انڈیا پاکستان سے یوکرین اور ایران تک، دنیا میں کشیدگی کے نئے عہد کا آغاز

اردو نیوز  |  Jun 27, 2025

انڈیا کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کی رواں برس مئی میں سنگاپور میں ایک بین الاقوامی سکیورٹی کانفرنس شرکت کے بعد واپسی ہوئی تو اس کے کچھ ہی عرصے بعد انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔

اس جنگ کو جنوبی ایشیا میں بیش تر افراد اب ’چار روزہ جنگ‘ کہتے ہیں۔

برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کی ایک تجزیاتی رپورٹ کے مطابق انڈیا اور پاکستان کے درمیان اس چار روزہ جنگ کے دوران فریقین کی جانب سے ایک دوسرے پر میزائل اور ڈرونز برسائے گئے۔ پھر  یہ لڑائی دو ایٹمی ممالک کے درمیان تاریخ کے انتہائی سنجیدہ تصادم کی شکل اختیار کر گئی۔

اس کے بعد سامنے آنے والی رپورٹ سے ظاہر ہوا کہ امریکی وزیرخارجہ مارکو روبیو کی مداخلت کے بعد ہی دونوں ممالک کے درمیان ڈروز اور میزائلز داغے جانے کا یہ سلسلہ رکا۔

تاہم سنگاپور میں روئٹرز کے نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے انڈین آرمی چیف انیل چوہان کا کہنا تھا کہ اس تنازع میں کوئی بھی ملک ایٹمی حملے کے بارے میں نہیں سوچ رہا تھا کیونکہ دونوں جانب سے پس منظر میں پیغامات کا کافی زیادہ تبادلہ ہوتا رہا۔

انیل چوہان نے یہ عندیہ بھی ظاہر کیا کہ اگر آئندہ انڈیا میں ہونے والے عسکریت پسندوں کے حملوں کے پیچھے پاکستان کی موجودگی کا شبہ ہوا تو اس کا فوجی سطح پر ہی جواب دیا جائے گا۔

’کنوینشنل آپریشنز‘ کی کچھ نئی گنجائش پیدا ہوئی ہے اور میرے خیال میں یہ نئی روایت ہو گی۔‘

یہ ’گنجائش‘ کس حد تک مستحکم رہتی ہے اور دونوں ممالک کے درمیان بڑی کشیدگی کا خطرہ کس قدر ہے، یہ فی الحال واضح نہیں ہے۔

پاکستان اور انڈیا کے درمیان چار روزہ جنگ کے بعد دنیا نے اسرائیل اور ایران کے درمیان 12 روزہ جنگ کا مشاہدہ کیا جو رواں ہفتے امریکہ کی مداخلت کے بعد جنگ بندی پر منتج ہوئی۔

انڈین آرمی چیف نے کہا کہ ’کنوینشنل آپریشنز‘ کی کچھ نئی گنجائش پیدا ہوئی ہے اور میرے خیال میں یہ نئی روایت ہو گی۔‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)امریکہ نے جنگ میں کود کر ایران کی زیرزمین جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا اور پھر جنگ بندی معاہدے میں ثالث کا کردار ادا کیا۔

واضح رہے کہ اسرائیل اور ایران کے درمیان برسوں سے کشیدگی جاری ہے لیکن گزشتہ برس تک انہوں نے ایک دوسرے کی سرزمین کو براہ راست نشانہ نہیں بنایا تھا۔ اسی طرح امریکہ کی سابق حکومت نے بھی ایران کو براہ راست نشانہ بنانے سے گریز برتا تھا۔

اس کے علاوہ یوکرین میں ہونے والے واقعات سے ظاہر ہوا ہے کہ کئی بڑے ممالک کے درمیان تنازعات کافی تیزی سے معمول کی جانب گئے ہیں لیکن تشویش کا پہلو یہ ہے کہ اس دہائی میں ایسے تنازعات مزید بڑھے ہیں اور مستقبل میں بھی ان میں اضافے کی کافی گنجائش موجود ہے۔

حالیہ کشیدگی کے بڑے واقعات میں روسی سرزمین کے اندر طویل فاصلے تک مار کرنے والے بمبار طیاروں پر یوکرین کے منظم ڈرون حملے بھی شامل تھے جن میں متعدد طیاروں کو تباہ کیا گیا۔

یہ سب اصل سرد جنگ سے تو بہت دور کی بات ہے لیکن  یہ نئے خطرات کی جانب ایک اشارہ ہے۔

اس وقت ان سب تنازعات میں سب سے بڑا اور سب سے خطرناک تصادم امریکہ اور چین کے درمیان چل رہا ہے۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ چین نے اپنی فوج کو سنہ 2027 میں تائیوان کے خلاف پیش قدمی کے لیے تیار رہنے کی ہدایت کی ہے۔ اس صورت میں ممکنہ طور پر ایک بہت وسیع تنازع جنم لے گا۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر بمباری کے بعد اس ہفتے نیٹو کے سالانہ سربراہی اجلاس کے لیے یورپ کا رخ کیا۔ ایران پر حملوں سے یہ واضح ہو گیا تھا کہ ان کی انتظامیہ کو امید ہے کہ طاقت کا ایسا زبردست مظاہرہ چین کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے کافی ہو گا۔

امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ نے ایران پر فضائی حملے کے بعد پینٹاگون کی پریس بریفنگ میں بتایا کہ ’امریکی ڈیٹرنس واپس آ گیا ہے۔‘

قطر میں امریکی فضائی اڈے پر فائر کیے گئے ڈرونز اور میزائلوں کا ایران کا ابتدائی ردعمل جس میں امریکہ کو پیشگی انتباہ جاری کیا گیا تھا، کافی حد تک اعتدال پر مبنی نظر آیا۔

ہتھیاروں کے معاملے میں امریکہ کی بالادستی

رواں ہفتے متعدد امریکی B-2 بمبار طیاروں کا ایران کے زیرزمین جوہری بنکروں کو نشانہ بنانے کا واقعہ یقیناً روس یا چین میں نظرانداز نہیں کیا گیا ہو گا۔

اگر ایران اپنے عزائم سے پیچھے نہیں ہٹتا تو اس امکان کو مسترد کرنا مشکل ہے کہ امریکہ اسی طرح کے ہتھیار اس کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای یا دیگر اعلیٰ شخصیات کو مارنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔

امریکہ کے حریفوں  میں سے کوئی بھی ملک اس قدر مشکل اور زمین کی گہرائی میں پوشیدہ اہداف کے خلاف ایسا اچانک حملہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔

دوسری جانب امریکہ B-2 طیاروں کو اب زیادہ جدید B-21 سے بدل رہا ہے۔ اس معاملے میں کوئی بھی ملک امریکہ کے برابر نہیں ہے۔

چینی میڈیا پر کئی برس سے رپورٹ کیا جا رہا ہے کہ بیجنگ بھی اسی طرح کی کوئی چیز H-2 بنانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔

اسرائیل اور ایران کے درمیان برسوں سے کشیدگی جاری ہے لیکن گزشتہ برس تک انہوں نے ایک دوسرے کی سرزمین کو براہ راست نشانہ نہیں بنایا تھا (فائل فوٹو: اے ایف پی)چین اور روس دونوں کے پاس ففتھ جنریشن کے فائٹر طیارے موجود ہیں جن میں کچھ سٹیلتھ صلاحیتیں ہیں لیکن کسی بھی ملک کے پاس روایتی جنگی سازوسامان کے ساتھ اب تک مغربی ممالک میں موجود ہتھیاروں کے بنکروں کو نشانہ بنانے کی صلاحیت نہیں ہے۔

نتیجے کے طور پر اگر چین یا روس کی جانب سے طویل فاصلے تک مار کرنے والے روایتی یا جوہری حملے ہوتے ہیں تو وہ ایسے میزائلوں سے ہی شروع کیے جائیں گے جن کا پہلے سے پتہ لگایا جا سکے گا۔

تاہم اس طرح کے ہتھیاروں کو استعمال کیے بغیر بھی جوہری طاقتوں کے پاس ایک دوسرے کو دھمکانے کے لیے اور بھی طریقے موجود ہیں۔

سٹمسن سینٹر  کی طرف سے مئی میں انڈیا پاکستان کی ’چار روزہ جنگ‘ کے تجزیے میں بتایا گیا کہ جنگ کے تیسرے دن جوں جوں انڈین حملے زیادہ سنگین ہوتے گئے، پاکستان نے امریکہ کی توجہ مبذول کرنے اور تنازع کو ختم کرنے میں مدد کے لیے اپنے جوہری ہتھیاروں کو تیار کرنے کے ایسے ہی نمائشی اقدامات کیے ہوں گے۔

انڈین اخبارات نے رپورٹ کیا کہ مایوس پاکستان نے امریکہ پر دباؤ ڈالا کہ وہ انڈیا کو جنگ روکنے پر قائل کرے کیونکہ اس کی افواج کو پہنچنے والا نقصان بڑھتا جا رہا ہے اور یہ کہ حکومت کو بھی خطرہ لاحق ہے۔

پاکستان انڈیا کے اس  دعوے کی تردید کرتا ہے لیکن پاکستانی فوج کے ایک اعلیٰ ترین افسر کا زور دے کر یہ کہنا تھا کہ انڈیا کی جانب سے کسی بھی حملے سے ایٹمی جنگ خطرہ لاحق ہو گا۔

پاکستانی جوائنٹ چیفس کے چیئرمین جنرل ساحر شمشاد مرزا نے بھی سنگاپور میں شنگری لا ڈائیلاگ میں روئٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’اس مرتبہ کچھ نہیں ہوا لیکن آپ کسی بھی وقت کسی بھی سٹریٹجک غلطی کے امکان کو مسترد نہیں کر سکتے۔‘

ڈونلڈ ٹرمپ اور بنیامین نیتن یاہو اس نکتے پر متفق ہیں کہ اسرائیل کے لیے خطرہ بننے والی ایسی کسی بھی جارح حکومت کو برداشت نہیں کیا جائے گا (فائل فوٹو: اے ایف پی)اب تک انڈیا اور پاکستان کے درمیان تصادم رکا ہوا ہے جب کہ انڈیا اپنے پڑوسی ملک کو کمزور کرنے کے لیے طویل المدتی حکمت عملی استعمال کرنے کے لیے پرعزم دکھائی دیتا ہے، جس میں دریائے سندھ کے پانی کی فراہمی کو کنٹرول کرنے والے سندھ طاس معاہدے سے دستبرداری بھی شامل ہے۔

اس سے متعلق انڈین وزیراعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ اب وہ (پاکستان کی جانب بہنے والے پانیوں پر) ڈیم بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ پاکستانی حکام نے خبردار کیا ہے کہ اگر ایسا ہوا تو ایک اور جنگ بھی ہو سکتی ہے۔

ڈونز اور ڈیٹرینس

ایران اب ایٹمی ہتھیار نہیں بنا سکے گا، اس یقین دہانی کا حصول امریکہ اور اسرائیل کا بنیادی مقصد تھا۔

ڈونلڈ ٹرمپ اور بنیامین نیتن یاہو اس نکتے پر متفق ہیں کہ اسرائیل کے لیے خطرہ بننے والی ایسی کسی بھی جارح حکومت کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔

کئی برسوں سے سرکاری و نجی شعبے کے تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ ایران اپنی جوہری تنصیبات پر حملوں کی صورت میں مشرق وسطیٰ میں اپنی پراکیسز حزب اللہ اور حماس کے ذریعے میزائل اور ڈرون حملوں میں تیزی لائے گا اور آبنائے ہرمز کو بند کر دے گا۔

لیکن امریکہ بھرپور فوجی ردعمل اور اس کی ایرانی حکومت کو تبدیل نہ کرنے کی پالیسی کے اعلان کے ساتھ ساتھ اسرائیل کی حماس اور حزب اللہ کے خلاف کامیابی نے ایران کو زیادہ جارحیت کی جانب مائل ہونے سے روکا۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کو نیٹو کے اجلاس کے لیے نیدرلینڈز روانگی سے قبل ایران کو مستقبل کی ’تجارت کرنے والی ریاست‘ کہا ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ یمن میں ایرانی حمایت یافتہ حوثی ملیشیا کے خلاف اپنے آپریشن رف رائیڈر میں کامیابی کی جانب بڑھ رہا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کو نیٹو کے اجلاس کے لیے نیدرلینڈز روانگی سے قبل ایران کو مستقبل کی ’تجارت کرنے والی ریاست‘ کہا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)امریکی وائس ایڈمرل بریڈلے کوپر نے سینیٹرز کو بتایا کہ حوثیوں پر 50 دن تک بمباری کی گئی جس کے بعد وہ بحیرۂ احمر میں امریکی سمندری جہازوں کو نشانہ نہ بنانے کے معاہدے پر متفق ہوئے۔

اس کے ساتھ ساتھ بریڈلے کوپر نے یہ بھی بتایا کہ حوثی دیگر عسکریت پسندوں گروپوں کی طرح زیرزمین اڈے بنا رہے ہیں جنہیں روایتی امریکی ہتھیاروں کے ذریعے نشانہ بنانا مشکل ہے۔

حالیہ عرصے میں جس انداز میں یوکرین کے میزائلوں سے روس کے اندر جنگجو طیاروں کو تباہ کیا گیا اور اب اسرائیل نے ایران میں اہم شخصیات کو ڈونز سے نشانہ بنایا، ان حملوں  میں کافی مماثلت دیکھی گئی ہے۔ یوکرین نے مختلف گاڑیوں کے ذریعے یہ ڈرونز روس کی سرزمین میں داخل کیے اور اسی طرح اسرائیل نے اپنے میزائل اور ڈرونز ایران میں سمگل کیے۔

اب اس ہفتے ہیگ میں نیٹو کے حکام اور کمانڈرز کی بیٹھک ہونے جا رہی ہے جس میں وہ اپنے دفاع کو مضبوط کرنے سے متعلق غور کریں گے تاکہ مستقبل میں وہ خود اس نوع کے حملوں کا نشانہ بننے سے بچ سکیں۔

چین کے میڈیا میں نشر ہونے والی رپورٹس سے بھی یہی لگتا ہے کہ وہاں کے فوجی حکام بھی انہی خطوط پر کام کر رہے ہیں۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More