زرعی ترقیاتی بینک (زیڈ ٹی بی ایل) کے ملازمین کی جانب سے زمین کی جعلی دستاویزات کے ذریعے کسانوں کے نام پر 1 ارب 25 کروڑ روپے کے فراڈ کا انکشاف ہوا ہے۔منگل کو اسلام آباد میں چیئرمین جُنید اکبر خان کی زیرِ صدارت پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس کے دوران آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے حکام نے زیڈ ٹی بی ایل میں مالی بے ضابطگیوں پر کمیٹی کو بریفنگ دی۔
بریفنگ کے دوران حکام نے بتایا کہ ’زرعی ترقیاتی بینک کے سال 2022 کے آڈٹ کے دوران بڑے پیمانے پر مالی بے ضابطگیوں کا سُراغ ملا ہے۔‘حکام کے مطابق ’بینک کے کچھ ملازمین نے زمین کی جعلی دستاویزات تیار کر کے کسانوں کے نام پر قرض حاصل کیا اور اس طرح 1 ارب 25 کروڑ روپے کا فراڈ کیا گیا۔‘اس موقع پر زرعی ترقیاتی بینک کے صدر طاہر یعقوب بھٹی نے بتایا کہ ’ہم نے اس معاملے پر کارروائی کرتے ہوئے اب تک 27 کروڑ روپے کی ریکوری کر لی ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’فراڈ میں زیڈ ٹی بی ایل کے ملوث ملازمین کو ملازمتوں سے فارغ کیا گیا اور معاملے کی سنگینی کو مدِنظر رکھتے ہوئے اسے ایف آئی اے اور نیب کے حوالے کر دیا گیا ہے۔‘کمیٹی کے ارکان کا کہنا تھا کہ ’چھوٹے کسانوں کو دیے جانے والے قرضوں پر بھی بینک ملازمین کمیشن لیتے ہیں۔ کئی بار کسان کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ اُس کے لیے منظور شدہ قرض کی اصل رقم کیا ہے۔‘پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے ارکان نے توجہ دلائی کہ ’زرعی ترقیاتی بینک کے میں دو لاکھ روپے کا قرض دے کر 10 لاکھ روپے کی رسید جاری کر دی جاتی ہے۔‘صدر زیڈ ٹی بی ایل نے اس بات کا اعتراف کیا کہ اُن کے پاس جدید بینکنگ سوفٹ ویئر سسٹم موجود نہیں ہے جو دیگر بڑے بینکوں کے پاس ہے۔انہوں نے بتایا کہ ’جدید بینکنگ سوفٹ ویئر نہ ہونے کے باعث ہمیں ریکارڈ مینجمنٹ اور نگرانی میں مشکلات کا سامنا ہے۔ایک برانچ میں 6 کروڑ روپے کا فراڈ ہوا اور میں نے متعلقہ شخص کے خلاف خود کارروائی کرائی۔‘طاہر یعقوب بھٹی نے وضاحت کی کہ ’بینک نے کسی شخص کا قرض معاف نہیں کیا۔ زرعی ترقیاتی بینک صرف 12 ایکڑ تک اراضی کے مالک زمین دار کسانوں کو قرض فراہم کرتا ہے۔‘
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے قرضوں کی فائلیں گُم ہونے کا معاملہ دوبارہ ڈیپارٹمنٹل اکاؤنٹس کمیٹی میں بھیج دیا (فائل فوٹو: اے ایف پی)
’زرعی ترقیاتی بینک نے گذشتہ دو برسوں کے دوران 40 ہزار کسانوں کو قرض فراہم کیا۔ علاوہ ازیں پرائم منسٹر یوتھ پروگرام کے تحت بھی بینک نے 37 ارب روپے جاری کیے ہیں۔‘’قرض کی 22 ہزار سے زائد فائلیں گُم ہو گئیں‘اجلاس کے دوران اس بات کا بھی انکشاف ہوا کہ زرعی ترقیاتی بینک کے ریکارڈ سے قرض کی 22 ہزار سے زائد فائلیں گُم کر دی گئی ہیں۔آڈٹ حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ ’ابتدائی طور پر بینک کے پاس قرض کی 22 ہزار فائلیں موجود تھیں، جن میں سے 11 ہزار 400 فائلیں گُم ہو چکی ہیں۔‘’اِن گُم شدہ فائلوں میں موجود قرضوں کی رقم 11 ارب 48 کروڑ 20 لاکھ روپے بنتی ہے، جس کی نہ تو مکمل تفصیل دستیاب ہے اور نہ ہی ریکارڈ محفوظ رہا ہے۔‘اس بارے میں زرعی ترقیاتی بینک کے صدر طاہر یعقوب بھٹی کا کہنا تھا کہ ’بینک کی نظر میں 790 فائلیں ایسی ہیں جن کا اب تک سُراغ نہیں لگایا جا سکا۔‘’سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی وفات پر ملک بھر میں مختلف بینکوں کی شاخوں میں آگ لگنے کے واقعات میں ہزاروں فائلیں جل گئیں۔ اُس وقت قرض کی تقریباً 5 ہزار فائلیں مکمل طور پر ضائع ہو گئی تھیں۔‘اس موقعے پر کمیٹی کے ارکان نے سوال اٹھایا کہ اُس وقت کتنی فائلیں جلیں اور کیا اُن کے متبادل ریکارڈ کا کوئی بندوبست کیا گیا؟ صدر زرعی ترقیاتی بینک کا کہنا تھا کہ ’اس واقعے میں ملک بھر کی مختلف شاخوں میں موجود فائلیں متاثر ہوئیں اور اُن کا مکمل ریکارڈ بحال نہیں ہو سکا۔‘پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے قرضوں کی فائلوں کے گُم ہونے کے معاملے کو انتہائی سنجیدہ قرار دیتے ہوئے ہدایت کی کہ اسے دوبارہ ڈیپارٹمنٹل اکاؤنٹس کمیٹی میں بھیجا جائے اور اِس پر تفصیلی رپورٹ طلب کی جائے۔‘