ستاون برس کی خورشید بانو نے خواتین کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کا فیصلہ اُس وقت کیا جب انہوں نے اپنے والد کو اپنی والدہ کے چہرے پر ٹرے اچھالتے ہوئے دیکھا۔آج انہیں خواتین کے لیے آواز بلند کرتے 30 برس ہونے کو آئے ہیں لیکن ان کی آواز میں کمزوری آئی ہے نہ ان کی ہمت میں۔وہ آج بھی خیبر پختونخوا کی خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم ہیں اور غیرسرکاری تنظیم ’دا حوا لُر‘ یعنی ’حوا کی بیٹی‘ چلاتی ہیں جس میں صرف خواتین ہی کام کرتی ہیں۔وہ کہتی ہیں ’ہمارے اپنے گھر کا نظام روایتی پدرشاہی تھا اور یہ اس قدر سخت تھا کہ جو بات مرد کہہ دیتے وہی حرفِ آخر سمجھی جاتی تھی۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے ہمارے خاندان کے مرد بادشاہ ہوں اور ہم رعایا۔‘رواں برس انگلینڈ میں خورشید بانو کو صنفی مساوات کے لیے ان کی مسلسل جدوجہد کے اعتراف میں ’انٹرنیشنل انسپائرنگ ویمن لیڈر ایوارڈ 2025‘ سے نوازا گیا ہے۔’یہ ایوارڈ تمام خواتین اور خاص طور پر میرے شوہر کے نام ہے۔ میں آج جو بھی ہوں، ان کی وجہ ہوں۔ اگر وہ مجھے روک دیتے اور پابندی لگا دیتے تو میں پیچھے رہ جاتی۔‘اردو نیوز سے گفتگو میں خورشید بانو نے اپنی جدوجہد کے بارے میں بتایا کہ انہوں نے اپنے پڑوسی اور خدائی خدمتگار ’چاچا گاما‘ کو ٹریڈ یونینز، مزدوروں کے مسائل اور مہنگائی جیسے موضوعات پر بولتے ہوئے سنا۔’انہی کی وجہ سے میں نے پہلی بار دس بارہ برس کی عمر میں چوک یادگار میں ’پڑونے‘ یا ’چادر‘ اوڑھ کر آٹے اور چینی کی مہنگائی پر تقریر کی۔ اسی دن محسوس ہوا کہ میں کچھ کر سکتی ہوں۔ میرے والد، چاچا گاما کی وجہ سے خاموش ہو گئے کیونکہ ان کی بیٹیاں اور ہم سب ایک ہی ماحول میں ساتھ ساتھ بڑے ہوئے تھے۔‘رواں برس پاکستان سے انٹرنیشنل انسپائرنگ ویمن لیڈر ایوارڈ کے لیے خورشید بانو کو منتخب کیا گیا۔ (فوٹو: دو حوا لُر)خورشید بانو نے 2015 میں خواتین کے لیے صوبے کی پہلی ’ورکنگ ویمن یونین‘ قائم کی، جو آج بھی منصفانہ اجرت، زچگی کے دوران کام کی جگہ پر خواتین کے حقوق، ہراسانی سے تحفظ اور کام کی جگہ پر بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔اس یونین کی رکن خواتین کی تعداد پانچ ہزار ہے۔ ان میں گھریلو ملازمین، ڈاکٹرز، وکلا اور انجینیئرز سمیت مختلف شعبوں کی خواتین ہیں۔خورشید بانو کے مطابق ’جب 80 کی دہائی کے آغاز میں سکول میں ہیڈ گرل کے لیے الیکشن ہوئے تو میں اس میں کامیاب ہو کر ہیڈ گرل بن گئی۔ وہی وقت تھا جب میرے اندر سیاسی شعور اور سماجی آگاہی کی بنیاد پڑی۔‘ان کے تعلیم کا سفر بھی آسان نہیں تھا، اس کے بارے میں بات کرتے ہوئے خورشید بانو نے کہا کہ کالج میں داخلے کے وقت مجھ سے یہ تحریری وعدہ لیا گیا کہ اگر کوئی ایسی ویسی بات ہوئی تو انھیں فوراً کالج سے نکال دیا جائے گا۔خورشید بانو نے شرط قبول کرکے 1985 میں فرنٹیئرز کالج میں داخل لیا تاہم طالبات کے لیے آواز بلند کرنے پر انہیں کالج سے نکال دیا گیا۔’اسی دوران میری شادی طے ہو گئی۔ میں نے پھر منت کی کہ امتحان دینے کی اجازت دیں۔ اصل سفر وہیں سے شروع ہوا۔ شادی کے بعد میں نے ہمت نہیں ہاری۔ میری شادی نوشہرہ کے ایک پختون گھرانے میں ہوئی۔ میں نے تہیہ کیا تھا کہ حوصلہ نہیں ہاروں گی اور کوشش کروں گی کہ تبدیلی لاؤں۔ میرے شوہر نے میرا ساتھ دیا اور میں بتدریج آگے بڑھتی گئی۔‘خورشید بانو گھروں میں کام کرنے والی خواتین کے حقوق کے لیے بھی کام کرتی ہیں۔ (فوٹو: دا حوا لُر)’نوشہرہ میں پڑُونے کے بعد برقع بھی پہنا‘خورشید بانو نے بتایا کہ ’میں نے نوشہرہ میں خواتین کو ووٹ دینے پر آمادہ کیا اور یہ کام بہت بنیادی سطح پر کیا۔ چھوٹی چھوٹی سرگرمیوں کے ذریعے جیسے خود جا کر ووٹ دینا اور دوسروں کو بھی ساتھ لے جانا۔ شہر میں پڑونے پہنتی تھی اور گاؤں جا کر برقع بھی پہن لیا لیکن میں نے اپنا کام کیا۔‘خورشید بانو نے اپنے کیریئر کا آغاز ایک سرکاری ادارے سے کیا۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’سرکار کا ایک بڑا ادارہ تھا لیکن خواتین کے لیے الگ واش روم موجود نہیں تھا۔ ہم خواتین مل کر ایک ہی واش روم استعمال کرتی تھیں اور ساتھ جانا پڑتا تھا۔ میں نے مردوں کی یونین سے رابطہ کیا کہ ہمارے لیے ایک واش روم کی علیحدہ سہولت بنائی جائے لیکن انہوں نے بھی کوئی توجہ نہیں دی۔ اس وقت ہراسانی کے کیسز بھی تھے اور کوئی قانون موجود نہیں تھا۔‘اسی پس منظر کی وجہ سے خورشید بانو نے یونین کے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ 1994 میں انہوں نے تاریخ رقم کی جب وہ یونین لیڈر بنیں۔’میری کردار کشی کی گئی اور کہا گیا کہ یہ عورت مردوں میں بیٹھنا چاہتی ہے۔ میں نے ایک گروپ تشکیل دیا اور یونین کے انتخابات میں حصہ لیا۔ مردوں نے بھی ووٹ دیا تھا اور میں الیکشن جیت گئی۔ یہ میری پہلی کامیابی تھی۔‘خورشید بانو نے 2015 میں خواتین کے لیے صوبے کی پہلی ’ورکنگ ویمن یونین‘ قائم کی۔ (فوٹو: دا حوا لُر)وہ پاکستان الائنس اگینسٹ سیکشوئل ہراسمنٹ (پاشا) کی سرگرم رکن ہیں اور کام کی جگہوں پر تحفظ کو فروغ دینے میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔خورشید بانو نے شادی کے بعد اعلیٰ تعلیم حاصل کی، انہوں نے پشاور یونیورسٹی سے 1992 میں سائیکلوجی میں ماسٹرز کیا۔’میں تمام خواتین سے کہتی ہوں کہ زبردستی چیزوں کو تبدیل نہ کریں بلکہ حکمت عملی سے کریں اور چھوٹے چھوٹے قدم لے کر راستے تلاش کریں۔ جب دباؤ ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے تو چیزیں ٹوٹنے لگتی ہے۔‘