ایک خاتون کا انتقال 2018 میں ہوا۔ ان کے بارے میں مجھے معلوم ہوا کہ انتقال کے بعد بھائیوں نے ان کی کتاب شائع کی۔ ان کی زندگی میں شاعری کی دو کتابیں شوہر نے تندور میں جلا دی تھیں صرف اس لیے کہ وہ نہ لکھیں۔‘پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کی معروف پشتو اور اردو زبان کی مصنفہ اور شاعرہ کلثوم زیب گزشتہ 45 برس سے ادب کے میدان میں سرگرم ہیں۔ وہ پشتو زبان کی شاعرات کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی خواہش مند ہیں اور اس مقصد کے لیے وہ ہر اس علاقے تک پہنچنے کی کوشش کرتی ہیں جہاں انہیں کسی شاعرہ کی موجودگی کا سراغ ملتا ہے۔انہوں نے گزشتہ تین صدیوں میں پشتون خواتین لکھاریوں پر ایک تحقیقی کتاب ’پختنے ملغلرے‘ تصنیف کی ہے۔ یہ کتاب ان خواتین کی زندگیوں اور ان کی ادبی خدمات پر مبنی ہے جو اب تک نظروں سے اوجھل رہی ہیں یا گمنام ہیں۔’ابھی 12 سے 15 ایسی خواتین تک رسائی ہوئی ہیں جنہوں نے لکھنے کا کام کیا ہے اور میں انہیں بھی اگلے ایڈیشن میں شامل کروں گی۔ اس کتاب میں بہت سی خواتین ہیں جن کا ذکر تاریخ کی کتابوں میں ملتا ہے اور کچھ کو میں نے خود ڈھونڈا ہے۔‘اردو نیوز سے گفتگو میں 60 برس کی مصنفہ اور شاعرہ کلثوم زیب نے بتایا کہ وہ ہر اس پختون شاعرہ سے رابطہ کرتی ہیں جس کے پاس اپنے جذبات اور احساسات کا کوئی ذریعہ نہیں۔’مجھے مارکیٹ سے پتا چلا کہ کوئی نئی کتاب آئی ہے۔ میں نے معلوم کیا تو یہ بات سامنے آئی کہ ایک خاتون کے انتقال کے بعد ان کے بھائیوں نے ان کی کتاب شائع کی ہے۔ یہ آخری کتاب انہوں نے کاغذ پر لکھ لکھ کر اپنے بھائیوں کے حوالے کی، جو انہیں محفوظ کرتے رہے، اور یہ کتاب ان کے انتقال کے بعد شائع ہوئی۔ ہمارے معاشرے میں ایسی خواتین کی کمی نہیں ہے۔ بہت سی خواتین لکھتے لکھتے دنیا سے رخصت ہو جاتی ہیں، اور ان کی شاعری اور نثر کا کسی کو علم تک نہیں ہوتا۔‘صوابی سے تعلق رکھنے والی ریٹائرڈ سکول ہیڈ مسٹریس کلثوم زیب نے ’خویندے ادبی لخکر (خال)‘ (بہنوں کا ادبی لشکر) کے نام سے 2016 میں پختون خواتین شاعرات کی تنظیم کی بنیاد رکھی۔ اس تنظیم کے ارکان کی تعداد دس ہے اور یہ پشتو زبان میں ایک سہ ماہی مجلہ (دُردانې) بھی شائع کرتی ہے جس میں ہر اس شاعرہ کو جگہ دی جاتی ہے جو اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار کرنا چاہتی ہیں۔’خویندے ادبی لخکر‘ نہ صرف خیبر پختونخوا کی شاعروں، ادیبوں اور افسانہ نگاروں کی بلکہ پشتو ادب کی تاریخ میں بھی خواتین شاعرات کی پہلی باضابطہ تنظیم ہے۔کلثوم زیب نے ’خویندے ادبی لخکر‘ کے نام سے 2016 میں پختون خواتین شاعرات کی تنظیم کی بنیاد رکھی۔ (فوٹو: فیس بک)اس تنظیم کے قیام کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ ’ہم جب مردوں کے پروگراموں میں شرکت کے لیے جاتے تھے تو وہاں سارے مرد ہی ہوتے تھے اور میں ایک اکیلی خاتون۔ ہماری خواتین کو ایسے پروگراموں میں جانے کا شوق ہوتا تھا لیکن وہ مردوں کی موجودگی کی وجہ سے شرکت نہیں کر پاتی تھیں۔ ہمارے بعض مشہور ادیب بھی اس خیال کے حامی تھے۔ تو میں نے فیصلہ کیا کہ اب خواتین کے لیے ایک تنظیم قائم ہونی چاہیے۔ جب میں میدان میں نکلی تو مجھے خواتین بھی ملیں، جن سے میرا رابطہ قائم ہوا۔ تب میں نے محسوس کیا کہ میں اکیلی نہیں ہوں اور بھی بہت باصلاحیت خواتین ہیں۔‘کلثوم زیب نے بتایا کہ ’اس تنظیم سے تقریباً 450 خاتون شعرا، ادبا اور افسانہ نگار وابستہ ہیں۔ جن میں 30 سے 35 ایسی ہیں جو عملی طور پر تقریبات میں شریک ہو سکتی ہیں جبکہ باقی ہمارے ساتھ واٹس ایپ پر رابطے میں رہتی ہیں۔ ان کے راستے میں معاشرے کی روایات حائل ہیں اور گھر سے نکلنا ان کے لیے مشکل ہے۔‘ان کے مطابق ’ہر کسی کے پاس موبائل فون کی سہولت بھی میسر نہیں ہوتی۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی ذریعے سے ان تک رسائی حاصل کی جا سکے۔ میں خود ان خواتین سے ملنے جاتی ہوں لیکن بعض ملاقات سے ہچکچاتی ہیں۔ ہماری ایک بہت اچھی شاعرہ ہیں جو کسی سکول میں پڑھاتی ہیں لیکن وہ ہمیں مل نہیں سکتیں کیونکہ ان کے سسرال والے نہیں چاہتے۔ صورتحال یہ ہے کہ 19 گریڈ کی خاتون کے لیے یہ مشکل ہے۔ ایسی کئی خواتین ہیں جو شادی سے پہلے شاعری کرتی تھیں لیکن شادی کے بعد شوہروں کے خوف یا دباؤ سے انھوں نے اپنی تخلیق کو جلا دیا، اب وہ لکھنا چھوڑ چکی ہیں۔ یہ ایک المیہ ہے۔‘کلثوم زیب نے 65 کتابیں لکھی ہیں اور اپنی جیسی کئی لکھاریوں کو سامنے لانے کے لیے جہدوجہد کر رہی ہیں۔پشاور یونیورسٹی کی پشتو اکیڈمی کی سابق ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر سلمیٰ شاہین کا کہنا ہے کہ ’مرد تو شاعری کر سکتے ہیں لیکن پختونوں کے معاشرے میں خواتین کے لیے عشق و محبت اور نسوانی احساسات کو کھل کر بیان کرنا نہایت مشکل ہے۔‘انہوں نے مزید کہا کہ ’اردو اور انگریزی زبان میں خواتین شاعرات کی تعداد کہیں زیادہ ہے جبکہ پشتو زبان میں ایسی خواتین کی تعداد ہمیں کم نظر آتی ہیں۔ یا تو وہ ہم تک پہنچ نہیں پاتیں یا ہمیں ان کے بارے میں علم نہیں ہو پاتا اور یا پھر وہ گھریلو مجبوریوں کا شکار ہوتی ہیں۔ یہ مردوں کا معاشرہ ہے لیکن صحیح بات یہ ہے کہ غربت اور جہالت خواتین کو آگے بڑھنے سے روکتے ہیں۔ مرد یہ برا مانتے ہیں کہ ان کی گھر کی لڑکی کچھ لکھ لے اور وہ کسی اخبار یا رسالے میں چھپ جائے۔‘خال کی جانب سے پشتو زبان میں سہہ ماہی مجلہ (دُردانې) بھی شائع کیا جاتا ہے۔ (فیس بک)ڈاکٹر سلمیٰ شاہین کہتی ہیں ’پختون ایک رومانی فطرت رکھنے والی قوم ہے لیکن اس کے مرد، نہ تو وہ شعر و شاعری کو پسند کرتے ہیں، نہ خواتین کا باہر نکلنا پسند کرتے ہیں اور نہ ہی عورت کے خیالات یا فکری اظہار کو۔‘’تبدیلی اس وقت آ سکتی ہے جب پختونوں میں غربت کا خاتمہ ہو، عزت کے نام پر قتل بند ہوں اور یہ چیزیں تب ختم ہوں گی جب ہم ایک مہذب معاشرہ بن جائیں اور یہ تب ممکن ہے جب پیسہ، تعلیم اور شعور پیدا ہو۔ دماغ روشن ہو اور ہم روشن فکر بن سکیں۔‘’میرے والد تنگ نظر نہیں تھے لیکن معاشرے کے ساتھ مقابلہ مشکل تھا‘فرزانہ رسول صنم جو ’خویندے ادبی لخکر‘ کی صوبائی سیکریٹری ہیں، سنہ 1988 سے شاعری کر رہی ہیں۔ ان کا تعلق ایک علمی گھرانے سے ہے لیکن اس کے باوجود ان کو معاشرتی دباؤ کا سامنا رہا۔وہ بتاتی ہیں کہ میرے والد تنگ نظر نہیں تھے لیکن معاشرے کے ساتھ مقابلہ مشکل تھا۔ ’جب میرے والد کو لوگ اکساتے تھے تو ایک دو دن ہم سکول نہیں جاتے تھے۔ پھر والد کہتے کہ جاؤ میں ان لوگوں سے نمٹ لوں گا۔ میری بہن بھی شاعرہ ہیں۔ اس وقت حالات بہت مشکل تھے لیکن ہم نے ہمت نہیں ہاری اور مقابلہ کیا۔‘انہوں نے اپنی پہلی کتاب 50 برس کی عمرمیں چھاپی اور اب وہ پشتو ادب میں پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔ فرزانہ رسول صنم کہتی ہیں کہ ’ہم نے بہت کچھ بدل دیا ہے لیکن پختون مردوں کی سوچ نہیں بدلی۔ جب ہم کوئی ادبی پروگرام منعقد کرتے ہیں تو اس میں اچھے اچھے شعرا اور لکھاری مرد حضرات شرکت کرتے ہیں لیکن ان کی خواتین ہمارے پروگرامز میں شرکت ہی نہیں کرتیں۔ ہم پھر بھی اپنے خاندان والوں سے اتنا مقابلہ کر لیتے ہیں کہ ہم پروگرام میں شرکت کر لیتے ہیں اور مرد حضرات خود تو آتے ہیں لیکن اپنی خواتین کو نہیں لاتے تو جب تعلیم یافتہ لوگوں کی یہ سوچ ہے تو معاشرے کے دیگر افراد کی سوچ کیسے بدل سکیں گے۔‘’خویندے ادبی لخکر‘ کی کابینہ کی پانچ خواتین اس تنظیم کے اخراجات خود اٹھاتی ہیں۔ کلثوم زیب کے مطابق ’حکومت کی جانب سے اب کوئی مدد نہیں مل رہی۔ ماضی میں لکھاریوں اور موسیقاروں کو ماہانہ 30 ہزار دیے جاتے تھے لیکن اب یہ سلسلہ بند ہو چکا ہے۔ موجودہ گورنر سے فنڈز کی درخواست کی ہے۔ میں جب تک زندہ ہوں خواتین لکھاریوں کے لیے کام جاری رکھوں گی۔‘خویندے ادبی لخکر کے ساتھ تقریباً 450 شاعرات، ادبا اور افسانہ نگار وابستہ ہیں۔ (فوٹو: فیس بک)پروفیسر اور ممتاز شاعر ڈاکٹر اباسین یوسفزئی نے اس تنظیم کا نام تجویز کیا تھا۔انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ادب کی تاریخ میں نہ افغانستان، نہ بلوچستان اور نہ خیبر پختونخوا کی تاریخ میں پختون خواتین کی کسی تنظیم کا نام سنا گیا تھا۔’اس تنظیم کے پہلے پروگرام میں 40 خواتین نے شرکت کی اور انہوں نے اپنا کلام پیش کیا۔ جبکہ اس سے قبل صرف تین چار خواتین ہی منظرعام پر آتی تھیں۔ میں 45 برس سے ادبی میدان میں ہوں۔ تو جب پشتو اور ہندکو زبان کے لکھاریوں کی ادبی نشستیں ہوتی تھیں تو خواتین ان میں آنا پسند نہیں کرتی تھیں۔ اس لحاظ سے یہ خوش آئند بات ہے کہ اب ان کی اپنی ایک تنظیم موجود ہے۔‘’میں اس تنظیم کے نتائج سے بہت مطمئن ہوں۔ اس نے متعدد ادبی پروگراموں کا انعقاد کیا۔ ایک کانفرنس بھی منعقد کی اور ایک ادبی رسالہ بھی شائع کر رہی ہے۔ اس تنظیم کو فروغ دینا چاہیے تاکہ خواتین کی صلاحیتیں سامنے آ سکیں۔۔ ایسی بہت سی خواتین گزری ہیں جن کا کلام ضائع ہوا اور آج تک ان کے بارے میں کسی کو علم نہیں ہو سکا۔‘