خیبر پختونخوا کے قبائلی علاقوں میں مبینہ ڈرون حملوں کے بعد خوف: ’اب لوگ گھروں میں بھی محفوظ نہیں‘

بی بی سی اردو  |  Jun 25, 2025

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے خیبر پختونخوا میں حالیہ مہینوں کے دوران ڈرون حملوں میں تیزی اور ان کے نتیجے میں شہریوں خصوصاً بچوں کی ہلاکتوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل میں ساؤتھ ایشیا کی نائب ریجنل ڈائریکٹر ایزابل لاسے نے خیبرپختونخوا میں رواں سال مبینہ ڈرون حملوں میں پانچ بچوں سمیت 17 افراد کی ہلاکتوں پرردِعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’پاکستانی حکام خیبر پختونخوا کے شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کے لیے مؤثر اقدامات اٹھانے میں ناکام رہے ہیں۔ صوبے میں ڈرون حملوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور 20 جون کو ایک اور جان لیوا حملے میں ایک بچے کی ہلاکت نے اس خطرناک رجحان کو مزید نمایاں کیا ہے۔‘

بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ڈرونز اور کواڈ کاپٹرز کے ذریعے ایسے حملے جن کے نتیجے میں شہری ہلاکتیں ہو رہی ہوں، بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔ ایسی رپورٹس ہیں کہ حملے رہائشی مکانات یا والی بال میچز پر کیے گئے اور یہ اس امر کی نشاندہی کرتی ہیں کہ انسانی زندگی کو یکسر نظرانداز کیا جا رہا ہے۔‘

بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ ’اگرچہ پاکستانی حکام اکثر ان حملوں کی ذمہ داری سے انکار کرتے ہیں تاہم ان پر لازم ہے کہ وہ ہر حملے کی فوری، خودمختار، شفاف اور مؤثر تحقیقات کریں اور جو لوگ ان حملوں کے ذمہ دار پائے جائیں، انھیں عدالتی عمل کے ذریعے قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔‘

انھوں نے یہ بھی زور دیا کہ ان حملوں کے متاثرین اور ان کے خاندانوں کو انصاف، مالی معاوضہ اور بحالی کی مکمل سہولیات فراہم کی جائیں۔

یہ واقعات کہاں کہاں پیش آ رہے ہیں اور ان میں کیا ہوا؟

ایمنسٹی انٹرنیشنل اور بی بی سی کے مرتب کردہ ریکارڈ کے مطابق مارچ 2025 سے اب تک خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں کئی ڈرون حملے ہو چکے ہیں جن میں سے کم از کم پانچ حملے شہریوں کی ہلاکت یا زخمی ہونے کا سبب بنے۔

29 مارچ کو مردان کے علاقے کتلانگ پر حملے میں کم از کم 11 افراد مارے گئے۔19 مئی کو شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی، حرمز میں ایک حملے میں چار بچے ہلاک اور پانچ زخمی ہوئے۔ 28 مئی کو جنوبی وزیرستان کے علاقے وانا میں والی بال میچ کے دوران ایک اور ڈرون حملہ ہوا جس میں 22 افراد زخمی ہوئے، جن میں سات بچے شامل تھے۔20 جون کو جنوبی وزیرستان کی تحصیل مکین، گاؤں ڈشکہ میں ڈرون حملے میں ایک بچہ ہلاک اور پانچ دیگر زخمی ہوئے۔

ضلع کرم سے منتخب رکن قومی اسمبلی حمید حسین نے گزشتہ روز پشاور میں ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ اب خواتین اور بچے گھروں میں یا کھیل کے میدانوں میں محفوظ نہیں۔

انھوں نے بتایا کہ 20 جون کو ہونے والے حملے میں بچوں پر ایک گولہ گرا، جس سے چار بچوں کی جان چلی گئی اور اس گولے کی شدت اتنی تھی کہ ان کے جسم کو بہت زیادہ نقصان پہنچا۔

اسی طرح چند روز پہلے اپر جنوبی وزیرستان کے علاقے لدھا میں 17 جون کو ایک حملہ اسسٹنٹ کمشنر کے کمپاؤنڈ کی بانڈری وال پر ہوا لیکن اس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

اس کے علاوہ شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی کے گاؤں موسکی میں جون کے پہلے ہفتے میں ایک حملہ ہوا جبکہ ایک اور جنوبی وزیرستان کے علاقے برمل میں ہوا۔ ان حملوں میں زخمی ہونے والے بچوں کے والدین اور مقامی لوگوں نے کہا تھا کہ ڈرون یا کواڈ کاپٹر دیکھ کر بچے ڈر کے مارے بھاگے لیکن پھر بھی اس کا شکار ہوئے ہیں۔

جنوبی وزیرستان کی تحصیل برمل میں حملہ کھیل کے میدان کے قریب والی بال کھیلتے بچوں کے قریب ہوا۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ ’اس جگہ پر دکانیں ہیں اور سڑک کے دوسری جانب کھیل کا میدان ہے، لوگوں نے ڈرون یا کواڈ کاپٹر دیکھا اور تھوڑی دیر کے بعد کچھ نیچے گرا جس سے دھماکہ ہوا۔‘

ہسپتال میں میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر جان محمد نے 23 افراد کے زخمی ہونے کی تصدیق کی تھی۔ انھوں نے بتایا تھا کہ 16 زخمیوں کو ابتدائی طبی امداد فراہم کرنے کے بعد ہسپتال سے فارغ کر دیا گیا تھا جبکہ پانچ ہسپتال میں داخل رہے اور دو کو ڈیرہ اسماعیل خان ریفر کر دیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہسپتال پہنچنے والے افراد کو جسموں پر مختلف قسم کے زخم آئے ہیں۔ ان میں دو شدید زخمی ہیں جنھیں سینے پر گہرا زخم اور مسلسل خون بہہ جانے کی وجہ سے ڈیرہ اسماعیل خان ہسپتال روانہ کر دیا گیا تھا۔

موسکی میں ہونے والے حملے میں کم سے کم چار بچے زخمی ہوئے ہیں۔ زخمیوں میں سے دو کو بنوں ہسپتال ریفر کر دیا گیا تھا۔

مقامی ٹیکسی ڈرائیور نے بی بی سی کو بتایا کہ دھماکے کے بعد زخمیوں کو میر علی تحصیل کے ہسپتال میں لایا گیا تھا جہاں انھیں طبی امداد فراہم کی گئی۔

ایک زخمی کے والد ابراھیم نے بتایا کہ وہ کام کے سلسلے میں پہلے سے ہسپتال میں موجود تھے کہ اتنے میں زخمیوں کو وہاں ہسپتال لایا گیا۔ انزخمیوں میں ان کا سات سالہ کا بیٹا شامل تھا۔

انھوں نے کہا کہ ’بیٹے کو دیکھتے ہی میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی، ہاتھ پاؤں میں جیسے طاقت نہیں رہی۔۔۔ لوگوں نے سہارا دیا اور مجھے سنبھالا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میرا بیٹا اور دیگر بچے شام کے وقت اپنے گاؤں میں کرکٹ کھیل رہے تھے کہ اتنے میں انھوں نے ڈرون دیکھا اور پھر ڈر کے مارے وہاں سے بھاگے لیکن اتنے میں دھماکہ ہو گیا۔‘ انھوں نے بتایا کہ ’میرے بیٹے کو گردن پر زخم آئے۔‘

کاٹلنگ میں ’شدت پسندوں کے خلاف‘ حملہ اور پاکستان کی ڈرون صلاحیتفوجی آپریشن کی ڈرون ویڈیوز: کیا پاکستانی فوج کی شدت پسندوں کے خلاف حکمت عملی تبدیل ہوئی ہے؟پاکستان اور انڈیا کی ’ڈرون ریس‘: وہ یو اے ویز جو جنوبی ایشیا میں ’عسکری طاقت‘ کو نئی شکل دے رہے ہیںپاکستان میں تیار کردہ ’شہپر ٹو‘ جنگی ڈرون کن صلاحتیوں کا حامل ہے؟

ایک سرکاری افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس واقعہ کی تصدیق کی لیکن یہ نہیں بتا سکے کہ یہ ڈرون یا کواڈ کاپٹر کس نے استعمال کیا اور ان بچوں پر ہی حملہ کیوں کیا گیا۔

جنوبی وزیرستان کی تحصیل برمل میں 28 مئی کو ایک کواڈ کاپٹر حملے میں 23 افراد زخمی ہو گئے تھے جن میں سے دو کی حالت تشویشناک بتائی گئی تھی۔

گذشتہ سال ستمبر میں سراروغہ، جنوبی وزیرستان میں ایک حملے میں ایک شخص ہلاک اور تین زخمی ہوئے۔

اس کے علاوہ اپر جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ویلج کونسل چیئرمین امان اللہ نے بی بی سی کو بتایا کہ مکین کے گاؤں کشکا میں 20 جنوری کو اس وقت ایک دھماکہ ہوا جب مقامی ہائی سکول میں آدھی چھٹی ہوئی اور بچے قریب دکانوں سے کھانے کی چیزیں لینے نکلے تھے۔

امان اللہ نے بتایا کہ ’لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ یہ ڈرون یا کواڈ کاپٹر تھا جس سے بم گرایا گیا تھا جس میں ایک بچی اور چار بچے زخمی ہوئے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ایک زخمی بچے کو موٹر سائکل پر ہسپتال لے جایا جا رہا تھا تو اس پر بھی فائرنگ ہوئی۔ وہ بچہ پانچ بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا اور رزمک ہسپتال میں دم توڑ گیا۔‘

یہ ایسے پر اسرار حملے ہیں جن کے بارے میں حکومت کی جانب سے نہ کوئی تفصیل بتائی جاتی ہے اور نہ ہی یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ کواڈ کاپٹرز حملے ہیں یا ڈرون اور یہ کون کر رہا ہے۔

جنوبی وزیرستان سے منتخب رکن صوبائی اسمبلی آصف خان محسود نے بی بی سی کو بتایا کہ علاقے میں ان ڈرون یا کواڈ کاپٹرز کی وجہ سے سخت خوف پایا جاتا ہے اور اباپر جنوبی وزیرستان کے چند دیہات میں لوگوں سے کہا گیا ہے کہ وہ علاقہ خالی کریں کیونکہ وہاں آپریشن کیا جائے گا۔

انھوں نے بتایا کہ 25 جون کو ایک گرینڈ جرگہ منعقد ہو گا جس میں آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا۔

ضلع کرم سے منتخب رکن قومی اسمبلی حمید حسین نے پشاور میں ایک پریس کانفرنس میں 20 جون کو ہونے والے حملے کے متعلق کہا کہ ’یہ معلوم نہیں کہ یہ گولے شدت پسند پھینک رہے ہیں یا سکیورٹی فورسز سے غلطی ہو رہی ہے لیکن یہ سلسلہ ان کے علاقے میں جاری ہے اور علاقے میں بہت خوف پایا جاتا ہے۔‘

شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان سے مقامی لوگوں نے بتایا کہ ان کے علاقوں میں ’ڈرون یا کواڈ کاپٹر اکثر نظر آتے ہیں جس سے علاقے میں خوف پایا جاتا ہے۔‘

ان حملوں کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟

پاکستان میں حکام اور امریکی محکمہ دفاع کی 2021 کی تحقیقی رپورٹس کے مطابق امریکہ کے افغانستان سے چلے جانے کے بعد افغانستان میں موجود اسلحہ مختلف گروہوں کے ہاتھ لگا، جن میں انتہائی جدید اسلحہ بھی شامل ہے۔

افغانستان میں سال 2003 سے 2016 کے درمیان امریکہ نے افغان فورسز کے لیے بھاری مقدار میں فوجی سازوسامان بھیجا جو امریکہ کے ساتھ لڑائی میں شریک تھے۔

امریکی حکومت کی احتساب رپورٹ کے مطابق اس سامان میں مختلف ساخت کی تین لاکھ 58 ہزار 530 رائفلیں، 64 ہزار سے زیادہ مشین گن، 25،327 گرینیڈ لانچر اور 22،174 ہمویز (تمام اقسام کی سطحوں پر چلنے والی گاڑیاں) شامل تھیں۔

پاکستان میں حکام کا کہنا ہے کہ افغانستان سے یہ اسلحہ اب پاکستان میں کچھ گروہ استعمال کر رہے ہیں۔

پاکستانی حکام نے 19 مئی کو شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی، ہرمز میں ہونے والے حملے کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کیا اور اسے تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی کارروائی قرار دیا۔

اس بارے میں کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان کا کہنا تھا کہ حالیہ دنوں میں کواڈ کاپٹرز ڈرون حملوں کا تعلق تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ نہیں۔

ترجمان نے بتایا کہ ٹی ٹی پی نے ابھی تک کسی بھی ایسے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی اور نہ ہی ان کے پاس ایسی اطلاعات ہیں البتہ کچھ دیگر جہادی گروپس نے ایسے حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔

آخر یہ کواڈ کاپٹرز اور ڈرون کون استعمال کر رہا ہے؟ اس حوالے سے سینیئر تجزیہ کار اور محقق عبدالسید کا کہنا تھا کہ پاکستانی طالبان کے سب سے بڑے دھڑے، تحریک طالبان پاکستان، نے تاحال نہ تو ڈرون حملے کی ذمہ داری قبول کی اور نہ ہی اس نئی ٹیکنالوجی تک رسائی سے متعلق کوئی ویڈیو جاری کی۔

’اس امر کا ذکر اس لیے اہم ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کا میڈیا سیل خاصا فعال ہے، جو اپنی عسکری صلاحیتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے تاہم اب تک اس تنظیم کی جانب سے اس حوالے سے کوئی فوٹیج یا شواہد پیش نہیں کیے گئے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’تحریک طالبان پاکستان کے برعکس اپریل 2025 میں قائم ہونے والے پاکستانی طالبان کے دیگر دو اہم دھڑوں حافظ گل بہادر نیٹ ورک اور لشکر اسلام کا تحریک انقلاب اسلامی کے ساتھ اتحاد، اتحاد المجاہدین، کے تحت 8 مئی 2025 کو شمالی وزیرستان کے علاقے عیدک میں ہونے والے ڈرون حملے کی ذمہ داری قبول کی۔ ‘

’اس حملے میں اتحاد کے ترجمان محمود الحسن نے ایک میڈیا بیان کے ذریعے سکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹ کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا۔ اس دعوے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اتحاد المجاہدین کو کواڈ کاپٹرز یا عسکریت پسندوں کی اصطلاح میں ڈرون کے ذریعے حملوں کی صلاحیت حاصل ہے۔‘

حکومت کیا کہہ رہی ہے؟

یہ حملے اس لیے بھی ایک معمہ بن گئے ہیں کیونکہ حکومت کی طرف سے اس بارے میں کوئی وضاحت نہیں کی جا رہی اور اہم بات یہ ہے کہ اس میں عام شہری اور بچے نشانہ بن رہے ہیں۔

چند روز پہلے وزیر اعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے پشاور میں وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کی موجودگی میں کہا تھا کہ خیبر پختونخوا میں ڈرون حملے بند ہونے چاہییں۔

پاکستان تحریک انصاف پشاور میں ان مبینہ ڈرون حملوں کے خلاف احتجاج بھی کر چکی ہے۔ عمران خان نے بھی ان مبینہ حملوں کی مذمت کی۔ منگل کو اڈیالہ جیل میں ان سے ملاقات کرنے والی علیمہ خان کے مطابق سابق وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ ’میں ہمیشہ سے ڈرون حملوں کے خلاف رہا ہوں اور جو بھی یہ کر رہا ہے ان خلاف مقدمات درج ہونی چاہییں۔‘

علیمہ خان کے مطابق عمران خان کہنا تھا کہ ’ڈرون حملے ہی وہ وجہ ہیں جس کے سبب دہشتگردی بڑھتی ہے۔‘

ان واقعات کے بارے میں ڈیرہ اسماعیل خان ڈویژن میں حکام سے بات کی تو انھوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’کواڈ کاپٹر یا ڈرون استعمال تو ہو رہے ہیں لیکن ان کے بارے میں کچھ نہیں معلوم کہ یہ کون استعمال کر رہا ہے۔‘

مقامی سطح پر شمالی وزیرستان میں حالیہ احتجاجی دھرنوں میں لوگوں کا مطالبہ تھا کہ حکومت ان حملوں کی وضاحت کرے اور جو کوئی بھی انھیں استعمال کر رہا ہے ان کی روک تھام اور ان عناصر کو سامنے لائے۔

Getty Imagesامریکی محکمہ دفاع کی تحقیقی رپورٹ کے مطابق امریکی فوج کے انخلا کے بعد افغانستان میں موجود اسلحہ مختلف شدت پسند گروہوں کے ہاتھ لگا

میر علی میں ہرمز کے مقام پر مبینہ کواڈ کاپٹر یا ڈرون حملے کے بعد جب مقامی لوگوں نے لاشوں کو سڑک پر رکھ کر احتجاجی دھرنا دیا تھا تو اس کے بعد فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے ایک بیان جاری کیا گیا تھا جس میں اس حوالے سے کیے جانے والے دعوؤں کو بے بنیاد قرار دیا گیا۔

بیان میں کہا گیا کہ ’19 مئی کو میر علی میں پیش آنے والے افسوسناک واقعے، جس میں عام شہریوں کا جانی نقصان ہوا، اس کے بعد سے پاکستانی سکیورٹی فورسز کے خلاف چند ایک حلقوں کی جانب سے بے سروپا الزامات عائد کیے جا رہے ہیں۔ یہ الزامات جھوٹے اور بے بنیاد ہیں اور گمراہ کن مہم کا حصہ ہیں جس سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سکیورٹی فورسز کی کوششوں کو نقصان پہنچانا ہو سکتا ہے۔‘

اس بیان میں کہا گیا کہ اس واقعے کی تحقیقات کی جائیں گی اور ابتدائی تفتیش سے یہی معلوم ہوا ہے کہ اس کو فتنہ الخوارج نے عملی جامہ پہنایا۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ ’سکیورٹی فورسز اس بات کو یقینی بنانے کے اپنے عزم کا اعادہ کرتی ہیں کہ اس غیر انسانی فعل میں ملوث مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔‘

انسپکٹر جنرل پولیس خیبر پختونخوا ذوالفقار حمید نے چند روز پہلے بی بی سی کو بتایا تھا کہ اس وقت خیبر پختونخوا میں چیلنجز کا سامنا ہے اور ان سے نمٹنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ان چیلنجز میں افغانستان کے ساتھ طویل سرحد اور شدت پسندوں کے پاس جدید ہتھیار اور گیجٹس شامل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ صوبے کے جنوبی اضلاع میں ان کے لیے مشکلات ضرور ہیں تاہم انھوں نے دعویٰ کیا کہ ان پر قابو پایا جا رہا ہے اور حالات آہستہ آہستہ بہتر ہو رہے ہیں۔

اس سے نمٹنے کے لیے حکومت کیا کر رہی ہے؟

اس بارے میں اگرچہ حکام زیادہ بات نہیں کر رہے لیکن کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ کی جانب سے جو اعدادو شمار فراہم کیے گئے ہیں ان میں یہ بتایا گیا ہے کہ سال 2025 میں پیش آنے والے واقعات میں شدت پسندوں کی جانب سے کواڈ کاپٹرز، تھرمل سنائپر اور آر پی جی گنزکا استعمال شمالی وزیرستان، ڈیرہ اسماعیل خان، بنوں اور کوہاٹ میں کیا گیا ہے۔ ان میں سب سے زیادہ واقعات شمالی وزیرستان میں رپورٹ ہوئے ہیں جن کی تعداد 11 بتائی گئی۔

ایک سوال کے جواب میں حکام نے بتایا کہ ’ان شدت پسندوں کے ساتھ افغانستان سے آئے کچھ ایسے لوگ ہیں جو یہ جدید ہتھیار استعمال کرنا جانتے ہیں اور یہ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا لیکنان کے کواڈ کاپٹرز لگ بھگ دو کلو گرام تک بارودی مواد لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

اس کے علاوہ حکام کی جانب سے فراہم کردہ تفصیل میں بتایا گیا کہ شدت پسندوں کے پاس تھرمل سائٹس، نائٹ وژن، آر پی جی 7 ، ایل ایم گیز ، امریکہ اور نیٹو کے دیگر انتہائی اہم ہتھیار شامل ہیں۔

انسپکٹر جنرل پولیس خیبر پختونخوا ذوالفقار حمید نے چند روز پہلے بی بی سی سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد خیبر پختونخوا میں چیلنجز کا سامنا ہے اور اس کے لیے پولیس کی صلاحیت میں اضافہ کیا جا رہا ہے اور پولیس کو جدید سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جس طرح کے جدید اسلحے اور گیجٹس مخالفین کے پاس ہیں اس طرح کی گیجٹس اور دیگر سامان پولیس کو فراہم کرنے کا سلسلہ جاری ہے اور جب یہ مکمل ہو جائیں گے تو ان واقعات پر قابو پایا جا سکے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس ایگریسو پالیسی پر کام کر رہی ہے۔

شمالی اور جنوبی وزیرستان میں سکیورٹی حکام سے بھی رابطہ کیا گیا اور ان سے ان کواڈ کاپٹرز اور ڈرون حملوں کے بارے میں پوچھا لیکن اب تک ان کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

خوف جو ختم نہیں ہو رہا

پاکستان میں اگر دیگر علاقوں کا موازنہ ہم شمالی وزیرستان یا جنوبی وزیرستان سے کریں تو ان اضلاع میں زندگی انتہائی مشکل ہو چکی ہے۔ شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ملک نثار علی نے بتایا کہ ’لوگوں کو سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ کیا کریں۔ یہاں میر علی میں ڈرون دیکھے جا رہے ہیں اور جس علاقے میں ڈرون نظر آ جائے لوگ خوف کے مارے چھپنے لگتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’وزیرستان میں گذشتہ 20 سال سے یہی کچھ ہو رہا ہے۔ پہلے دھماکے شروع ہوئے اس کے بعد خودکش حملے شروع ہوئے، لوگوں نے گھروں سے باہر نکلنا چھوڑ دیا اور باہر نہیں جاتے کہیں دھماکہ نہ ہو جائے۔‘

’اس کے بعد فوجی آپریشن کیے گئے، لوگوں نے نقل مکانی کی اور پھر واپس آئے تو ٹارگٹ کلنگ شروع ہوئی، وہ خوف ابھی باقی تھا کہ یہ مارٹر گولے اور مبینہ ڈرون شروع ہو گئے ہیں اور اب تو گھروں میں بھی محفوظ نہیں تو کہاں چھپیں گے۔‘

Getty Imagesپاکستانی حکام متعدد مرتبہ افغانستان میں موجود امریکی اسلحے پر تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں

شمالی وزیرستان کے رہائشی جان محمد نے بتایا کہ ’مشکل اتنی ہے کہ وہ بتا نہیں سکتے۔ گھروں سے روزی روٹی کمانے نکلنا لوگوں کی مجبوری ہے، نہیں نکلتے تو مرتے ہیں، گھروں سے نکلتے ہیں تو مرتے ہیں۔۔ اب تو ان ڈرونز کی وجہ سے بیوی بچوں کی فکر لاحق رہتی ہے کہ ان کا کیا ہو گا۔‘

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار مشتاق یوسفزئی اس ساری صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت قبائلی علاقوں خاص طور پر شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان میں مکمل اندھیرا ہے مطلب وہاں جو کچھ ہو رہا ہے اس بارے میں نہ حکومت اور نہ ہی شدت پسندوں کے جانب سے کچھ بتایا جا رہا ہے۔

’لوگوں کے گھروں پر کواڈ کاپٹر کے ذریعے بم پھینکے جاتے ہیں، لوگ مر رہے ہیں لیکن اس بارے میں کوئی بات کرنے کو تیار نہیں اور نہ ہی کوئی اس کی ذمہ داری قبول کر رہا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ بتائے کہ یہ کون کر رہا ہے اور اگر یہ سکیورٹی فورسز کی جانب سے ہو رہے ہیں تو وہ بتائیں اور اگر غلطی سے بھی ہوئے ہیں تو اس کی کم سے کم ذمہ داری تو لیں لیکن ایسا کچھ نہیں بس اندھیر نگری ہے۔‘

'لوگ بتاتے ہیں کہ ڈرون حملہ ہوا، عام شہری اور بچے ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں، متعلقہ ہسپتالوں سے معلومات مل جاتی ہیں لیکن صحافی اسے رپورٹ نہیں کر سکتا کیونکہ ادارے پولیس یا انتظامیہ اس بارے میں کچھ نہیں بتاتے اس لیے ان علاقوں میں بے یقینی کی صورتحال ہے اور لوگ وہاں سے نکل رہے ہیں۔‘

میر علی میں مبینہ ڈرون حملے میں چار بچوں کی ہلاکت کے خلاف دھرنا جاری: ’دو بیٹوں نے میرے سامنے اور تیسرے نے میری گود میں دم توڑا‘رفال کا ڈرون مار گرانے والا ’لیزر سسٹم‘ متعارف جس میں ’ایک ساتھ 10 اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت‘ ہےفوجی آپریشن کی ڈرون ویڈیوز: کیا پاکستانی فوج کی شدت پسندوں کے خلاف حکمت عملی تبدیل ہوئی ہے؟یوکرین کے خلاف نیا ہتھیار: دشمن کے ڈرون کو جال میں پھنسانے والا روسی ڈرون
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More