Getty Imagesکلارک اولفسن ان دو مجرموں میں اسے ایک تھے جنھوں نے سٹاک ہوم میں ایک بینک ڈکیتی کے دوران چار لوگوں کو یرغمال بنالیا تھا
کلارک اولفسن ان دو مجرموں میں اسے ایک تھے جنھوں نے سٹاک ہوم میں ایک بینک ڈکیتی کے دوران چار لوگوں کو یرغمال بنا لیا اور اس جُرم کے بعد ’سٹاک ہوم سنڈروم‘ کی اصطلاح متعارف ہوئی تھی۔
سنہ 1973 میں سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہوم میں ایک بینک ڈکیتی اور اغوا کے واقعے کے بعد عالمی سطح پر منظرِ عام پر آنے والے بدنام زمانہ مجرم کلارک اولفسن طویل علالت کے بعد وفات پا چکے ہیں۔
ان کے خاندان نے ایک سویڈش جریدے کو ان کی موت کی تصدیق کی ہے۔
اولفسن اور ان کے ساتھی جین ایرک اولسن نے بینک کے اندر لوگوں کو چھ دنوں تک یرغمال بنائے رکھا اور حیرانی کی بات یہ تھی کہ جب پولیس نے ان یرغمالیوں کو آزاد کروایا تو یہ افراد پولیس کا ساتھ دینے کے بجائے اغواکاروں کی حمایت کرتے ہوئے نظر آئے۔
جرائم سے متعلق بی بی سی اردو کی تحاریر براہ راست اپنے فون پر ہمارے واٹس ایپ چینل سے حاصل کریں۔ بی بی سی اردو واٹس ایپ چینل فالو کرنے کے لیے کلک کریں
اس واقعے کے بعد ہی سٹاک ہوم سنڈروم جیسے نفسیاتی مسئلے کی اصطلاح نے جنم لیا تھا۔
ماہرینِ نفسیات کے مطابق اغواشدگان کے دل میں اغوا کاروں کے لیے نرم گوشہ پیدا ہوجانے کو سٹاک ہوم سنڈروم کہتے ہیں۔
ڈکیتی اور اغوا کا واقعہ تھا کیا؟
سنہ 1973 میں سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہوم میں ڈکیتی کا ایک انوکھا واقعہ پیش آیا جس میں ایک ڈاکو نے بینک کی تجوری میں چار ملازمین کو یرغمال بنا لیا۔ تاہم پولیس کو یرغمالیوں کو زندہ سلامت بازیاب کروانے میں چھ دن سے زیادہ لگے۔
یہ ڈاکو جین ایریک اولسن تھے جنھوں نے یرغمالیوں کی آزادی کے بدلے 30 لاکھ سویڈش کرونا (کرنسی) فرار ہونے کے لیے ایک گاڑی اور جیل میں سزا کاٹنے والے اپنے ساتھی کلارک اولفسن کو رہا کرکے بینک میں ان کے پاس لانے کا مطالبہ کیا۔
ڈاکو سے مذاکرات کے لیے پولیس کے ساتھ نلز بیّروت نامی جرائم اور نفسیات کے ماہر بھی کام کر رہے تھے۔ انھوں نے پولیس کو تجویز دی کہ جین ایریک اولسن کو رقم اور گاڑی دینے کے بجائے ان کے ساتھی کلارک اولفسن کو ان کے پاس بھیجا جائے۔
Getty Imagesاولفسن ایک عادی مجرم تھے
تاہم کلارک اولفسن کو جیل سے نکال کر اولسن کے پاس اس شرط پر بھیجا گیا کہ وہ مذاکرات میں پولیس کی مدد کریں گے اور بدلے میں ان کی سزا کم کرنے کا وعدہ کیا گیا۔
بینک پہنچنے کے بعد کلارک اولفسن پولیس کے ساتھ کیے گئے معاہدے سے پھر گئے اور جین ایرک کے ساتھ مل گئے۔
ان کے ایسا کرنے سے یرغمالیوں کو آزاد کروانا پولیس کے لیے مزید مشکل ہو گیا۔
پولیس کے لیے ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ ڈاکؤوں کی رحم دلی کے باعث یرغمالیوں کا ان سے ایک تعلق بن گیا اور انھوں نے پولیس کی بجائے ڈاکوؤں پر اعتماد کرنا شروع کر دیا تھا۔
برسوں بعد سویڈش اخبار آفتونبلادت کو دیے گئے ایک انٹرویو کے دوران اولفسن نے دعویٰ کیا تھا کہ انھیں پولیس نے ساتھ کام کرنے کا کہا تھا تاکہ یرغمالیوں کو محفوظ رکھا جا سکے اور اس کے بدلے میں ان سے وعدہ کیا تھا کہ ان کی سزا کم کر دی جائے گی۔
انھوں نے الزام عائد کیا کہ حکام نے اپنے وعدے پر عمل نہیں کیا تھا۔
اولفسن اتنے شاطر تھے کہ انھوں نے کرسٹن اینمارک نامی ایک یرغمالی خاتون کو سویڈن کے وزیرِ اعظم سے فون پر اغواکاروں کی ایما پر بات کرنے کے لیے بھی راضی کرلیا تھا۔
یزیدی لڑکی کی اپنے اغوا کار سے جرمنی میں ملاقات'آزادی کے لیے اغوا کار کو اپنی محبت میں مبتلا کرنا پڑا‘قندھار ہائی جیکنگ: انڈین مسافر طیارے کا اغوا جس کے بعد کھٹمنڈو ایئرپورٹ پر انڈیا کو اضافی سکیورٹی چیک کی اجازت دینا پڑی’بینک لوٹنا تو اعزاز کی بات ہے‘: وہ ’انقلابی‘ جس نے ’عبادت‘ سمجھ کر دنیا کے سب سے بڑے بینک کو لوٹا
کرسٹن نے سویڈن کے وزیرِ اعظم سے اپیل کی کہ انھیں اغواکاروں کے ساتھ ایک کار میں بینک سے نکلنے کی اجازت دی جائے۔ ان کا اس وقت کہنا تھا کہ: ’مجھے کلارک اور دوسرے ڈاکو پر پورا بھروسہ ہے۔ انھوں نے ہمارے ساتھ کچھ بھی نہیں کیا ہے۔‘
’اس کے برعکس ان کا سلوک ہمارے ساتھ بہت اچھا تھا۔ آپ مانیں یا نہ مانیں یہاں ہمارا اچھا وقت گزرا ہے۔‘
ایک فون کال کے دوران کرسٹن نے متعدد مرتبہ اولفسن اور ان کے ساتھیوں کے اقدامات کا دفاع کیا اور کہا کہ انھیں ڈر ہے کہ پولیس اغواکاروں کو نقصان پہنچائے گی۔
اپنی کتاب میں کرسٹن نے اولفسن کے حوالے سے لکھا کہ: ’انھوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ مجھے کچھ نہیں ہونے دیں گے اور میں نے ان پر بھروسہ کر لیا۔ میں 23 برس کی تھی اور میری جان کو خطرہ تھا۔‘
یرغمالیوں کو آزاد کروانے کے لیے بلآخر چھ روز بعد پولیس نے آنسو گیس کا استعمال کرتے ہوئے بینک کے اندر جانے کا فیصلہ کیا۔ ابتدائی طور پر یرغمالیوں نے اغواکاروں کا ساتھ چھوڑنے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ انھیں خوف تھا کہ پولیس انھیں گولی مار دے گی۔
بعد میں انھوں نے اولفسن اور اولسن کے خلاف گواہی دینے سے بھی انکار کر دیا تھا۔
’سٹاک ہوم سنڈروم‘ کی اصطلاح کا جنم کیسے ہوا
جب یرغمالی تحویل سے باہر آئے تو پولیس کے ساتھ کام کرنے والے ماہر نفسیات نلز بیروت نے یرغمالیوں کا اغواکاروں پر اعتماد کرنے اور ان کا ساتھ دینے کے رویّے کا تجزیہ کیا اور سٹاک ہوم سنڈروم کی اصطلاح متعارف کروائی۔
سٹاک ہوم سنڈروم کی تھیوری دنیا کے دیگر حصوں میں اس وقت پہنچی جب سنہ 1974 میں کیلیفورنیا کے ایک اخبار کے مالک کی بیٹی پیٹی ہرسٹ کو ’سمبیونیز لبریشن آرمی‘ (ایس ایل اے) نامی ایک گروہ نے اغوا کرلیا۔
اغوا کے دو ماہ بعد پیٹی ایک بار پھر منظر عام پر آئیں مگر وہ منظر عجیب تھا کیونکہ تب وہ اسلحہ سے لیس اپنے اغواکاروں ہی کے ہمراہ ایک بینک کو لوٹ رہی تھیں۔
اسی برس اپریل کے مہینے میں پیٹی نے خود اعلان کیا کہ وہ اس تنظیم کا باقاعدہ حصہ بن چکی ہیں اور ان کا نیا نام ’تانیہ‘ ہے۔
Getty Imagesکرسٹن اینمارک اس وقت 23 برس کی تھیں
بینک ڈکیتی کے بعد پیٹی کے لیے اُن کی زندگی میں واپسی کا راستہ بند ہو گیا۔ اب وہ ایف بی آئی کو مطلوب ایک مشہور مجرمہ بن چکی تھیں۔
تقریبا ایک سال تک پیٹی حکام کی نظروں سے اوجھل رہنے میں کامیاب ہوئیں لیکن 18 ستمبر 1975 کو انھیں گرفتار کر لیا گیا اور ان کے خلاف ہبرنیا بینک ڈکیتی کا مقدمہ چلا۔
وہ اس مقدمے کا سامنا کرنے والی ایس ایل اے کی واحد رکن تھیں۔ میڈیا نے اس مقدمے کو ’صدی کا مقدمہ‘ قرار دیا۔
سٹون کا کہنا ہے کہ ’پیٹی کو اس دور میں بائیں بازو کی پرتشدد تحریک کا چہرہ سمجھ لیا گیا تھا۔‘ تاہم لیزلی کا کہنا ہے کہ پیٹی کو جھانسا دیا گیا تھا۔
پیٹی ہرسٹ کو سات سال قید کی سزا سنائی گئی لیکن جیل میں دو سال گزارنے کے بعد ان کی سزا اس وقت کے صدر جمی کارٹر نے ختم کر دی۔
رہائی کے بعد پیٹی نے ایس ایل اے کے خلاف گواہی بھی دی اور صدر بل کلنٹن نے 2001 میں ان کے لیے معافی کا اعلان بھی کیا۔
پیٹی ہرسٹ کے وکیل نے دفاع میں مؤقف اختیار کیا کہ ان کی موکلہ کی برین واشنگ کی گئی تھی اور وہ سٹاک ہوم سنڈروم سے متاثرہ تھیں۔
پیٹی کے وکیل نے تو یہ اعتراف کرلیا تھا کہ ان کی مؤکلا سٹاک ہوم سنڈروم کا شکار تھیں مگر کرسٹین خود کو لاحق ایسے کسی بھی نفسیاتی مسئلے کی تردید کرتی ہیں۔
سنہ 2021 میں بی بی سی سائیڈویز پوڈکاسٹ میں گفتگو کے دوران کرسٹن کا کہنا تھا کہ ’یہ متاثرہ لوگوں کو الزام دینے کا ایک طریقہ ہے۔ میں نے وہی کیا جو میں زندہ رہنے کے لیے کر سکتی تھی۔‘
اولفسن ایک عادی مجرم تھے اور انھوں نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ جیل میں ہی گزارا۔ انھیں آخری مرتبہ بیلجیئم میں منشیات سے متعلق ایک مقدمے میں 2018 میں رہا کیا گیا تھا۔
سنہ 2022 میں اداکار بِل سکاسگاڑد نے نیٹ فلکس کی ایک سیریز میں اولفسن کا کردار نبھایا تھا۔
'آزادی کے لیے اغوا کار کو اپنی محبت میں مبتلا کرنا پڑا‘درجنوں خواتین کا ریپ کرنے والے ڈاکٹر کو 21 سال قید کی سزا: ’مریضوں کا نامناسب انداز میں معائنہ کرتے ہوئے ڈیوڈرنٹ بھی استعمال کیا‘ ’بینک لوٹنا تو اعزاز کی بات ہے‘: وہ ’انقلابی‘ جس نے ’عبادت‘ سمجھ کر دنیا کے سب سے بڑے بینک کو لوٹا’کافی شاپ میں ملاقات اور بے تحاشہ خون‘: گرل فرینڈ کے مشروب میں اسقاط حمل کی دوا ملانے کے الزام پر اقدام قتل کا مقدمہیزیدی لڑکی کی اپنے اغوا کار سے جرمنی میں ملاقاتپیٹی ہرسٹ: اغوا ہونے والی امیر لڑکی امریکہ کے بدنام مجرموں میں سے ایک کیسے بنی؟