EPAایران نے اس قرارداد کو ’سیاسی‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے اور کہا کہ وہ یورینیم افزودگی کے لیے ایک نیا مرکز کھولے گا
جوہری توانائی اور یورینیم افزودگی کے عالمی نگران ادارے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) نے امریکہاور یورپی ممالک کی طرف سے ایران کے خلاف پیش کی گئی قرارداد کی منظوری دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایران جوہری عدم پھیلاؤ سے متعلق اپنی ذمہ داریوں پر عمل نہیں کر رہا ہے۔
برطانیہ، فرانس، جرمنی اور امریکہ کی جانب سے پیش کی جانے والی اس قرارداد کو انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے 35 رکنی بورڈ آف گورنرز نے منظور کیا، جن میں 19 ارکان نے اس کی حمایت میں، تین نے مخالفت جبکہ 11 ممالک نے غیر جانبداری اختیار کی جبکہ دو ممالک نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔
ایران کے خلاف جمعرات کے روز منظور کی جانے والی اس قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ایران نے جوہری عدم پھیلاؤ کے اپنے وعدوں کی خلاف ورزی کی ہے۔
قرارداد کے متن میں کہا گیا کہ ’بورڈ آف گورنرز اعلان کرتا ہے کہ سنہ 2019 سے ایران میں متعدد خفیہ مقامات پر غیر اعلانیہ جوہری سرگرمیوں کے بارے میں ایجنسی کے ساتھ مکمل اور بروقت تعاون فراہم کرنے کی اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ایران کی متعدد ناکامیاں، بین الاقوامی ایجنسی کے ساتھ حفاظتی معاہدے کے تحت ذمہ داریوں کی عدم تعمیل ہے۔‘
قراردار میں ایران کے افزودہ یورینیم کے ذخیرے کے بارے میں بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے، جسے جوہری ہتھیار بنانے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ایران نے اس قرارداد کو ’سیاسی‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے اور کہا کہ وہ یورینیم افزودگی کے لیے ایک نیا مرکز کھولے گا۔
گذشتہ ہفتے آئی اے ای اے کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ایران کے پاس 60 فیصد تک خالص یورینیم افزودہ ہے، جو کہ ممکنہ طور پر نو جوہری بم بنانے کے لیے کافی ہے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل نمائندے امیر سعید ایروانی نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو ایک خط بھیجا تھا جس میں ایران کی جانب سے یورپی ممالک کے بیانات کو مسترد کیا گیا تھا۔
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل باغی نے اپنے ردعمل میں بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے بورڈ آف گورنرز کی ایران کے خلاف قرارداد کی ’مذمت‘ کی ہے۔
اسماعیل باغی نے اس قرارداد کو ’ایجنسی کے بورڈ آف گورنرز کو استعمال کرنے کا ایک ذریعہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس قرارداد کا مقصد ’ایران کے جوہری پروگرام کی پرامن نوعیت پر شکوک شبہات پیدا کرنا ہے۔‘
Getty Imagesآئی اے ای اے کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ایران کے پاس 60 فیصد تک خالص یورینیم افزودہ ہے، جو کہ ممکنہ طور پر نو جوہری بم بنانے کے لیے کافی ہے
بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے بورڈ آف گورنرز کی جانب سے ایران کے خلاف قرارداد کے بعد ایران کی جوہری توانائی کی تنظیم کے سربراہ محمد اسلمی نے کہا کہ یہ قرارداد تہران پر ’دباؤ ڈالنے‘ کے لیے منظور کی گئی ہے تاکہ ’سیاسی پوائنٹ سکورنگ‘ کی جا سکے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ’ہم جو مشاہدہ کر رہے ہیں وہ تین یورپی ممالک کی سیاسی کارروائیوں کا ایک سلسلہ ہے، جس کی قیادت امریکہ کر رہا ہیں، اور ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل بااثر صیہونی حکومت کی خدمت کر رہے ہیں تاکہ ہم پر پابندیوں کے لیے دباؤ ڈالا جا سکے۔‘
ایران کا اصرار ہے کہ اس کی جوہری سرگرمیاں مکمل طور پر پرامن ہیں اور وہ کبھی بھی جوہری ہتھیار بنانے یا حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرے گا۔
یاد رہے کہ چھ عالمی طاقتوں کے ساتھ 2015 کے ایک تاریخی معاہدے کے تحت، ایران نے اپنی جوہری سرگرمیوں کو محدود کرنے اور آئی اے ای اے کے معائنہ کاروں کی طرف سے مسلسل اور مضبوط نگرانی کی اجازت دینے پر رضامندی ظاہر کی تھی اور اس کے بدلے اقتصادی پابندیوں میں نرمی حاصل کی تھی۔
ایران کا کہنا تھا کہ وہ جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے ’این پی ٹی‘ کے تحت آئی اے ای اے کے ساتھ دیگر حل طلب معاملات پر بھی مدد دینے کو تیار ہے۔
تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں اپنی پہلی مدت کے دوران اس جوہری معاہدے کو ترک کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ اس معاہدے نے ایران کو ایٹمی بم بنانے سے روکنے کے لیے بہت کم کام کیا اور اس کے بعد امریکہ نے ایران پر عائد پابندیوں کو مزید سخت کر دیا تھا۔
ٹرمپ کا ’ہمیشہ جاری رہنے والی جنگیں‘ نہ شروع کرنے کا وعدہ: کیا امریکی صدر ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روک سکیں گے؟زیر زمین جوہری شہر اور یورینیئم کی کانیں: ایران کی ایٹمی صلاحیت اور تنصیبات کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیںایران ایٹم بم بنانے کے کتنا قریب ہے؟ایرانی ’فتح‘ میزائل اور ’شاہد‘ ڈرونز سمیت وہ غیر ملکی ہتھیار جن کی بدولت روس کی عسکری صلاحیت بڑھ گئی
سنہ 2019 کے بعد سے ایران نے جوابی کارروائی کے طور پر موجودہ جوہری معاہدے کی پابندیوں کی خلاف ورزی کی ہے، خاص طور پر ان شقوں کی جو افزودہ یورینیم کی پیداوار سے متعلق ہیں۔
جمعرات کو ویانا میں آئی اے ای اے کے اجلاس میں پیش کی جانے والی قرار دار کی کارروائی کے متعلق سفارت کاروں نے بتایا کہ تین ممالک روس، چین اور برکینا فاسو نے اس قرارداد کے خلاف ووٹ دیا۔ 11 دیگر ممالک نے ووٹنگ کے عمل سے دوری اختیار کی جبکہ دو ممالک نے ووٹ نہیں دیا۔
بی بی سی کو حاصل قرارداد کے متن میں کہا گیا ہے کہ بورڈ کو ’شدید افسوس ہے‘ کہ ایران ’ایجنسی کے ساتھ مکمل تعاون کرنے میں ناکام رہا ہے، جیسا کہ اس کے معاہدے کی ضرورت ہے۔‘
اس میں مزید کہا گیا ہے کہ ’ایران کی جانب سے 2019 سے ایجنسی کو غیر اعلانیہ جوہری مواد اور ایران میں متعدد غیر اعلان شدہ مقامات پر سرگرمیوں کے بارے میں مکمل اور بروقت تعاون فراہم کرنے میں اپنی ذمہ داری کو نبھانے میں بہت سی ناکامیاں رہی ہیں۔۔۔اور اس نے عدم تعمیل کی ہے۔‘
قراردار میں کہا گیا ہے کہ ’اس کے نتیجے میں آئی اے ای اے اس بات کی تصدیق کرنے کے قابل نہیں ہے کہ حفاظت کے لیے ضروری جوہری مواد کو کسی اور مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا جا رہا ہے۔‘
قرارد میں مزید کہا گیا ہے کہ ’ایران کا جوہری پروگرام مکمل طور پر پرامن ہونے کی یقین دہانی فراہم کرنے میں ناکامی، ایسے سوالات کو جنم دیتی ہے جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے دائرہ اختیار میں ہیں۔‘
Getty Images
اب یہ مسئلہ سلامتی کونسل کو بھیجا جا سکتا ہے، جس کے پاس 2015 کے معاہدے کے تحت اٹھائی گئی پابندیوں کو بحال کرنے کا اختیار ہے۔
اٹامک انرجی آرگنائزیشن آف ایران اور ایرانی وزارت خارجہ نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا جس میں ان ممالک کی طرف سے ’سیاسی کارروائی‘ کی مذمت کی گئی جنھوں نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا اور اصرار کیا کہ یہ ’تکنیکی اور قانونی بنیادوں کے بغیر‘ ہے۔
اٹامک انرجی آرگنائزیشن آف ایران اور ایرانی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ ایران اس کے جواب میں ایک محفوظ مقام پر یورنیم افزودگی کی سہولت قائم کر کے اور فرسٹ جنریشن سینٹری فیوجز کو سکستھ جنریشن سینٹری فیوجز کے ساتھ زیر زمین سینٹر میں تبدیل کرے گا۔
ان کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ’اس کے علاوہ دیگر اقدامات بھی اٹھائے جا رہے ہیں۔‘
یہ قرارداد تہران اور واشنگٹن کے درمیان ایک نئے جوہری معاہدے پر بات چیت کو مزید پیچیدہ بنا سکتی ہے جس کے بارے میں ڈونلڈ ٹرمپ کو امید ہے کہ یہ معاہدہ ایران کو اپنی افزودگی کا پروگرام ختم کرے گا اور اسے جوہری ہتھیار تیار کرنے سے روکے گا۔
ان مذاکرات کا چھٹا دور اتوار کو عمان میں ہونے والا ہے۔ تاہم، ٹرمپ نے اس ہفتے کے شروع میں کہا تھا کہ وہ معاہدے طے پانے کے بارے میں کم پر اعتماد ہیں۔
انھوں نے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو کے ساتھ ایک طویل فون کال پر رابطہ بھی کیا تھا۔ اسرائیلی وزیر اعظم ایک عرصے سے ایران کے ساتھ معاملات کو طے کرنے کے لیے سفارتی کوششوں کی بجائے عسکری حل پر زور دیتے رہے ہیں۔ اسرائیل ایران کو اپنی سالمیت کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔
یہ قرارداد ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب مشرق وسطیٰ میں کشیدگی بڑھ رہی ہے اور اس کے پیش نظر امریکہ نے خطے میں اپنے کچھ سفارت خانوں کے غیر ضروری عملے کو وہاں سے نکل جانے کا مشورہ دیا ہے اور یہ رپورٹس سامنے آئی ہیں کہ اسرائیل ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے کرنے کے لیے تیار ہے۔
جبکہ ایرانی وزیر دفاع نے متنبہ کیا ہے کہ ایران کسی بھی حملے کی صورت میں خطے میں ’اپنی پہنچ میں‘ موجود امریکی اڈوں کو نشانہ بنائے گا۔
بدھ کو ایرانی وزیر دفاع عزیز ناصر زادہ نے بھی حالیہ پیش رفت کے جواب میں خبردار کیا کہ ایران پر کسی بھی حملے کا جواب خطے میں امریکی اڈوں پر میزائل داغ کر دیا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ ’امریکہ کے پاس خطے سے نکلنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہو گا۔‘
ایران نے کئی عسکری پیشرفت بھی کی ہیں جس میں دو ٹن وار ہیڈ والے بیلسٹک میزائل کا تجربہ اور درمیانی فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل قاسم بصیر کی عوامی سطح پر لانچ بھی شامل ہے۔ اس میزائل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ خلیج فارس اور اس سے آگے امریکی مفادات کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ادھر ایران کی مسلح افواج کے سربراہ میجر جنرل محمد باقری نے کسی بھی ممکنہ حملے کے پیش نظر ملک میں فوجی مشقوں کا سلسلہ شروع کرنے کا حکم دیا ہے۔
ایرانی نشریاتی ادارے کا کہنا ہے کہ 'یہ مشقیں مسلح افواج کے سالانہ کیلنڈر میں تبدیلی کے ساتھ کی جائیں گی' یعنی یہ مقرر کردہ وقت سے قبل کی جائیں گی اور ’دشمن کی نقل و حرکت پر توجہ دی جائے گی۔‘
ایرانی میڈیا کی رپورٹ میں میجر جنرل محمد باقری کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ ’ان مشقوں کے انعقاد کا مقصد مسلح افواج کی دفاعی اور ڈیٹرنس صلاحیتوں کو بڑھانا اور اُن کی تیاری کا اندازہ لگانا ہے۔‘
ایران ایٹم بم بنانے کے کتنا قریب ہے؟زیر زمین جوہری شہر اور یورینیئم کی کانیں: ایران کی ایٹمی صلاحیت اور تنصیبات کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیںٹرمپ کا ’ہمیشہ جاری رہنے والی جنگیں‘ نہ شروع کرنے کا وعدہ: کیا امریکی صدر ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روک سکیں گے؟