آپ نے یورپ اور امریکہ میں کیمپر وینز دیکھی ہوں گی جو مختلف علاقوں کی سیر بھی کرتی ہیں اور جنہیں شہری سیر و سیاحت اور کیمپنگ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ لیکن شاید آپ کو یہ جان کر حیرانگی ہو کہ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں مقیم ایک شہری محمد اویس حمید راٹھور نے بھی ایک ایسی ہی گاڑی تیار کی ہے جو ایک چلتا پھرتا گھر ہے۔محمد اویس نے مختلف ٹیلی کام آپریٹرز (جاز، یوفون اور زونگ) کی سائٹس پر جنریٹر، بیٹری، ریکٹیفائرز وغیرہ کی انسٹالیشن اور فال ٹریسنگ کے شعبے میں خاصا تجربہ حاصل کیا۔ مگر کورونا وبا کے بعد جب دنیا بدلی، تو ان کا پیشہ ورانہ رستہ بھی بدل گیا، الیکٹرانکس کے ایک شوروم کا آغاز کیا، لیکن اندر کہیں گھومنے پھرنے کی بے چینی تھی۔
اسی بے چینی نے ’ایلیگنٹ بائیکرز‘ کے نام سے ایک بائیکنگ گروپ کی بنیاد رکھی۔ دوست، کزنز اور ساتھیوں پر مشتمل یہ گروپ موٹرسائیکلوں پر ملک بھر کے سیاحتی مقامات کی جانب نکل کھڑا ہوا۔ لیکن یہاں بھی ایک مسئلہ تھا: سامان کی پیکنگ، بزرگوں کا سفر، ہوٹلنگ اور دیگر مشکلات۔ یہی وہ لمحہ تھا جب اویس کے ذہن میں ایک نئی سوچ نے جنم لیا کہ ’ایک ایسی گاڑی ہونی چاہیے جو گھر کی طرح محفوظ، آرام دہ اور ہر موسم میں قابلِ سفر ہو۔‘
رکشے سے کیمپر تک کا سفرمحمد اویس نے اُردو نیوز کو بتایا ہے کہ ابتدائی طور پر انہوں نے اس منصوبے کا خاکہ ایک موڈیفائیڈ رکشے پر بنایا۔ مگر شمالی علاقوں کے پیشتر راستے دشوار کن ہیں جو رکشے کے لیے موزوں نہیں۔ تب فیصلہ کیا کہ فور بائی فور گاڑی کو بنیاد بنایا جائے۔’پھر ایک پرانی نیلام شدہ گاڑی خریدی، اسے مکمل ری کنڈیشن کروایا، اس کی باڈی سے لے کر اندرونی فرنیچر، بجلی کے نظام اور لکڑی کے کام تک کو خود ڈیزائن کیا۔ کیمپر کے ماہرین سے مخصوص حصے بنوا کر خود فٹ کیے۔ زیادہ تر کام خود کیا، صرف کچھ جگہوں پر ماہرین کی خدمت حاصل کی۔‘کیمپر وین: ایک چلتا پھرتا گھراویس راٹھور کا کہنا ہے کہ یہ کوئی عام کیمپر وین نہیں، بلکہ ایک مکمل موبائل ہوم ہے۔ اس میں 12 افراد کے بیٹھنے اور 20 کے سونے کا انتظام موجود ہے۔ تین ٹیبلز (ایک اندر، دو باہر)، دو طرح کے واش رومز، تین اقسام کے چولہے بھی موجود ہیں۔اُن کا کہنا تھا کہ کیمپر وین میں دو مسلم شاورز، ہوم تھیٹر اور 10 موبائل ڈیوائسز کے لیے بیک وقت چارجنگ کا نظام بھی موجود ہے۔محمد اویس راٹھور کا کہنا ہے کہ یہ کوئی عام کیمپر وین نہیں، بلکہ ایک مکمل موبائل ہوم ہے۔ (فوٹو: اردو نیوز)اس گاڑی میں سفر کرتے ہوئے محمد اویس اور ان کے ساتھیوں کو ہوٹلنگ، واش روم، یا بیٹھنے کے انتظام کی فکر نہیں ہوتی۔ بزرگوں کے لیے مکمل لیٹنے کا بندوبست ہے اور بچوں کے لیے محفوظ جگہ۔ نیلم ویلی سے لے کر تولی پیر، خورشید آباد، راولا کوٹاور مظفر آباد تک، یہ گاڑی ہر پُرامن مقام پر پہنچی ہے۔انہوں نے بتایا کہ ’حتیٰ کہ جب انڈین میڈیا نے پاکستانی سیاحتی مقامات کو ’دہشت گردی کے اڈے‘ قرار دیا تو میں نے ایک ہفتے میں 19 مقامات پر کیمپر لے جا کر یہ پیغام دیا کہ یہ پاکستان کے خوبصورت ترین سیاحتی مقام ہیں، نہ کہ عسکری اڈے۔‘’کمرشل ویلیو نہیں، لیکن دل کی خواہش تھی‘اویس راٹھور کا کہنا ہے کہ یہ پروجیکٹ کمرشلی اتنا کامیاب نہیں ہے۔ میرے اب تک اس کیمپر وین پر 50 لاکھ روپے خرچ ہوئے۔ لیکن یہ شوق تھا، دل کی خواہش تھی۔محمد اویس راٹھور کے مطابق کیمپر وین میں ہوم تھیٹر اور 10 موبائل ڈیوائسز کے لیے بیک وقت چارجنگ کا نظام بھی موجود ہے۔ (فوٹو: اردو نیوز)وہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ کیمپر شوق کے لیے ہے، کمرشل استعمال کے لیے نہیں۔ مگر ان کے مطابق سیاحت کسی لگژری یا مہنگے سامان کی محتاج نہیں۔’ہم نے 70 سی سی موٹر سائیکل پر بھی پورا پاکستان گھوما ہے۔ اگر دل میں جذبہ ہو، تو سفر کے لیے گاڑی یا بائیک کی نہیں، نیت کی ضرورت ہوتی ہے۔‘ان کا ماننا ہے کہ لوگوں کو سیاحت مہنگی تفریح لگتی ہے، لیکن اگر سمجھ داری سے منصوبہ بندی کریں تو پانچ سے سات ہزار روپے میں سات دن کا سفر ممکن ہے۔