اسلام آباد مالی سال 2025-26 کے لیے 17 ہزار 600 ارب روپے کے وفاقی بجٹ کا اعلان آج قومی اسمبلی میں ہونے جا رہا ہے، جس میں معیشت کے کئی اہم شعبوں کو ترجیح دی گئی ہے۔ یہ بجٹ پچھلے سال کے 18 ہزار 700 ارب روپے کے بجٹ سے کچھ کم ضرور ہے، لیکن اس بار پالیسی سازی میں احتیاط اور توازن کو نمایاں اہمیت دی گئی ہے۔
ٹیکس ریونیو اور آمدنی کے اہداف:
حکومت نے آئندہ مالی سال کے لیے 14 ہزار 200 ارب روپے کا ٹیکس ہدف مقرر کیا ہے، جبکہ نان ٹیکس آمدن سے 4 ہزار 500 ارب روپے حاصل ہونے کی توقع ہے۔ کل آمدن 19 ہزار 400 ارب روپے کے قریب ہوگی، جس میں سے 60 فیصد حصہ این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو منتقل کیا جائے گا یعنی تقریباً 8 ہزار ارب روپے۔
بجٹ خسارہ اور قرضوں کی واپسی:
آئندہ سال بجٹ خسارہ 6 ہزار 200 ارب سے 7 ہزار ارب روپے کے درمیان متوقع ہے۔ قرضوں پر سود کی ادائیگیوں کے لیے بھاری رقم، 8 ہزار 200 ارب روپے مختص کی جا رہی ہے، جو بجٹ کا سب سے بڑا خرچ بنے گا۔
دفاع، پنشن اور سبسڈیز:
دفاعی بجٹ: متوقع رقم 2 ہزار 550 ارب روپے۔
پنشن کی ادائیگی: 1 ہزار ارب روپے۔
سبسڈیز: 1 ہزار 186 ارب روپے۔
گرانٹس: 1 ہزار 900 ارب روپے۔
تنخواہیں، پنشن اور الاؤنسز:
سرکاری ملازمین کے لیے خوشخبری! تنخواہوں میں سے ساڑھے 7 سے 10 فیصد تک اضافے کی توقع ہے، جبکہ ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں 5 سے ساڑھے 12 فیصد تک اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔ گریڈ 1 سے 16 کے ملازمین کے لیے 30 فیصد ڈسپیریٹی الاؤنس دینے کی بھی تجویز زیر غور ہے۔
ترقیاتی اخراجات اور سماجی شعبے:
وفاقی ترقیاتی بجٹ کے لیے 1 ہزار ارب روپے مختص کیے جائیں گے۔
تعلیم: 13 ارب 58 کروڑ روپے۔
صحت: 14 ارب 30 کروڑ روپے۔
تجارتی اور معاشی اہداف:
برآمدات: 35 ارب ڈالر
درآمدات: 65 ارب ڈالر
ترسیلات زر: 39 اشاریہ 43 ارب ڈالر
جی ڈی پی گروتھ ہدف: 4 اشاریہ 2 فیصد
مہنگائی کی شرح (اوسط): 7 اشاریہ 5 فیصد
شعبہ جاتی گروتھ کے اہداف:
زراعت: 4 اشاریہ 5 فیصد
صنعت: 4 اشاریہ 3 فیصد
خدمات: 4 فیصد
کل وفاقی اخراجات کا خاکہ:
مجموعی اخراجات: 17 ہزار 573 ارب روپے
کرنٹ اخراجات: 16 ہزار 286 ارب روپے
یہ بجٹ معیشت کے استحکام، مہنگائی پر قابو پانے اور عوامی فلاح کے لیے ایک متوازن کوشش معلوم ہوتا ہے، مگر اصل امتحان اس کی عملی صورت گری میں ہے۔ عوامی توقعات بلند ہیں، اور حکومت کے لیے یہ موقع ہے کہ وہ اعتماد بحال کرے۔