1100 روپے ادھار، ایک خواب اور فلم ’عاشقی‘ کے گانے جنھوں نے کلکتہ کے کیدار کو کمار سانو بنا دیا

بی بی سی اردو  |  Jun 11, 2025

BBCکمار سانو کا اصل نام کیدارناتھ بھٹاچاریہ ہے۔ کمار سانو کا میوزک کیریئر تقریباً 40 سال پر محیط ہے اور انھوں نے تقریباً 25000 گانے گائے ہیں۔

'ماں مجھے گود میں لے کر مٹی کے چولہے پر کھانا پکاتی تھیں۔ جس طرح بچپن سے ہی والد کا گانا تھا، ماں کا کھانا بھی ایسا ہی ساتھ تھا۔'

یہ کہنا ہے انڈین فلموں کے معروف گلوکار کمار سانو کا جو آج کامیابی اور شہرت کی بلندی پر پہنچنے کے بعد بھی اپنے بچپن اور اس دور کی مالی مشکلات کی زندگی کو نہیں بھولے ہیں۔

کمار سانو کا اصل نام کیدارناتھ بھٹاچاریہ ہے۔ کمار سانو کا میوزک کیریئر تقریباً 40 سال پر محیط ہے اور انھوں نے تقریباً 25000 گانے گائے ہیں۔ ان کا نام گنیز بل آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی شامل ہے۔

آج بھی ’عاشقی‘، ’ساجن‘، ’بازیگر‘ جیسی فلموں میں گائے گئے ان کے گانے لوگوں کے ہونٹوں پر ہیں۔

ان کے گائے فلم 'عاشقی' کا گانا 'اب تیرے بن جی لیں گے ہم' اور فلم 'دیوانہ' کا گانا 'سوچیں گے تم سے پیار، کریں کی نہیں' کافی ہٹ ہوئے تھے۔

صرف ہندی ہی نہیں کمار سانو نے کئی دوسری زبانوں میں بھی گانے گائے ہیں۔

عرفان نے بی بی سی ہندی کے خصوصی شو 'کہانی زندگی کی' میں گلوکار کمار سانو کا انٹرویو کیا ہے اور ان کی زندگی، فلمی دنیا میں انٹری اور کامیابی سے متعلق بات کی ہے۔

Getty Imagesکمار سانو کہتے ہیں کہ ’میرے والد موسیقی کے استاد تھے۔ میرے والد گھر میں بچوں کو موسیقی سکھاتے تھے۔ اس لیے ہم یہ سب دیکھ کر بڑے ہوئے۔‘’بچپن سے ہی موسیقی کی طرف مائل تھا‘

کمار سانو کی پیدائش اور پرورش انڈین ریاست مغربی بنگال کے شہر کولکتہ میں ہوئی۔ ان کے والد بھی موسیقار تھے۔ کمار سانو پانچ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہیں۔

کمار سانو کہتے ہیں کہ 'میرے والد موسیقی کے استاد تھے۔ میرے والد گھر میں بچوں کو موسیقی سکھاتے تھے۔ اس لیے ہم یہ سب دیکھ کر بڑے ہوئے۔'

بچپن سے ہی موسیقی کی طرف مائل ہونے کی وجہ سے انھوں نے بی کام کی پڑھائی درمیان میں ہی چھوڑ دی تھی۔ اپنے ابتدائی کیریئر میں کمار سانو کولکتہ کے ہوٹلوں میں گایا کرتے تھے۔ لیکن موسیقی کی دنیا میں اپنا کیریئر بنانے کے لیے انھوں نے ممبئی جانا ضروری سمجھا۔

وہ کہتے ہیں کہ 'کلکتہ میں اس وقت بہت پیسہ کمایا جا سکتا تھا۔ لیکن میرا ہدف صرف بمبئی فلم انڈسٹری کے لیے گانا تھا۔'

ممبئی جانے سے پہلے انھوں نے کولکتہ میں موسیقی کی دنیا میں نام بنانے کی کئی کوششیں کیں۔ ایک وقت تھا جب کمار سانو اپنے گانوں کی کیسٹ بنا کر بنگالی میوزک ڈائریکٹرز کو بھیجتے تھے۔ لیکن جب وہ بنگالی میوزک انڈسٹری سے مایوس ہوئے تو ان کا ممبئی جانے کا فیصلہ اور بھی پختہ ہو گیا۔

کمار سانو کہتے ہیں کہ 'اس وقت میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ اگر میں بمبئی جاؤں اور اسی جدوجہد کا سامنا کروں تو مجھے بمبئی میں بہت سارے امکانات نظر آ سکتے ہیں۔ مجھے لگا کہ مجھے وہاں ضرور جا کر کوشش کرنی چاہیے۔'

انھوں نے بتایا کہ 'میں نے اپنے بڑے بھائی سے 1,100 روپے ادھار لیے اور سیدھا بمبئی کے لیے ٹرین پکڑی۔'

Getty Imagesممبئی میں پہلی نوکری

کمار سانو کہتے ہیں کہ وہ جس وقت کولکتہ میں اپنا نام بنانے کی کوشش کر رہے تھے اس دوران بھی وہ ایک بار ممبئی آئے تھے لیکن کچھ ہی عرصے میں واپس چلے گئے کیونکہ اس وقت انھیں یہاں کوئی موقع نہیں مل سکا تھا۔

مگر جب 1986 کے اواخر میں کمار سانو دوسری بار ممبئی گئے تو انھیں صرف چھ دنوں میں ایک ہوٹل میں گانے کی نوکری مل گئی۔

ان کے مطابق وہ اتوار کا دن تھا جب کمار سانو آرادھنا گیسٹ ہاؤس گئے تھے۔ وہاں انھوں نے گیسٹ ہاؤس کے مالک سے ایک گانا گانے کواجازت طلب کی۔

کمار سانو کہتے ہیں کہ 'وہاں میں نے گیسٹ ہاؤس کے مالک سے کہا کہ مجھے گانے کا موقع دیں۔ میں نے وہاں جو پہلا گانا گایا وہ 'ہنگامہ کیوں ہیں برپا' تھا۔"

اس گانے کے بعد انھیں 14 ہزار روپے کی ٹپ ملی اور اسی دن انھیں وہاں نوکری مل گئی۔

اگرچہ اس کام نے انھیں سہارا دیا، لیکن ان کا اصل خواب اب بھی وہی بمبئی فلم انڈسٹری میں گلوکار بننا تھا۔

کبیر بیدی کا خصوصی انٹرویو: ’میرا کوئی بھی رشتہ ون نائٹ سٹینڈ نہیں تھا، اب بھی سابقہ بیویوں کا دوست ہوں‘’ہوم باؤنڈ‘: دلت اور مسلمان دوستوں کی کہانی جس کے پریمیئر کے بعد کانز میں پورے نو منٹ تک تالیاں بجتی رہیں25 کروڑ روپے کے بجٹ سے بننے والی فلم ’لو گورو‘: ’ایک بار ولن کا رول کیا تھا مگر وہ فلم چلی نہیں اس لیے اب تک ہیرو آتا ہوں‘علی گڑھ کے درزی جو ’چھوٹے نواب‘ سے صدور تک سبھی کے لیے خاص شیروانیاں تیار کرتے ہیںکشور کمار کی تقلید

ہر فنکار کے پاس ایک رول ماڈل ہوتا ہے جس کی وہ ابتدا میں پیروی کرتا ہے۔ کمار سانو کے لیے یہ متاثر کن گلوکار کشور کمار تھے۔

وہ بتاتے ہیں کہ 'ہم ہمیشہ کسی نہ کسی کو فالو کرتے ہیں۔ میں نے کشور دا کی پیروی کی۔'

لیکن جب انھیں اپنے آپ کو ثابت کرنے کا موقع ملا تو ان کے ذہن میں ایک واضح سوچ تھی۔ اگر وہ صرف ایک 'کشور کی فالور' ہی رہے تو ان کا شمار ان لوگوں میں کیا جائے گا جو گمنامی میںآتے اور چلے جاتے ہیں۔

BBCکمار سانو کا کہنا ہے کہ ’میرے گانوں میں آپ کو کشور دا کی جھلک ملے گی اور کمار سانو بھی نظر آئیں گے۔‘

اس وقت انھوں نے اپنے گانے کے انداز اور شخصیت میں تبدیلی لانا شروع کر دی۔ انھیں اس بات کا ادراک ہو گیا تھا کہ ان کی ایک الگ شناخت کا ہونا بہت ضروری ہے۔

کمار سانو کہتے ہیں کہ 'جب میں کشور دا کے گانے گاتا تھا، تو میں اس میں اپنے انداز کا تھوڑا سا اضافہ کرتا تھا۔ میں نے آہستہ آہستہ یہ عادت پختہ کر لی۔'

وہ کہتے ہیں کہ 'اس وقت مجھے جو بھی مواقع ملے میں نے ان میں اپنا بہترین دیا۔'

اور پھر جب انھیں فلم 'عاشقی' میں گانے کا موقع ملا تو انھیں نہ صرف پہچان ملی بلکہ وہ موسیقی کی دنیا میں ایک نئی آواز بن کر ابھرے۔

کمار سانو کا کہنا ہے کہ 'میرے گانوں میں آپ کو کشور دا کی جھلک ملے گی اور کمار سانو بھی نظر آئیں گے۔'

ان کا ماننا ہے کہ کسی بھی گلوکار کے لیے اپنی رائے دینا بہت ضروری ہے۔ اگر کوئی گلوکار صرف دی گئی ہدایات کے مطابق گاتا ہے اور اس میں اپنا کوئی اضافہ نہیں کرتا ہے تو وہ آگے نہیں بڑھ سکتا۔

ان کا کہنا ہے کہ 'میرے پاس بہت سے گانے ہیں جنھیں میں نے اپنے انداز سے گایا ہے اور جن گانوں میں میں ایسا نہیں کر سکا تو میں ان گانوں کی سٹیج پرفارمنس میں اپنا سارا ان پٹ لگا دیتا ہوں۔'

’گلشن کمار نے میوزک انڈسٹری کو اپنا حق مانگنا سکھایا‘Getty Images

گلشن کمار کو یاد کرتے ہوئے کمار سانو کہتے ہیں کہ 'گلشن کمار ایک ایسے شخص تھے جنھوں نے میوزک انڈسٹری کو اپنے حقوق مانگنا سکھایا۔'

وہ کہتے ہیں کہ 'موسیقی ڈائریکٹر ہوں، گلوکار ہوں یا گیت نگار، گلشن کمار خود انھیں معاوضہ دیتے تھے اور انھوں نے ان میں حق لینے کی عادت ڈالی تھی۔'

کمار سانو اپنے کامیاب کیریئر کا کریڈٹ گلشن کمار کو دیتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ 'گلشن جی نے مجھے 'دھیرے دھیرے سے میری زندگی میں آنا' گانا دیا، جس کی وجہ سے میں آج کمار سانو ہوں۔'

فلم عاشقی نے سٹار بنا دیا

انڈین فلم عاشقی نے کمار سانو کو راتوں رات سٹار بنا دیا۔ 90 کی دہائی کے میوزک کے بارے میں بات کرتے ہوئے کمار سانو کہتے ہیں کہ 'اس زمانے میں میوزک بہت مہنگا ہوتا تھا۔ کسی فلم کی آدھی شوٹنگ صرف اس کا میوزک بیچ کر کی جاتی تھی۔ تب فلمیں سلور جوبلی فلمیں ہوتی تھیں۔'

جب فلم 'عاشقی' ریلیز ہوئی تو کمار سانو ممبئی کے مشہور چندن ٹاکیز میں فلم دیکھنے گئے۔

اس لمحے کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ 'جب میں وہاں گیا تو دیکھا کہ فلم کے ہر گانے کے دوران لوگ سکرین پر پیسے پھینک رہے تھے، فلم دیکھنے کے بعد ہر کوئی میرے بارے میں باتیں کر رہا تھا۔'

اس لمحے کا تجربہ کرنے کے بعد انھیں احساس ہوا کہ ان کی آواز لاکھوں دلوں کو چھو چکی ہے۔

کیا ہانیہ عامر پنجابی فلم ’سردار جی تھری‘ میں دلجیت دوسانجھ کے ساتھ نظر آئیں گی؟علی گڑھ کے درزی جو ’چھوٹے نواب‘ سے صدور تک سبھی کے لیے خاص شیروانیاں تیار کرتے ہیں25 کروڑ روپے کے بجٹ سے بننے والی فلم ’لو گورو‘: ’ایک بار ولن کا رول کیا تھا مگر وہ فلم چلی نہیں اس لیے اب تک ہیرو آتا ہوں‘’ہوم باؤنڈ‘: دلت اور مسلمان دوستوں کی کہانی جس کے پریمیئر کے بعد کانز میں پورے نو منٹ تک تالیاں بجتی رہیںکانز میں مودی کی تصویر والا ہار اور مانگ میں سندور: ’اگلا پدم شری یا رکنِ پارلیمان کا ٹکٹ ان کو ہی دیا جائے گا‘کبیر بیدی کا خصوصی انٹرویو: ’میرا کوئی بھی رشتہ ون نائٹ سٹینڈ نہیں تھا، اب بھی سابقہ بیویوں کا دوست ہوں‘جنس سے متعلق روایتی تصورات توڑتی ’بالی وڈ مخالف‘ فلمیں: ’مرد کچھ بھی کھا لیتے ہیں بس اس میں نمک مرچ ڈال دو‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More