برطانوی پولیس نے’فلسطین ایکشن‘ کو پیر کے روز پارلیمنٹ کے باہر احتجاج کرنے سے روک دیا ہے، جو کہ غیر معمولی اقدام ہے۔خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یہ پابندی ایسے وقت میں لگائی گئی ہے جب اس گروپ کے دو ارکان گزشتہ ہفتے ایک فوجی اڈے میں گھس گئے تھے، اور حکومت اس تنظیم پر پابندی لگانے پر غور کر رہی ہے۔اس کے جواب میں گروپ نے اعلان کیا ہے کہ اس نے پیر کے احتجاج کا مقام تبدیل کر کے ٹرافلگر سکوائر منتقل کر دیا ہے، جو کہ پولیس کے ممنوعہ علاقے سے باہر واقع ہے۔
یہ فلسطین نواز تنظیم ان گروپوں میں شامل ہے جو غزہ میں جاری تنازعے کے آغاز سے برطانیہ میں اسرائیل سے منسلک دفاعی کمپنیوں اور دیگر اداروں کو مسلسل نشانہ بنا رہی ہے۔
برطانوی میڈیا نے رپورٹ کیا ہے کہ حکومت ’فلسطین ایکشن‘ کو ایک دہشت گرد تنظیم کے طور پر کالعدم قرار دینے پر غور کر رہی ہے، جس سے اسے القاعدہ یا داعش جیسی تنظیموں کے برابر سمجھا جائے گا۔لندن کی میٹروپولیٹن پولیس نے اتوار کی رات اعلان کیا کہ وہ پارلیمنٹ کے باہر ’فلسطین ایکشن‘ کے احتجاج کو بین کرے گی۔میٹ پولیس کمشنر مارک راؤلی نے کہا کہ ’احتجاج کا حق بنیادی ہے اور ہم ہمیشہ اس کا دفاع کریں گے، لیکن ایسے گروہ کی حمایت میں کی جانے والی کارروائیاں عام طور پر جائز احتجاج سے آگے بڑھ چکی ہیں۔‘انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے حکومت کے سامنے اس گروہ کو کالعدم قرار دینے کے لیے آپریشنل بنیادیں پیش کی ہیں۔‘راؤلی کے مطابق ’فلسطین ایکشن‘ کے ارکان پر لاکھوں پاؤنڈز کی مجرمانہ کارروائی کرنے، ایک پولیس افسر پر ہتھوڑے سے حملہ کرنے، اور گزشتہ ہفتے کے واقعے میں دو فوجی طیاروں کو نقصان پہنچانے کا الزام ہے۔