فاطمہ خیر نے پہلے ہی جملے میں جزیرہ نما کاٹھیاواڑ کی پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے والی اس ریاست کا نام ’مانَودَر‘ ادا کیا، جسے عام طورپر مناَودَر لکھا جاتا ہے، تو میں نے اسی کو مستند جانا۔
فاطمہ خیر نے بی بی سی اُردو سے کینیڈا سے بذریعہ فون بات کی۔ وہ ریاست ’مانودر‘ کے آخری حکمران نواب غلام معین الدین خان جی کی سب سے چھوٹی بیٹی ہیں، جن کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے اعلان کو نہ مانتے ہوئے 22 اکتوبر 1947 کی غبار آلود صبح، دھول اڑاتے انڈین فوجی قافلے اس ریاست میں داخل ہو گئے اور دوپہر تک یہ چھوٹی سی شاہی ریاست انڈیا کے زیرِانتظام آ چکی تھی۔
مغل سلطنت کے زوال کے دنوں میں صوبہ گجرات کے طاقتور شاہی عہدیدار یعنی جونا گڑھ کے بابی خاندان نے کئی علاقوں پر اپنی حکمرانی قائم کر لی تھی۔ جونا گڑھ کے نواب محمد بہادر خان جی اول نے سنہ 1733 میں اپنے چھوٹے بھائی دلیر خان جی بابی کو ’بانٹوا‘ کا علاقہ عطا کیا اور یوں بانٹوا-مانَودَر، یا مختصراً مانَودَر ریاستکی تشکیل ہوئی۔
سنہ 1818 میں یہ تیسرے درجے کی ریاست کے طور پر برطانوی تحفظ میں آئی۔
مانَودَر کے حکمران نواب فتح الدین خان جی کی وفات ہوئی تو اُن کے بیٹے معین الدین خان جی سات سال کے تھے۔ اپنے نابالغ بیٹے کی نائب کے طور پر اُن کی والدہ فاطمہ صدیقہ بیگم نے سنہ 1931 تک ایسی اچھی حکمرانی کی کہ خان جی کے 20 سال کی عمر میں باقاعدہ تخت سنبھالنے تک اُن کی خوش انتظامی کے اعتراف میں ریاست کو دوسرے درجے کی حیثیت دے دی گئی۔
جدید جنوبی ایشیا کے مؤرخ ڈاکٹر یعقوب خان بنگش کے مطابق ’کاٹھیاواڑ کے 22,000 مربع میل کے کل رقبے اور 40 لاکھ کی آبادی کے ساتھ یہ پورا خطہ 14 سلامی ریاستوں (ان ریاستوں کے سربراہوں کو توپوں کی سلامی ملتی تھی)، 17 غیر سلامی ریاستوں اور 191 دیگر جاگیروں پر مشتمل تھا۔‘
جب 1947 میں ہندوستان آزاد ہوا تو جولائی 1947 کے ’انڈین انڈیپنڈنس ایکٹ‘ کے تحت ان شاہی ریاستوں کو اختیاردیا گیا کہ وہ پاکستان یا انڈیا میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کر سکتی ہیں۔
ڈاکٹر یعقوب خان بنگشاپنی کتاب ’اے پرنسلی افیئر: دی ایکسیشن اینڈ انٹیگریشن آف دی پرنسلی سٹیٹس آف پاکستان 1947-1955‘ میں لکھتے ہیں کہ جوناگڑھ کا 15 ستمبر 1947 کو پاکستان سے الحاق اس ایکٹ کا پہلا امتحان تھا۔
’ایک مسلم نواب کی زیرِ حکومت یہ ہندو اکثریتی ریاست تین اطراف سے انڈیا میں گھری ہوئی تھی اور اس کا واحد کھلا راستہ بحیرہ عرب کی جانبتھا۔ جب نواب (جونا گڑھ) نے پاکستان سے الحاق کیا تو انڈیا نے جوناگڑھ کی معاشی ناکہ بندی کی اور سامل داس گاندھی کی قیادت میں بمبئی میں ایک ’عارضی حکومت‘ کو تسلیم کر کے جوناگڑھ میں مظاہرے کروائے اور فوجی دباؤ بڑھایا۔‘
’بانی پاکستان محمد علی جناح نے ان اقدامات پر سخت احتجاج کیا لیکن انڈیا نے جونا گڑھ کے الحاق کو اپنی خودمختاری کے خلاف قرار دے کر موقف سخت کر لیا۔‘
وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’مانَودَر، بابریاواڑ اور منگرول تینوں ریاستیں 1943 کیپولیٹیکل ڈیپارٹمنٹ اٹیچمنٹ سکیم کے تحت کسی نہ کسی درجے میں جوناگڑھ سے منسلک تھیں۔‘
مانَودَر کے خان نے 24 ستمبر 1947 کو پاکستان سے الحاق کا اعلان کیا۔
جناح پیپرز میں بتایا گیا ہے کہ خان صاحب آف مانَودَر نے بانی پاکستان محمد علی جناح کے نام خط میں لکھا کہ ’اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ میری ریاست مملکت پاکستان میں شامل ہو گئی۔‘ انھوں نے پاکستان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار بھی کیا۔
’جناح پیپرز‘ کے مطابق جناح کی جانب سے جواب لکھا گیا کہ ’پاکستان کے لیے آپ کی نیک خواہشات کا شکریہ۔ مجھے یقین ہے کہ ہمارےعوام کے لیے آپ کی ہمدردی، حمایت، باہمی اتحاد، نظم و ضبط اور دوستوں کی مدد سے ہم پاکستان کی تعمیر اس طرح کر سکیں گے کہ وہ دنیا کی امن پسند اقوام کے ہم پایہ ہو جائے۔‘
بنگش لکھتے ہیں کہ ’اس سے پہلے 20 ستمبر کو منگرول کے شیخ نے انڈیا سے اس شرط پر الحاق کیا تھا کہ وہ اسے جوناگڑھ سے آزاد ریاست تسلیم کرے۔ دو ہی گھنٹے بعد شیخ نے الحاق واپس لے لیا لیکن انڈیا نے اس انکار کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، یہ موقف اپناتے ہوئے کہ گورنر جنرل الحاق کو منظور کر چکے ہیں۔‘
’اس صورتحال سے چوکنا ہو کر جونا گڑھ نے 21 ستمبر 1947 کو اپنے ماتحت علاقے بابریاواڑ میں فوج بھیج دی۔ اُدھر بابریاواڑ کے 51 دیہات کے رہنماؤں نے پہلے ہی انڈیا سے الحاق کا اعلان کر دیا تھا، جس پر انڈیا نے کارروائی کا فیصلہ کیا۔ اس کا موقف تھا کہ برطانوی بالادستی کے خاتمے کے بعد الحاق سکیم اور جاگیردارانہ رشتے بھی ختم ہو چکے تھے، لہٰذا یہ ریاستیں اب جوناگڑھ کی تابع نہیں رہیں۔‘
ویپلا پنگونی (وی پی) مینن کو انڈیا کے وزیرداخلہ ولبھ بھائی پٹیل نے شاہی ریاستوں کو انڈیا میں شامل کرنے کا کام سونپا تھا۔
وی پی مینن نے مانَودَر کے پاکستان سے الحاق کے فیصلے پر اپنے 19 ستمبر کے دورے کے دوران راج کوٹ میں مانَودَر کے حکمران، جنھیں خان صاحب آف مانَودَر کہا جاتا تھا، پر انڈیا کے ساتھ الحاق پر دباؤ ڈالا لیکن وہ اپنے فیصلے پر قائم رہے۔
مینن نے اپنی کتاب ’دی سٹوری آف دی انٹیگریشن آف انڈین سٹیٹس‘ میں لکھا ہے کہ ’مانَودَر کے خان اور منگرول کے شیخ کا رویہ مشکوک تھا۔ اُن میں سے کسی نے ابھی تک انڈیا سے الحاق نہیں کیا تھا۔‘
’میں نے ان دونوں کو ٹیلی گرام بھیج کر کہا تھا کہ وہ 18 تاریخ کو شام پانچ بجے مجھ سے ملیں۔ خان کی بجائے مانَودَر کے دیوان آئے۔ میں نے انھیں بتایا کہ میں خود خان سے ملنا چاہتا ہوں۔ خان صاحب مجھ سے ملنے آئے۔ میں نے ان سے ان کے رویے کی وضاحت طلب کی۔ انھوںنے جواب دیا کہ وہ پہلے ہی پاکستان کے ساتھ ایک تعطل کا معاہدہ کر چکے ہیں اور مانَودَر کو اُس ڈومینین (پاکستان) میں شامل ہونے کی اجازت دی جانی چاہیے۔‘
زمزمہ توپ کا آخری معرکہ: کئی ماہ محاصرے کے بعد رنجیت سنگھ کا ملتان پر وہ قبضہ جس سے پنجاب پر افغان حکمرانی ختم ہوئیجونا گڑھ کو پاکستان کے نئے ’سیاسی نقشے‘ میں شامل کرنے کی قانونی حیثیت کیا ہے؟'جونا گڑھ کے پاکستان میں انضمام کا فیصلہ نواب کا نہیں بھٹو صاحب کا تھا‘کم سن بانو کا قتل، جب بیگم جونا گڑھ کو جیل جانا پڑا
مینن لکھتے ہیں کہ ’میں نے انھیں سمجھایا کہ حکومت ہند کے لیے یہ ناقابل برداشت ہے کہ انڈیا کی حدود میں پاکستان کے علاقے ہوں۔ وہ پریشان تھے۔ مجھے بعد میں بتایا گیا کہ وہ مجھ سے ملنے آنے سے پہلے (پاکستان کے دارالحکومت) کراچی سے ٹیلی فون پر بات چیت کر چکے تھے اور انھیں ثابت قدم رہنے کا مشورہ دیا گیا تھا۔‘
’میں نے اُن سے کہا کہ اگلی صبح تک اپنا حتمی فیصلہ مجھے بتا دیں۔ انھوں نے وعدہ کیا کہ وہ پورے معاملے پر غور کریں گے اور اگلی صبح دوبارہ مجھ سے ملنے آئیں گے۔ انھوں نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا۔‘
آسٹریلوی مصنف اور محقق جان زوبرزیکی اپنی کتاب ’ڈی تھرونڈ: دی ڈاؤن فال آف انڈیاز پرنسلی سٹیٹس‘ میں لکھتے ہیں کہ ’دونوں ریاستوں (جونا گڑھ اور مانَودَر) نے اپنا قانونی حق استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ الحاق کر لیا تھا۔‘
’مانَودَر کا رقبہ 260 مربع کلومیٹر تھا اور اس کی آبادی لگ بھگ 35000 تھی۔ بابریاواڑ اور منگرول ریاستیں اس سے بھی چھوٹی تھیں۔ تینوں ریاستیں کاٹھیاواڑ جزیرہ نما کی سب سے بڑی ریاست جوناگڑھ سے گھری ہوئی تھیں۔ جونا گڑھ کا رقبہ 9,000 کلومیٹر اور آبادی 700,000 تھی، جس میں سے 82 فیصد ہندو تھے۔ سوم ناتھ کا مندر اسی جونا گڑھ میں تھا۔‘
’ساحلی ریاست جونا گڑھ کا پاکستان کے ساتھ واحد رابطہ ویراول کی بندرگاہ کے ذریعے تھا، جو مون سون میں ناقابل استعمال ہو جاتی تھی۔‘
یہی راستہ مانَودَر کو بھی استعمال کرنا تھا۔
لیکن ’بدامنی‘ کو وجہ قرار دیتے ہوئے انڈیا نے 22 اکتوبر کو مانَودَر اور یکم نومبر 1947 کو بابریاواڑ پر فوجی قبضہ کر لیا۔
حبیب لاکھانی اپنی کتاب ’الحاق جونا گڑھ‘ میں لکھتے ہیں کہ انڈین افواج نے پرُتشدد کارروائی کے بعد خان صاحب آف مانَودَر کو قید کرنے کے علاوہ ریاست پر قبضہ کر لیا۔
لیکن مینن کا بیان ہے کہ انڈیا کی حکومت کو اطلاعملی کہ مانَودَر کے خان مقامی رہنماؤں کو گرفتار اور لوگوں کو ہراساں کر رہے ہیں اور اگر فوری کارروائی نہ کی گئی تو ریاست میں فساد بھڑک اٹھنے کا خطرہ ہے۔
’وزیر اعظم کے ساتھ بات چیت کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ ایک ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس کو ایک چھوٹی سیپولیس فورس کے ساتھ ریاست کا نظم و نسق سنبھالنے کے لیے مانَودَر بھیج دیا جائے۔ یہ 22 اکتوبر کو کیا گیا اور انتظام چلانے کے لیے ایک مینیجر کا تقرر کیا گیا۔‘
جونا گڑھ میں ’عارضی حکومت‘ کے حامی انڈین فوج کی موجودگی سے حوصلہ پا کر کنٹرول سنبھالنے لگے تو انڈیا نے 9 نومبر 1947 کو ’امن و امان بحال کرنے کے لیے‘ اس ریاست کا انتظام بھی سنبھال لیا۔
پاکستان نے اس اقدام پر سخت احتجاج کیا۔ وزیراعظم لیاقت علی خان نے اپنے انڈین ہم منصب جواہر لعل نہرو کو تار بھیجا جس میں لکھا کہ ’آپ کا ریاست کا انتظام سنبھالنا اور پاکستانی حکومت کی اجازت یا علم کے بغیر انڈین فوجیں بھیجنا پاکستان کی علاقائی خودمختاری کی صریح خلاف ورزی اور بین الاقوامی قانون کی پامالی ہے۔‘
نہرو نے انڈین فوجوں کے انخلا کا مطالبہ رد کر دیا اور علاقائی استحکام کا حوالہ دیتے ہوئے صرف اتنا وعدہ کیا کہ مسئلے پر عوامی رائے شماری (ریفرنڈم) کروائی جائے گی۔
بنگش کے مطابق یہ ریفرنڈم 20 فروری 1948 کو انڈین فوج کی نگرانی میں ہوا جس میں بظاہر انڈیا کے حق میں فیصلہ آیا۔ انڈیاکے نزدیک اس سے معاملہ ہمیشہ کے لیے طے ہو گیا۔ 20 فروری 1949 کو مانَودَر کو ریاستہائے متحدہ کاٹھیاواڑ (سوراشٹرا)میں ضم کر دیا۔ پاکستان نے ان نتائج کو کبھی تسلیم نہیں کیا اور آج تک جوناگڑھ اور مانَودَرکو اپنا قانونی حصہ قرار دیتا ہے۔
مؤرخ اور تاریخ کے استاد ڈاکٹر طاہر کامران کہتے ہیں کہ ’ایک تو وہاں ہندو آبادی زیادہ تھی، دوسرے کانگریس کی لابنگ اور سیاسی تنظیم بہت موثر تھی اور تیسرے مسلم لیگ ان ریاستوں کے جغرافیے کی وجہ سے ان پر دعوے میں زیادہ سنجیدہ نہیں تھی۔ مسلم لیگ اگر سنجیدہ تھی تو حیدرآباد اور کشمیر کے لیے۔‘
’کشمیر پر تو مسلم لیگ کا حق بھی بنتا تھا کیونکہ وہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ جغرافیائی لحاظ سے زیادہ ساتھ بھی لگتا تھا پاکستان کے۔‘
’جونا گڑھ اور مانَودَرسے الحاق اگر ہو بھی جاتا، تو ممکن نہیں تھا کہ یہ زیادہ دیر رہ پاتا کیوںکہ جغرافیائی تفاوت بہت زیادہ تھا اور پاکستان کے ایسے وسائل بھی نہیں تھے کہ انڈیا کے شمال مشرق میں جا کر ایک علاقے میں اپنی عملداری قائم کرتا۔‘
لیکن یہ الحاق مکمل طور پر غیر عملی بھی نہیں تھا۔
ویراول بندرگاہ کے ذریعے پاکستان کے ساتھ ایک سادہ بحری رابطہ قائم ہو سکتا تھا کیونکہ ’کراچی سے جہاز چھ گھنٹوں میں 300 ناٹ کی مسافت طے کر لیتے تھے۔‘
ایئن کوپلینڈ لکھتے ہیں کہ ’ننھا سا جونا گڑھ بھی بحیرۂ عرب کی جانب رخ رکھنے والے اپنے ساحل کی بدولت پاکستان کا حصہ بن کر شاید زندہ رہ سکتا تھا۔ آخرکار قریبی دیو اور گوا بھی 1961 تک پرتگال جیسے کہیں زیادہ دُور افتادہ ملک کی چوکیوں کے طور پر قائم رہے تھے۔‘
لیکن ایسا نہ ہوا۔
مؤرخ ودیا دھر مہاجن ’جدید ہندوستان کے پچاس سال: 1919-1969‘ میں لکھتے ہیں کہ خان جی کو ابتدائی طور پر سون گڑھ میں نظر بند رکھا گیا تھا اور بعد میں راج کوٹ میںقید کیا گیا تھا۔ وہ 8 اپریل 1950 کے لیاقت، نہرو معاہدے کے بعد 1951 میں رہائی پا کر پاکستان چلے گئے۔
مینن نے خان صاحب کی گرفتاری کے بارے میں کچھ نہیں لکھا۔ انھوںنے بس یہ بتایا کہ منگرول کے شیخ اور مانَودَر کے خان دونوں بعد میں پاکستان چلے گئے۔
فاطمہ خیر نے بتایا کہ ’ابا جان 1951 میں بذریعہ ہوائی جہاز پاکستان آئے۔ اُن کے وفادار ساتھی، بیوی بچے، ان کی بہنیں، چچازاد بھائی، دیگر قریبی رشتہ دار اور مانودر میں ان کے عملے کے افراد بھی ان کے ساتھ پاکستان آئے۔ ان کے استاد عاصم خان صاحب بھی کراچی آ گئے تھے اور ابا جان سے بڑی محبت رکھتے تھے۔‘
’ہم پانچ بہن بھائی تھے۔ ہماری والدہ عابدہ بیگم اور ابا جان کے درمیان زبردست ہم آہنگی تھی۔ امی گلُو کی طرح سب کو جوڑے رکھتیں اور ابا جان کی ریڑھ کی ہڈی کی مانند تھیں۔‘
’میں سب سے چھوٹی اور سب سے زیادہ لاڈلی تھی۔ میں جاب کرتی تھی، جس کی اجازت ملنا اُس وقت کے ماحول میں آسان نہ تھا مگر ابا جان ہمیشہ محبت سے پوچھتے: ’کام کیسا چل رہا ہے؟‘ امی بھی دلچسپی لیتی تھیں۔‘
’ابا جان کو موسیقی سے گہرا لگاؤ تھا۔ وہ خود ہارمونیم بجاتے اور بھائیوں نے انہی سے سیکھا۔ ایک بھائی آج بھی موسیقار ہیں۔ میرے ٹیپ ریکارڈر پر جب مغربی موسیقی (ایبا، بی جیز) بج رہی ہوتی، ابا جان چائے کا مگ لے کر آتے اور کہتے: ’اب میرا کیسٹ لگاؤ۔‘
’وہ کھیلوں کے دلدادہ تھے۔ کیرم، شطرنج، چوسر، تاش، لڈو، نائن مین مورس، ہر کھیل میں مہارت رکھتے تھے۔ پولو کے کھلاڑی تھے اور مانودر کی ٹیم کے باقاعدہ رکن۔ پاکستان ہاکی فیڈریشن کے صدر بھی رہے۔ بچوں میں بھی کھیلوں کا شوق اُنہی سے آیا۔‘
’ابا جان کو کتابوں سے عشق تھا، وہ واقعی ایک ’واکنگ ٹاکنگ انسائیکلوپیڈیا‘ تھے۔ لندن کے نیچرل ہسٹری میوزیم کے ممبر تھے۔ جب میں کینیڈا سے آتی تو کہتے کہ کوئی نیچرل ہسٹری کی اچھی کتاب لیتی آنا۔‘
’وہ نجی مزاج کے حامل تھے۔ ہر بات ہر ایک سے نہ کرتے۔ ان کے نزدیک کشمیر ایک بڑا قومی مسئلہ تھا لیکن جوناگڑھ اور مانودر بھی کم اہم نہ تھے۔ وہ کہا کرتے ’جو اللہ تعالیٰ کو منظور ہے، وہ مجھے بھی منظور ہے۔‘
انھیں 1953 میں ہلالِ قائداعظم ملا۔ خان جی کی وفات 13 فروری 2003 کو 92 سال کی عمر میں کراچی میں ہوئی۔ اُن کے بڑے بیٹے اسلم خان بھی پاکستانیفرسٹ کلاس کرکٹر تھے۔ انھوں نے 1955 سے 1978 کے درمیان فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلی اور کچھ لوگ انھیں ’دوسرا‘ کا موجد بھی قرار دیتے ہیں۔
اداکارہ اور ٹیلی وژن میزبان ثروت گیلانی، خان جی کی نواسی اور فاطمہ خیر کی بڑی بہن، نوابزادی طاہرہ سلطانہ کی سب سے بڑی بیٹی ہیں۔
Getty Imagesاداکارہ اور ٹیلی وژن میزبان ثروت گیلانی، نواب غلام معین الدین خان جی کی نواسی ہیں
ثروت بتاتی ہیں کہ ’شادی کے بعد میری والدہ کا نام نوابزادی طاہرہ فیروز شاہ رکھا گیا، والد کے خاندانی نام کی نسبت سے۔ میرے نانا کے پانچ بچے تھے: طاہرہ (میری والدہ) اور ان کے جڑواں بھائی انیس خان، پھر رابعہ، عارف، اور فاطمہ۔ والدہ انیس ماموں سے پانچ منٹ بڑی تھیں، اس لیے سب سے بڑی کہلاتی تھیں۔‘
’میری اور نانا کی تاریخ پیدائش ایک ہی تھی یعنی 22 دسمبر۔ ہمارا سالگرہ کا کیک ایک ساتھ کٹتا تھا جس پر لکھا ہوتا ’ہیپی برتھ ڈے ٹو نانا اینڈ نواسی (نانا اور نواسی کو سالگرہ مبارک)۔‘
ثروت بتاتی ہیں ’نانا نہایت اصول پسند تھے۔ مغرب کے بعد ہمیں باہر جانے کی اجازت نہ تھی۔ وہ دونوں بیٹوں اور ان کے بچوں کے ساتھ رہتے تھے۔ ہر جمعے کے دن ہم ان کے ہاں دوپہر کا کھانا کھانے جاتے، اور بعد میں سب بڑے تاش کھیلتے، چھکڑی اور ٹرمپس۔‘
’نانا کو مصوری، موسیقی، آرٹس اور مطالعے کا شوق تھا۔ ان کی شاندار ذاتی لائبریری تھی جہاں وہ زیادہ وقت گزارتے۔ بچوں سے دوپہر کے کھانے پر انسائیکلوپیڈیا سے آئی کیو سوالات کرتے، اور درست جواب پر دو روپے انعام ملتا۔‘
ثروت کہتی ہیں کہ ’چیریٹی کے کاموں میں وہ پیش پیش رہتے تھے۔ اگر خود شریک نہ ہو سکتے تو تحفہ یا امداد نمائندے کے ذریعے بھجوا دیتے۔‘
زمزمہ توپ کا آخری معرکہ: کئی ماہ محاصرے کے بعد رنجیت سنگھ کا ملتان پر وہ قبضہ جس سے پنجاب پر افغان حکمرانی ختم ہوئیجب نواب نوروز خان نے پھانسی چڑھنے والے اپنے بیٹے کی مونچھوں کو تاؤ دیاجب ایک انڈین شہری وزیر اعظم بننے پاکستان پہنچےجونا گڑھ کو پاکستان کے نئے ’سیاسی نقشے‘ میں شامل کرنے کی قانونی حیثیت کیا ہے؟کم سن بانو کا قتل، جب بیگم جونا گڑھ کو جیل جانا پڑا'جونا گڑھ کے پاکستان میں انضمام کا فیصلہ نواب کا نہیں بھٹو صاحب کا تھا‘