہفتے یورو، جاپانی ین اور برطانوی پاؤنڈ جیسی بڑی کرنسیوں کے مقابلے ڈالر تین برسوں میں اپنی کم ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مئی میں امریکی صنعتی سرگرمیوں میں مسلسل تیسرے مہینے سست روی دیکھی گئی۔
اور یہ بات صرف امریکیوں یا ان ممالک کے لیے اہم نہیں جن کی معیشت کا پیمانہ امریکی ڈالر ہوتا ہے بلکہ یہ وسیع تر عالمی معیشت کے لیے بھی ضروری سمجھا جاتا ہے۔
کچھ سرمایہ کاری والے بینک جیسے مورگن سٹینلی، جے پی مورگن اور گولڈمین سیکس کو لگتا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت کی ممکنہ کمزوری پر ڈالر کی قدر میں مزید کمی واقع ہو سکتی ہے کیونکہ ٹرمپ کی جانب سے شروع کی گئی تجارتی جنگ سے کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔
Getty Images
میکسیکو کے مالیاتی گروپ بینکو بیس میں اقتصادی تجزیہ کے شعبے کی ڈائریکٹر گیبریلا سلر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ٹرمپ کی تحفظ پسندانہ اور غلط پالیسیوں کی وجہ سے ڈالر کی قدر میں کمی واقع ہوئی ہے جس سے امریکہ کی ساکھ خراب ہو رہی ہے۔‘
گیبریلا سلر کے مطابق صدر ٹرمپ کے فیصلے امریکی پیداوار کو متاثر کرتے ہیں اور دوسرے ممالک جو ڈالر کو محفوظ سرمایہ سمجھتے ہیں، ان کی نظر میں اب اس کی قدر مشکوک ہو رہی ہے۔
ڈالر کی کمزوری کی ایک سیدھی وجہ یہ ہے کہ امریکی برآمدات بین الاقوامی مارکیٹ میں زیادہ مسابقتی بن گئی ہیں کیونکہ وہ غیر ملکی خریداروں کے لیے سستی ہوتی ہیں۔
دوسری جانب امریکہ میں درآمدی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔
شرح سود
عام طور پر امریکہ میں کم شرح سود ڈالر کی قدر میں کمی کا باعث بن سکتی ہے کیونکہ یوں یہ کرنسی سرمایہ کاروں اور بینک سیونگز والوں کے لیے کم پرکشش ہوتی ہے۔
لہٰذا ڈالر کا کمزور ہونا امریکی فیڈرل ریزرو (مرکزی بینک) کو شرح سود کم کرنے پر مزید مجبور کر سکتا ہے۔
شرح سود میں اضافہ اکثر مرکزی بینکوں کے لیے افراط زر سے نمٹنے کا ایک طریقہ ہوتا ہے کیونکہ یہ عمل لوگوں کو دکانوں اور دوسری جگہوں پر کم خریداری کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔
ٹرمپ نے فیڈرل ریزرو سے شرح سود کم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
لیکن اگر فیڈرل ریزرو شرح سود کو مستحکم رکھ کر ڈالر کو سپورٹ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو اس کا فیصلہ درحقیقت امریکہ میں افراط زر کو محدود کرنے میں مدد کر سکتا ہے جبکہ امریکی کرنسی کو مزید گرنے سے روک سکتا ہے۔
اعتماد میں کمی
وسیع تناظر میں بہت سے ماہرین اقتصادیات اس بات پر فکر مند ہیں کہ ڈالر کی حالیہ گراوٹ ایک پریشان کن چیز کی عکاسی کرتی ہے کہ: امریکہ پر اعتماد کا فقدان۔
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا برکلے کے ماہر اقتصادیات بیری ایچن گرین نے اپریل کے آخر میں کہا تھا کہ ’ڈالر پر عالمی اعتماد اور انحصار نصف صدی یا اس سے زیادہ عرصے میں قائم ہوا ہے۔
’لیکن اب امریکی یہ اعتماد پلک جھپکتے کھو سکتے ہیں۔‘
Getty Imagesٹرمپ ڈالر کو کیوں کمزور دیکھنا چاہتے ہیں؟
کئی دہائیوں سے امریکی انتظامیہ نے مستحکم ڈالر پالیسی کی حوصلہ افزائی کی ہے۔
یہ پالیسی ملک کے قرض لینے کی لاگت کو کم رکھنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے اور جیو پولیٹیکل نقطہ نظر سے بیرون ممالک میں امریکہ ایک طاقتور ریاست کی ساکھ قائم رکھ پاتا ہے۔
یہ پالیسی غیر اتحادی ممالک جیسے ایران، روس اور وینزویلا پر امریکی کرنسی تک رسائی کو محدود کر کے دباؤ ڈالنے میں بھی مدد دیتی ہے۔
ڈالر کی طلب ہمیشہ زیادہ رہی ہے، حتیٰ کہ امریکہ میں معاشی بحران کے دوران بھی اس میں کمی واقع نہیں ہوتی۔
لیکن کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ چیزوں کو مختلف انداز سے دیکھتی ہے۔
ان کے مطابق صدر ٹرمپ ڈالر کی طاقت کو امریکہ میں ’مینوفیکچرنگ کے انقلاب‘ کی راہ میں رکاوٹ کے طور پر دیکھتے ہیں۔
ٹرمپ کے نقطہ نظر سے ایک کمزور ڈالر مینوفیکچرنگ سیکٹر کی بحالی کے لیے مددگار ہوتا۔ اس شعبے کے عروج کو بعض حلقے امریکہ میں ’سنہری دور‘ کے طور پر دیکھتے ہیں۔
گیبریلا سلر کہتی ہیں کہ ’ٹرمپ مضبوط ڈالر نہیں چاہتے کیونکہ اس سے درآمدات بڑھ جاتی ہیں۔‘
Getty Images
اس نظریے کے مطابق ملک کو گھریلو مینوفیکچرنگ کو فروغ دینے، فیکٹری میں ملازمتیں بحال کرنے، برآمدات بڑھانے اور ملک کے بڑے اور بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے کو کم کرنے میں مدد کے لیے ایک کمزور ڈالر کی ضرورت ہے۔
امریکی میڈیا اور بعض ماہرین اقتصادیات کے مطابق ڈالر کو کمزور کرنے کے لیے ٹرمپ کی ’کونسل آف اکنامک ایڈوائزرز‘ کے چیئرمین سٹیفن مِران کی طرف سے تجویز کردہ ’مار اے لاگو معاہدے‘ کے نام سے ایک منصوبہ موجود ہے۔
Bloomberg via Getty Imagesسٹیفن مران کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ڈالر کی قدر میں کمی کے حامی ہیںریزرو کرنسی پر شکوک
ریزرو کرنسی وہ ہوتی ہے جو کسی ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کے حصے کے طور پر مرکزی بینکوں یا حکام کے پاس ہوتی ہے۔ یہ بین الاقوامی لین دین، سرمایہ کاری اور قرض کی فیس ادا کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
نام نہاد مار اے لاگو اکارڈ مبینہ طور پر اس خیال پر مبنی ہے کہ دنیا کی اہم ریزرو کرنسی کے طور پر ڈالر کی حیثیت کوئی استحقاق نہیں بلکہ یہ ایک بوجھ ہے جس نے امریکہ میں صنعتی نظام کے خاتمے میں کردار ادا کیا ہے۔
اس دلیل کے مطابق ڈالر کی عالمی طلب ان اشیا کی قدر کو بڑھاتی ہے یعنی اس سے امریکی ساختہ مصنوعات زیادہ مہنگی ہو جاتی ہیں۔
نئی تجارتی جنگ کا خدشہ: ٹرمپ کی جانب سے درآمدات پر عائد ٹیکس امریکہ کی معیشت کو کیسے متاثر کر سکتا ہے؟ڈونلڈ ٹرمپ: ’رنگین مزاج ارب پتی‘ شخصیت سے ’امریکہ کو پھر سے عظیم بنانے کی مہم‘ تکلگ بھگ پانچ کروڑ تارکین وطن کے بغیر امریکہ کیسا نظر آئے گا؟’پرانا آئی فون 50 ہزار ڈالر میں‘: ٹک ٹاک کی بندش سے لوگوں نے کیسے فائدہ اٹھایا
اس کے نتیجے میں تجارتی خسارہ پیدا ہوتا ہے۔ یوں امریکی مینوفیکچررز کو اجرت اور میٹریل کاسٹ (خام مال کے اخراجات) کم کرنے کے لیے پیداوار کو بیرون ملک منتقل کرنے کی وجہ مل جاتی ہے۔
ہارورڈ یونیورسٹی میں معاشیات اور عوامی پالیسی کے پروفیسر اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ آئی ایم ایف کے سابق چیف اکانومسٹ کینتھ روگف لکھتے ہیں کہ ’مِران کا منصوبہ اتنا ہی درست ہے جتنا یہ دکھائی دے رہا ہے۔ یہ ایک فرد واحد کی ناقص تشخیص پر مبنی ہے۔‘
Getty Imagesمعاشی ماہرین متنبہ کرتے ہیں کہ ڈالر کی قدر میں کمی سے سرمایہ کاروں کا امریکہ پر اعتماد اُٹھ جائے گا
ماہر اقتصادیات کا کہنا ہے کہ اگرچہ دنیا کی بنیادی ریزرو کرنسی کے طور پر ڈالر کا کردار اہم ہے تاہم یہ ’امریکہ کے مسلسل تجارتی خسارے میں کردار ادا کرنے والے بہت سے عوامل میں سے صرف ایک ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ اگر تجارتی خسارے کی بہت سی وجوہات ہیں تو یہ خیال کہ ٹیرف اس کا حل ہو سکتا ہے ’سب سے فضول خیالات میں سے ایک ہے۔‘
یہ سمجھتا ضروری ہے کہ تھیوری کے اعتبار سے کوئی بھی امریکی صدر دیگر عالمی کرنسیوں کے مقابلے ڈالر کی قدر کو کنٹرول نہیں کرتا کیونکہ ایکسچینج ریٹ آزادانہ طور پر طے ہوتا ہے۔
واشنگٹن کے قانون ساز کرنسی کی قدر میں اضافے یا کمی سے متعلق براہ راست مداخلت نہیں کر سکتے۔ یہ اس لیے ہے کہ اس کی قدر کا تعین ایک وسیع عالمی کرنسی مارکیٹ سے ہوتا ہے۔ بڑے سرمایہ کار اپنی توقعات کے مطابق ڈالر خریدتے یا بیچتے ہیں۔
تاہم امریکی حکومت کی اقتصادی پالیسی مارکیٹ کو ایک پیغام ضرور بھیجتی ہے اور اس سے ڈالر کی قدر سمیت کئی چیزیں جیسے شرح سود متاثر ہوتے ہیں۔
کیا ڈالر کا کوئی متبادل موجود ہے؟
یہ سب مشین کے کئی پرزوں کی طرح ہے، جیسے کسی ایک پرزے کی حرکت سے دوسرا پرزا حرکت میں آتا ہے۔
یہ اپریل کی بات ہے جب ٹرمپ کے پے درپے ٹیرف کے اعلانات نے سرمایہ کاروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی اور امریکی بانڈز کی قدر کو کمزور کیا۔
بانڈز کے ذریعے حکومتیں اپنی مالی مدد کرتی ہیں۔
Getty Imagesکیا ڈالر کا کوئی متبادل بھی ہے؟
اعتماد کا یہ فقدان بھی ڈالر کے لیے اچھا ثابت نہیں ہوا حالانکہ کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ ایک عارضی معاملہ ہے۔
میزوہو فنانشل کے ماہر اقتصادیات سٹیو ریچیوٹو نے خبر رساں ادارے اے پی کو بتایا کہ کوئی دوسری کرنسی یا اثاثہجیسے چینی یوآن، بٹ کوائن یا سونا اتنا بڑا بڑا نہیں کہ طلب پوری کر سکے۔
ان کی رائے میں اس وقت ڈالر کا کوئی متبادل نہیں ہے۔
ٹیرف کے ساتھ ساتھ ڈالر کی قدر میں گراوٹ کی وجہ سے امریکی صارفین مہنگائی میں ممکنہ اضافے سے بخوبی واقف ہوں گے کیونکہ وہ درآمدی اشیا کے لیے زیادہ قیمتیں ادا کر رہے ہوں گے۔
وہ اخراجات کم کرنے کے ٹرمپ کے انتخابی وعدے کو بھی یاد رکھیں گے۔
بہت سے عوامل اس میں کردار ادا کر رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ کی تجارتی جنگ، ان کا مجوزہ بجٹ اور ٹیکس میں کٹوتیاں، افراط زر اور شرح سود، یہ سب ڈالر کی قیمت پر اثر انداز ہوں گے۔
ابھی جوابات سے زیادہ سوالات ہیں حالانکہ والسٹریٹ کے تخمینے بتاتے ہیں کہ ڈالر کا دوبارہ مستحکم ہونے کا امکان ابھی دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔
نئی تجارتی جنگ کا خدشہ: ٹرمپ کی جانب سے درآمدات پر عائد ٹیکس امریکہ کی معیشت کو کیسے متاثر کر سکتا ہے؟ٹرمپ نے افغانستان اور ایران سمیت کن 12 ممالک کے شہریوں پر ’سفری پابندیاں‘ عائد کیں اور اس کی وجہ کیا ہے؟ایرانی تیل، پابندیاں اور گوتم اڈانی: ’مودی سے قریبی تعلقات رکھنے والے‘ انڈین ارب پتی تاجر کے خلاف امریکہ میں تحقیقات کیوں ہو رہی ہیں؟ٹرمپ اور امریکی یونیورسٹیوں کا تنازع: امریکہ کا غیرملکی طلبا کے لیے ویزا روکنے کا فیصلہوائٹ ہاؤس میں ایک اور ہائی پروفائل تکرار: جب ٹرمپ کو ’سفید فام نسل کشی‘ کے دعوے پر قطری طیارے کا طعنہ ملاامریکی صدر کا طیارہ ’ایئر فورس ون‘ اندر سے کیسا ہے؟