BBC
چین کے دارالحکومت بیجنگ کو تیانجن پورٹ سے ملانے والی شاہراہ پر ایک عجب منظر ہے: بڑے ٹرک جو خودبخود منزلِ مقصود تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
حکومتی احکامات کے تحت اِن ’ڈرائیور لیس‘ ٹرکوں میں سیفٹی ڈرائیور موجود رہتا ہے مگر انھیں اِن کی ضرورت ہرگز نہیں۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بہت جلد اِن ٹرکوں میں سیفٹی ڈرائیور کی ضرورت بھی نہیں ہو گی۔
سیفٹی ڈرائیور ہیو کنتیان سٹیئرنگ وہیل سے ہاتھ ہٹاتے ہیں تو ٹرک خود چلتا ہے۔ یہ متاثر کن اور پریشان کر دینے والا تجربہ ہوتا ہے۔
ابتدائی مراحل پر وہ خود ٹرک چلاتے ہیں۔ پھر ایک موقع پر کچھ بٹن دباتے ہیں تاکہ ٹرک خود ہی چلنے لگے۔ یہ اس شاہراہ پر اچھی خاصی رفتار سے چل رہا ہوتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’جب میں نے پہلی بار ڈرائیور لیس ٹرک چلایا تو مجھے ڈر لگا تھا لیکن اِن ٹرکوں کو کافی دیر تک سمجھنے اور آزمائش کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ یہ کتنے محفوظ ہیں۔‘
جب ٹرک ہائی وے پر ٹول گیٹس کی طرف بڑھتا ہے تو ہیو کچھ بٹن دباتے ہیں اور ٹول پلازہ پر دوبارہ کنٹرول سنبھال لیتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’بطور سیفٹی ڈرائیو میرا کام دفاع کی آخری صف کا ہے۔ مثلاً اگر ہنگامی حالت ہو تو میں فوراً ٹرک کا کنٹرول سنبھال لیتا ہوں تاکہ سب محفوظ رہیں۔‘
BBC
وہ کہتے ہیں کہ ڈرائیور اس خودکار ٹرک کے چلنے پر اپنی پریشانی اور تناؤ بھول سکتے ہیں، ان کے ہاتھ مصروف نہیں ہوں گے تو وہ کوئی دوسرا کام بھی کر سکتے ہیں۔ ان کے بقول ان کی نوکری بورنگ نہیں بلکہ بہت دلچسپ ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا انھیں لگتا ہے کہ اس ٹیکنالوجی سے ان کی نوکری چلی جائے گی تو انھوں نے کہا کہ وہ اس بارے میں اتنا نہیں جانتے۔
یہ کافی ڈپلومیٹک جواب تھا۔
پونی اے آئی کے ڈرائیور لیس ٹرک فی الحال آزمائشی روٹس پر چل رہے ہیں۔ کمپنی کے نائب صدر لی ہینگ یو کا خیال ہے کہ ابھی صرف آغاز ہوا ہے۔
وہ بی بی سی کو بتاتے ہیں کہ ’مستقبل میں ڈرائیور لیس آپریشنز کے ساتھ ٹرانسپورٹ کی صنعت بہت تیز اور بہتر ہو جائے گی۔‘
’مثلاً لیبر کے اخراجات کم ہو جائیں گے اور ہم خراب ماحول کے ساتھ ساتھ طویل عرصے تک ڈرائیونگ سے جڑے مسائل حل کر پائیں گے۔‘
صنعتی ماہر یانگ روگنگ کا خیال ہے کہ اس کا اصل مقصد پیسے بچانا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’کمپنیاں چاہیں گی کہ آپریشنل اخراجات کم ہوں۔ اس لیے ڈرائیور لیس ٹرکوں میں سرمایہ کاری کا بھرپور جواز موجود ہے۔‘
ان کا خیال ہے کہ اس کا مقصد یہی ہے کہ ڈرائیور کے اخراجات صفر کے قریب آ جائیں۔
BBC
ڈرائیور لیس ٹرک کب دنیا بھر کی سڑکوں پر نظر آئیں گے، اس حوالے سے کئی رکاوٹیں موجود ہیں جس میں لوگوں کا تحفظ بھی شامل ہے۔
چین میں سیلف ڈرائیونگ ٹیکنالوجی کے ایک حادثے میں یونیورسٹی کے تین طالب علم ہلاک ہوئے تھے۔
اکانمسٹ انٹیلیجنس یونٹ کے تجزیہ کار چِم لی کا کہنا ہے کہ چینی عوام کے دل جیتنے میں کافی وقت لگ سکتا ہے۔
پروفیسر یانگ کہتے ہیں کہ فی الحال ٹرک ڈرائیوروں کی نوکریاں محفوظ رہیں گی۔ ان ٹرکوں کو جلد کھلے عام چلانے کی اجازت نہیں ہو گی اور نہ ہی انھیں زیادہ رفتار سے ٹرک چلانے کی اجازت ملے گی۔ انھیں صرف ڈیلیوری کے آخری مرحلے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
مشرقی چین کے انہوئی صوبے میں سینکڑوں ڈرائیور لیس ڈیلیوری وینز استعمال ہوتی ہیں۔ اس کا شہر ہیفئی ایک وقت تک ملک کے سب سے پسماندہ شہروں میں سے ایک تھا مگر اب اسے جدید ٹیکنالوجی کی تیاری کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔
رینو اے آئی کے صدر گیری ہوانگ کہتے ہیں کہ ایسی مارکیٹ دریافت کی گئی جہاں ڈرائیور لیس ڈیلیوری وینز پارسل کی ڈیلیوری کے لیے استعمال ہو سکیں۔ سب سے آخری مرحلے میں سکوٹر پیکجز لوگوں کے گھروں تک پہنچاتے ہیں۔
رینو دیگر ممالک کے ساتھ بھی بات چیت کر رہی ہے۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ اس کی گاڑیاں اگلے سال آسٹریلیا میں نظر آئیں گی۔
Getty Images
چین میں ان کی 500 سے زیادہ وینز 50 سے زیادہ شہروں میں کام کر رہی ہیں۔ ہیفئی ان میں سے سب سے جدید ہے۔
رینو کے علاوہ شہر نے اب دیگر ڈرائیور لیس ڈیلیوری وین کمپنیوں کو بھی اجازت دے دی ہے۔
گیری ہوانگ کا کہنا ہے کہ یہ متعدد وجوہات کی بنا پر ہے جن میں حکومت کی جانب سے حوصلہ افزائی، مقامی سطح پر تجربات، تجربے کا حصول، ضوابط کی اصلاح اور بالآخر وسیع پیمانے پر عمل درآمد کی اجازت شامل ہیں۔
اور اب آپ انھیں سڑکوں پر دیکھ سکتے ہیں جہاں یہ لین بدلتے ہیں، مڑنے سے پہلے اشارہ دیتے ہیں، سرخ بتی پر رکتے ہیں اور دیگر ٹریفک سے دور رہتے ہیں۔
کورئیر کمپنیوں کے لیے اعداد و شمار میں ہی ایک کہانی چھپی ہے۔
آنہوئی صوبے میں رینو کے علاقائی ڈائریکٹر ژانگ کیچن کے مطابق ترسیل نہ صرف تیز ہوئی بلکہ کمپنیاں تین ڈرائیور لیس الیکٹرک ڈیلیوری وینز کرائے پر لے سکتی ہیں جو کئی دن تک چل سکتی ہیں اور ان کے ایک چارج پر بھی اتنا خرچہ نہیں آتا جتنا ایک ڈرائیور کو دینا پڑتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ وہ اپنی صنعت میں تبدیلی کی رفتار سے متاثر ہوئی ہیں۔ ان کے مطابق اگر پانچ سال کے اندر بھاری بھرکم ٹرک معمول کے مطابق سڑکوں پر خود ہی چل رہے ہوں تو انھیں حیرت نہیں ہو گی۔
پروفیسر یانگ بھی ان سے متفق ہیں۔ ان کے مطابق ’کم از کم پانچ سال تک ایک ہائی وے پر بغیر پابندی کے بھاری ٹرک چل رہے ہوں گے۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا واقعی یہ اتنی جلدی ہو سکتا ہے، تو انھوں نے جواب دیا کہ ’مجھے پورا یقین ہے کہ ایسا ہو گا۔ درحقیقت، مجھے یقین ہے کہ ایسا ہو گا۔‘
وہ ملک جو نمک سے چلنے والی بیٹریاں استعمال کر کے الیکٹرک بائیکس کی دنیا پر راج کرنا چاہتا ہےالیکٹرک گاڑیوں کی دوڑ میں ٹیسلا سمیت یورپی کمپنیوں کو پچھاڑنے والی چینی کمپنی کی کامیابی کا راز کیا ہے؟’ایک ٹینک میں 2100 کلومیٹر‘: چینی کمپنی کا نیا ہائبرڈ الیکٹرک سسٹم طویل سفر میں بار بار ری فیولنگ سے جان چھڑا سکتا ہے؟’ایک چارج میں 1200 کلومیٹر‘: ٹویوٹا کا حیرت انگیز دعویٰ کیا الیکٹرک کار کی بیٹری کا مسئلہ حل کر دے گا؟Getty Images
صنعت کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ بغیر ڈرائیور چلنے والے ٹرکس کی فوری ضرورت انڈسٹریل زونز جیسے بندرگاہوں اور کانوں میں ہو گی، جن کی حدود موجود ہوں۔ اس کے علاوہ ایسے علاقے بھی جہاں شدید موسمی حالات ہوں یا آمدورفت مشکل ہو۔
اس حوالے سے بہرحال اب بھی اہم تکنیکی چیلنج باقی ہیں۔
بھاری ٹرکوں کو اپنے آگے موجود رکاوٹوں اور خطرات کو بھانپنے کے لیے بہتر کیمروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ مشکل سڑکوں پر راستے میں اضافی سینسر لگانے کی بھی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ دیگر رکاوٹوں میں شدید موسم یا انتہائی مصروف ٹریفک کے درمیان اچانک غیر متوقع خطرات پیدا ہونا شامل ہیں۔
اس سب سے بڑھ کر یہ ٹیکنالوجی اب بھی سستی نہیں۔ مزید یہ کہ یہ گاڑیاں ابھی پرانی طرز کی لاریوں میں تبدیلیاں کر کے بنائی گئی ہیں نہ کہ بالکل نئی۔
Getty Images
چین نئی ٹیکنالوجیز کا چیمپیئن بننا چاہتا ہے لیکن اسے محتاط رہنا ہو گا، نہ صرف مہلک حادثات کے امکانات کی وجہ سے بلکہ اس وجہ سے کہ چینی لوگ اس تبدیلی کو کس طرح دیکھتے ہیں۔
چم لی کہتے ہیں کہ ’یہ صرف ضوابط کو پورا کرنے کے بارے میں نہیں۔ نہ ہی اس کی کامیابی بہتر عوامی امیج میں ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اگر عوام اس ٹیکنالوجی کے فوائد دیکھ سکیں اور انھیں یہ معلوم ہو کہ اس سے چیزیں کیسے سستی ہو سکتی ہیں یا وہ یہ سوچیں کہ اس سے معاشرہ بہتر ہو رہا ہے اور اسے ایک ایسی ٹیکنالوجی کے طور پر نہ سوچیں جو ممکنہ طور پر کار حادثات یا بے روزگاری کا باعث بن سکتی ہے۔‘
پروفیسر یانگ ایک اور مسئلہ بھی دیکھتے ہیں۔ ’ہم انسان دوسرے انسانی ڈرائیورز کی غلطیوں کو برداشت کر سکتے ہیں لیکن ڈرائیور لیس ٹرکوں کے لیے ہماری برداشت بہت کم ہے۔ مشینوں سے غلطیاں نہیں ہونی چاہییں۔ اس لیے ہمیں یہ یقینی بنانا ہو گا کہ نظام انتہائی قابل اعتماد ہو۔‘
ڈرائیور کے بغیر مال بردار ٹرین کا ’فرار‘: 100 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے بھاگتی 53 بوگیوں کو کیسے روکا گیا؟پیڈل، نہ سٹیئرنگ وہیل: ایلون مسک کی سائبر کیب روبو ٹیکسی کیسے چلے گی؟الیکٹرک گاڑیوں کی دوڑ میں ٹیسلا سمیت یورپی کمپنیوں کو پچھاڑنے والی چینی کمپنی کی کامیابی کا راز کیا ہے؟ٹیسلا: وہ چار وجوہات جو الیکٹرک گاڑیاں تیار کرنے والی کمپنی کو درپیش بحران کا سبب ہیں وہ ملک جو نمک سے چلنے والی بیٹریاں استعمال کر کے الیکٹرک بائیکس کی دنیا پر راج کرنا چاہتا ہے’ایک ٹینک میں 2100 کلومیٹر‘: چینی کمپنی کا نیا ہائبرڈ الیکٹرک سسٹم طویل سفر میں بار بار ری فیولنگ سے جان چھڑا سکتا ہے؟