"مجھے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ میرے بارے میں سوشل میڈیا پر اس طرح کی باتیں ہو رہی ہیں۔ پھر صحافیوں نے مجھے کالز کرنا شروع کیں اور سیدھے سیدھے پوچھا کہ کیا آپ 'عورت' ہیں؟ یہ میرے لیے ذہنی طور پر بہت تکلیف دہ لمحے تھے، پہلے دو دن تو میں جیسے ہل کر رہ گئی۔"
"میرے دوستوں نے اس پر مذاق کیے، میری امی کو فرق نہیں پڑا، لیکن میں اندر سے بہت ڈسٹرب تھی۔ مجھے یہ سمجھ نہیں آتا کہ کسی عورت سے یہ سوال کیسے کیا جا سکتا ہے کہ کیا وہ واقعی عورت ہے؟ اگر میں خواجہ سرا ہوتی، تو بھی میں اسے فخر سے تسلیم کرتی۔ میں دنیا کو بتاتی کہ ہاں، میں خواجہ سرا ہوں اور مجھے اس پر کوئی شرمندگی نہ ہوتی۔"
شوبز انڈسٹری میں اپنے مضبوط کرداروں اور دلکش انداز کے باعث پہچان بنانے والی اداکارہ و ماڈل مومنہ اقبال کو حال ہی میں ایک غیر متوقع اور عجیب و غریب تنازعے کا سامنا کرنا پڑا۔ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس کا کیپشن تھا: "مومنہ اقبال خواجہ سرا ہیں۔" اس ویڈیو نے دیکھتے ہی دیکھتے ٹک ٹاک اور دیگر پلیٹ فارمز پر ایک نیا رجحان بنا دیا، جہاں لوگ ان کی جنس پر سوال اٹھانے لگے۔
یہ معاملہ اتنا بڑھ گیا کہ صحافیوں نے مومنہ سے براہِ راست رابطہ کیا اور ایسے سوالات کیے جو نہ صرف غیر ضروری بلکہ توہین آمیز بھی تھے۔ مومنہ نے حال ہی میں "سمتھنگ ہاٹ" کے شو پر اس معاملے پر کھل کر بات کی اور اس نازیبا افواہ پر اپنی خاموشی توڑی۔
انہوں نے بتایا کہ جب یہ افواہ پھیلی، تو وہ مکمل طور پر لاعلم تھیں۔ تاہم جیسے ہی صحافیوں کی کالز آنا شروع ہوئیں اور انہوں نے براہِ راست ان کی عورت ہونے پر سوالات کیے، تو وہ جذباتی طور پر ٹوٹ گئیں۔ مومنہ کا کہنا تھا کہ پہلے دو دن ان کے لیے شدید دباؤ والے تھے۔
اداکارہ نے مزید کہا کہ ان کی والدہ نے اس خبر کو بالکل سنجیدگی سے نہیں لیا اور دوستوں نے ہنسی مذاق میں بات کو ٹال دیا، لیکن وہ اندر سے بری طرح متاثر ہوئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی عورت سے اس کی نسوانیت پر سوال اٹھانا ہی خود ایک غیر انسانی بات ہے۔
مومنہ نے اس انٹرویو میں ایک نہایت پُراعتماد اور جرات مندانہ بات بھی کہی: اگر وہ واقعی خواجہ سرا ہوتیں، تو وہ اسے قبول کرتیں اور دنیا کو بتاتیں۔ وہ یہ نہیں چھپاتیں، اور نہ ہی شرمندہ ہوتیں، کیونکہ اصل کامیابی یہ ہے کہ انسان خود کو تسلیم کرے اور اپنے وجود پر فخر کرے۔
ان کا یہ دو ٹوک مؤقف سوشل میڈیا پر تیزی سے مقبول ہو رہا ہے، اور کئی لوگ اس نازیبا مہم کی مذمت کرتے ہوئے مومنہ کی جرات کو سراہ رہے ہیں۔ اس واقعے نے ایک بار پھر اس بات کو واضح کیا ہے کہ کسی کی جنس یا شناخت کو مذاق بنانا، صرف بدتمیزی نہیں بلکہ ذہنی استحصال کے مترادف ہے۔