BBC/Getty Imagesطالبان کا کہنا تھا کہ یہ پابندی اس لیے لگائی جا رہی ہے کیونکہ پوست ایک نقصان دہ شہ ہے
محمد افغانستان کے صوبے ہلمند کے ایک دور دراز گاؤں میں ایک پوست کے کھیت میں کام کرتے ہیں اور ان کی اس فصل کے گرد دیواریں کھڑی ہیں۔
ہم سکیورٹی وجوہات کی بنا پر ان کی اصل شناخت ظاہر نہیں کر رہے۔
محمد اپنے کھیت میں پوست کاشت کرتے ہیں جس سے افیون بنتی ہے اور یہی افیون ہیروئن بنانے کے لیے کام آتی ہے۔ افغانستان میں اقتدار میں واپسی کے بعد طالبان نے اپریل 2022 میں پوست کی کاشت پر پابندی عائد کی تھی۔
اس وقت طالبان کے امیر ہبت اللہ اخونزادہ نے فتویٰ جاری کیا تھا کہ ’جو بھی اس پابندی کی خلاف ورزی کرے گا اس کے کھیتوں کو تباہ کردیا جائے اور اسے شریعت کے مطابق سزا بھی دی جائے گی۔‘
طالبان کا کہنا تھا کہ یہ پابندی اس لیے لگائی جا رہی ہے کیونکہ پوست ایک نقصان دہ شے ہے اور مذہب میں بھی اس کے استعمال کی ممانعت ہے۔
BBCافغانستان میں اقتدار میں واپسی کے بعد طالبان نے اپریل 2022 میں پوست کی کاشت پر پابندی عائد کی تھی
اس سب کے باوجود بھی محمد پوست کی کاشت میں مصروف ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں یہ کام کرنے پر اس لیے مجبور ہوں کیونکہ میرے پاس اور کچھ ہے ہی نہیں۔ میں تو اپنے خاندان کو کھانا تک مہیا نہیں کر سکتا۔‘
قحط سالی بھی ایک وجہ ہے جس کے سبب محمد جیسے کسان پوست کو چھوڑ کر کوئی اور چیز کاشت نہیں کرتے۔ دیگر اشیا کے مقابلے میں پوست کی کاشت کے لیے پانی کی کم مقدار درکار ہوتی ہے۔
محمد مزید کہتے ہیں کہ ان کے اطراف میں دیگر کوئی ملازمتیں بھی نہیں ہیں اور اگر وہ پوست کی کاشت بھی روک دیں گے تو انھیں اپنے بچوں کا پیٹ پالنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
’میں نے برسوں پہلے ہائی سکول پاس کرلیا تھا لیکن کسی نے مجھے ملازمت نہیں دی۔ آج بھی مجھے کوئی ملازمت نہیں دیتے، ایسے میں میرے پاس کرنے کو بچتا کیا ہے؟‘
وہ کہتے ہیں کہ اگر وہ پوست کی پوری فصل فروخت کرتے ہیں تو پورے سال اپنے خاندان کے تمام اخراجات برداشت کر سکتے ہیں۔
افیون کی عالمی سپلائی متاثر
لیکن افغانستان میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے طالبان کی پوست کی کاشت پر پابندی پر عمل کیا ہے اور اس سے افیون کی عالمی سپلائی چین متاثر ہوئی ہے۔
یونائیٹڈ نیشنز آفس آن ڈرگز اینڈ کرائم (یو این ڈی سی) کے مطابق سنہ 2022 کے مقابلے میں گذشتہ برس عالمی سطح پر افیون کی پیداوار میں 72 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق سنہ 2019 سے 2022 تک افیون کی سمگلنگ سے سالانہ ساڑھے 15 ارب ڈالر کمائے گئے تھے۔
افغانستان میں پوست کی کاشت پر پابندی سے قبل دنیا بھر میں استعمال ہونے والی 80 فیصد افیون کی پیداوار افغانستان میں ہوتی تھی۔ یو این ڈی سی کی رپورٹ کے مطابق اب افغانستان میں افیون کی پیداوار 95 فیصد تک کم ہو گئی ہے۔
تاہم یو این ڈی سی کے مطابق افغانستان میں سنہ 2023 اور 2024 میں افیون کی غیرقانونی کاشت میں معمولی اضافہ بھی ہوا ہے۔
نومولود افغان بچے کی اجنبی کے ساتھ پشاور پہنچنے کی کہانی: ’ماں بار بار فون کر کے پوچھتی رہی کہ اسے دودھ پلایا ہے؟‘افغانستان میں طالبان متعدد مذہبی سکالرز کو 'گرفتار اور اغوا' کیوں کر رہے ہیں؟انڈیا کو طالبان مبارکافغان طالبان کے اہم عسکری رہنما کی پہلگام حملے کے بعد انڈیا ’خفیہ‘ آمد: ابراہیم صدر کون ہیں؟
اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سنہ 2023 سے پہلے تک افغانستان میں افیون کا جو ذخیرہ تھا وہ سنہ 2026 تک کی عالمی ڈیمانڈ کو پورا کرنے کے لیے کافی تھا۔
پابندی کے بعد افیون کی قیمت بھی اب 10 گُنا بڑھ گئی ہے۔
یو این ڈی سی کے مطابق افغانستان اور اس کے کچھ پڑوسی ممالک میں ہیروئن کی قیمت میں تین گُنا اضافہ ہو گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ کسان ایک بار پھر پوست کی کاشت کا رسک لے رہے ہیں۔
تاہم یو این ڈی سی نے پوست کی کاشت پر پابندی کے بعد افغانستان میں کسی دوسرے ذریعہ معاش نہ ہونے پر ’گہری تشویش‘ کا اظہار کیا ہے۔
افغانستان میں نیٹو اور امریکی فورسز کی موجودگی میں اور طالبان کی اقتدار میں آمد سے قبل لاکھوں ڈالر پوست کی کاشت پر خرچ ہوتے تھے۔
کسانوں کا کہنا ہے کہ پابندی کے بعد ان سے وعدہ کیا گیا تھا کہ دیگر اشیا کاشت کرنے اور ملازمتوں کی فراہمی کے لیے ان کی مدد کی جائے گی لیکن یہ وعدہ وفا نہیں ہو سکا۔ اسی سبب وہ سزا اور غربت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے پر مجبور ہیں۔
BBCیو این ڈی سی کے مطابق افغانستان میں سنہ 2023 اور 2024 میں افیون کی غیرقانونی کاشت میں معمولی اضافہ بھی ہوا ہے’وہ آپ کو جیل بھیج دیں گے‘
پابندی عائد ہونے سے قبل افغانستان میں افیون کی سب سے زیادہ پیداوار ہلمند میں ہوتی تھی۔
لیکن حکام کا کہنا ہے کہ صوبے میں اب پوست کی کاشت بالکل صفر ہوگئی ہے۔ اس کے باوجود بھی گذشتہ برس افغانستان میں تقریباً ساڑھے تین ہزار ایکڑ زمین پر خفیہ طریقے سے پوست کاشت کی گئی تھی۔
ہلمند کے ضلع نوزاد میں امین اللہ پہلے پوست کاشت کیا کرتے تھے لیکن اب وہ طالبان کے ڈر سے اپنی زمین پر مکئی، کپاس اور گندم اُگاتے ہیں۔
مٹی سے بنے گھر میں اپنی بچوں کے ہمراہ براجمان امین اللہ کہتے ہیں کہ ’وہ (طالبان) آپ کو چھ مہینے کے لیے جیل بھیج دیں گے۔ ‘
’اگر میں چھ مہینے جیل میں رہوں گا تو میرے بچے بے سہارا ہوں جائیں گے، اسی لیے میرا ان کے ساتھ رہنا ہی بہتر ہے۔‘
امین اللہ کہتے ہیں کہ وہ اپنی زمین کے صرف 15 فیصد حصے پر کاشت کر سکے ہیں کیونکہ خشک سالی کے سبب ان کی باقی زمین بنجر پڑی ہے۔
’اس سے تو خرچ کیے جانے والے پیسے بھی واپس جیب میں نہیں آتے۔‘
ان تمام تر مشکلات کے باوجود بھی امین اللہ کہتے ہیں کہ وہ بھلے ہی بھوکے رہ لیں گے لیکن رہیں گے اپنے بچوں کے ساتھ ہی۔
BBCپابندی عائد ہونے سے قبل افغانستان میں افیون کی سب سے زیادہ پیداوار ہلمند میں ہوتی تھی
لیکن محمد اور پابندی کی خلاف ورزی کرنے والے دیگر کاشت کاروں کو پکڑے جانے کی صورت میں متعدد سزاؤں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ہلمند پولیس کے ترجمان عزت اللہ حقانی کہتے ہیں کہ ’اگر کوئی کسان آدھے ایکڑ سے کم زمین پر پوست کاشت کرتا ہے تو اسے چھ مہینے جیل میں گزارنا پڑیں گے۔‘
’آدھے ایکڑ سے ایک ایکڑ پر پوست کی کاشت کی صورت میں قید کی سزا نو مہینے اور اس سے زیادہ کاشت کرنے پر ایک برس قید کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔‘
’اگر میرے پاس پیسے نہیں ہوں گے تو پھر پوست کی کاشت کے علاوہ میرے پاس کوئی راستہ نہیں بچے گا‘
احمد ان افراد میں سے ایک ہیں جنھوں نے اپنی آنکھوں سے طالبان کی پوست کی کاشت پر پابندی پر عملدرآمد ہوتے دیکھا ہے۔
ایک اندھیرے کمرے میں موجود احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ ایک دوپہر طالبان نے ان کے گھر کے دروازے پر دستک دی تھی۔
’میں نے انھیں کہا تھا کہ آپ یہاں یقیناً افیون کی وجہ سے آئے ہوں گے، اس لیے میں اسےتباہ کردوں گا۔‘
احمد کہتے ہیں کہ طالبان نے انھیں کہا تھا کہ وہ اگلی صبح 9 بجے تک تمام پوست کو آگ لگا دیں۔ لیکن طالبان ڈیڈلائن کے اختتام سے قبل ہی ان کے گھر واپس آ گئے۔
’میں نے اس کا کچھ حصہ تباہ کر دیا تھا اور کچھ بچ گیا تھا، اس لیے انھوں نے مجھے گرفتار کر کے جیل بھیج دیا۔‘
احمد اب اپنی زمین پر کچھ اور چیزیں کاشت کرنا چاہتے ہین لیکن اس کے لیے انھیں مدد درکار ہے۔ اگر انھیں یہ مدد نہ ملی تو شاید انھیں ایک بار پھر پوست کی کاشت کرنا پڑے۔
’اگر میرے پاس پیسے نہیں ہوں گے تو پھر پوست کی کاشت کے علاوہ میرے پاس کوئی راستہ نہیں بچے گا اور میرے پاس بالکل پیسے نہیں ہیں۔‘
بہت سے کسانوں کے لیے انتہائی منافع بخش فصل کو خیرباد کہنا آسان نہیں ہے اور اسی سبب اقتدار میں موجود طالبان کے مستقبل کو بھی خطرہ ہو سکتا ہے۔
پوست کی کاشت پر پابندی ہے اور اس کے بدلے کسانوں کے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں ہے جس کے استعمال سے وہ اپنے خاندانوں کا پیٹ پال سکیں۔ آخر ایسے ہی چلتا رہا تو شاید طالبان کی حمایت کرنے والے کچھ لوگ بھی ان کے مخالف ہو جائیں۔
سابق برطانوی فوجیوں کا ’جنگی جرائم‘ کا اعتراف: ’بچوں سمیت نہتے قیدیوں کو قتل کیا، کئی بار سوئے ہوئے لوگوں پر گولیاں چلائیں‘خواتین کو دھمکاتی کابل کی دیواریں: ’خوشبو لگا کر مردوں کے پاس سے گزرنے والی عورت زانی ہے‘’افغانستان میں اصل طاقت‘: روس اب طالبان کو دہشتگرد تنظیم کیوں نہیں سمجھتا؟حجاب کے بغیر افغانستان میں تھیٹر کرنے والی اداکارہ حبیبہ عسکر کی کہانیافغانستان میں رہ جانے والے امریکی ہتھیار جو ’القاعدہ سے وابستہ گروہوں نے بلیک مارکیٹ سے خریدے‘