تیس سال بعد پاکستان واپسی، کیا حکومت کی نئی پالیسی ’ڈنکی کلچر‘ کا خاتمہ کر سکے گی؟

اردو نیوز  |  Jul 12, 2025

مری کے مزمل عباسی (فرضی نام) اپنے گھر والوں سے مل کر خوش تو تھے مگر ان کے چہرے پر مایوسی، تھکن، اور برسوں کے انتظار کا عکس نمایاں تھا۔

وہ 30 برس قبل ڈنکی لگا کر برطانیہ گئے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’یہ ایک ایسی غلطی تھی جس نے مجھے برسوں اپنے خاندان سے دور رکھا، اور میں ایسی ایسی مشکلات سے گزرا جنہیں لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں۔‘

وہ اس امید کے ساتھ برطانیہ گئے تھے کہ ایک روشن مستقبل کا خواب پورا کر کے وطن لوٹیں گے۔ لیکن اُن کا خواب، جو آنکھوں میں جگمگاتا تھا، حقیقت نہ بن سکا۔

مزمل عباسی نے اُردو نیوز کو اپنی کہانی سناتے ہوئے بتایا کہ 1995 میں شادی کے چھ ماہ بعد ایک ایجنٹ نے انہیں غیر قانونی طریقے سے برطانیہ جانے پر آمادہ کر لیا۔ ان کا ماننا تھا کہ وہ اگر اُس وقت برطانیہ چلے گئے تو بہتر مستقبل اور شہریت ان کے قدم چومے گی۔

انہوں نے ایک بڑے فیصلے کے ساتھ ایک طویل اور کٹھن سفر کا آغاز کیا۔ ایجنٹ نے دعویٰ کیا تھا کہ صرف دو ملکوں کی سرحدیں عبور کرنی ہیں، حقیقت میں  ایسا نہیں تھا۔ ان کو ایران، ترکی، بلغاریہ، فرانس اور پھر انگلینڈ کے درمیان نہ صرف چھپ کر سفر کرنا پڑا بلکہ ہر مرحلے پر اپنی جان بھی داؤ پر لگانی پڑی۔

وہ بالآخر کسی نہ کسی طرح برطانیہ پہنچ ہی گئے۔ پہنچتے ہی تھکن کچھ کم ضرور ہوئی، لیکن مشکلات کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔

ایک طرف غیر قانونی حیثیت، اور دوسری طرف قسمت کی ستم ظریفی۔ قانونی دستاویزات کے بغیر انہیں نوکری تلاش کرنے میں سخت دشواری ہوئی۔

وہ کبھی ہوٹل کے کچن میں پلیٹیں دھوتے، کبھی صبح سویرے گلیوں میں صفائی کرتے، اور کبھی گاڑیاں دھونے جیسے کاموں سے پیٹ پالتے۔ تمام کام چھپ کر اور کیش پر کرتے تاکہ کوئی ان کی غیر قانونی حیثیت جان نہ سکے۔

لیکن ان سب کے باوجود انہیں اپنے کام کی مناسب اُجرت نہ ملی۔ انہوں نے کئی بار اپنی حیثیت قانونی کروانے کی کوشش کی، لیکن ہر بار ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے لیے قانونی یا طبی سہولیات کا حصول بھی ناممکن ہو گیا تھا۔

 

جیل جانے کے خوف نے مزمل کو دوبارہ چھپنے پر مجبور کر دیا (فوٹو: اے ایف پی)مزمل عباسی بتاتے ہیں کہ اگر کبھی بخار یا درد ہوتا، تو صرف گولی سے گزارا کرتا، کیونکہ ہسپتال جانا خطرہ مول لینے کے مترادف تھا۔

پانچ سال بعد جب وہ دیکھ چکے تھے کہ سیٹل ہونا تو دور، وہاں ٹِکنا بھی ممکن نہیں، تو وہ شدید ذہنی کشمکش میں مبتلا ہو گئے۔

ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وہ امیگریشن حکام کے سامنے خود کو پیش کر کے ملک بدری کا سوچنے لگے، لیکن دوستوں نے خبردار کیا کہ ایسا کرنے پر جیل ہو سکتی ہے۔ اسی خوف نے انہیں دوبارہ چھپنے پر مجبور کر دیا۔

وقت گزرنے کے ساتھ انہوں نے گھر والوں سے رابطہ کم کر دیا، صرف اتنا پیغام بھجواتے رہے کہ میں خیریت سے ہوں، لیکن پیسے نہیں بھیج سکتا۔

گھر والے بھی پریشان تھے۔ پھر ایک دن خبر آئی کہ ان کے ہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی ہے ۔

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ خبر سن کر دل اور ٹوٹ گیا، گھر کی محبت اور شدت سے ستانے لگی، لیکن میں کچھ بھی کرنے کے قابل نہ تھا۔‘

مزمل اب اس امید پر پاکستان واپس لوٹے ہیں کہ دوبارہ کبھی اس طرح کے غیر قانونی دھندے کا حصہ نہیں بنیں گے (فائل فوٹو: اے ایف پی)ان مشکلات کی وجہ سے وہ پاکستان واپس نہیں لوٹے۔ انہوں نے غیرقانونی طور پر پاکستان آنے کی کئی بار کوشش کی لیکن ہر بار ناکام رہے۔ یوں انہوں نے اپنی زندگی کے تیس سال برطانیہ میں گزار دیے۔

مزمل عباسی بالآخر 30 سال کے بعد کسی طرح اپنے کاغذت کو مینیج کر کے اور ایک دوست  کی مدد لے کر گذشتہ ماہ وطن واپسی لوٹے۔ جب وہ اپنے گھر میں داخل ہوئے تو یہ لمحہ ان کے اہلِ خانہ اور خصوصاً بیٹے کے لیے ناقابلِ فراموش تھا۔ اُن کا بیٹا، جو اب خود جوان ہے، اپنے بوڑھے باپ کو دیکھ کر خوش تو ضرور ہوا، مگر جذباتی بھی ہو گیا۔

مزمل عباسی کی بیوی بھی انہیں دیکھ کر حیران رہ گئیں، کیونکہ جب وہ یہاں سے گئے تھے تو جوان تھے، اور اب ان کی عمر قریباً 55 سال ہو چکی ہے، بال اور داڑھی بھی کسی حد تک سفید ہو چکی ہے۔

مزمل عباسی اپنی ان 30 برسوں کی زندگی پر پچھتا ضرور رہے ہیں، لیکن وہ اپنوں سے ملاقات پر خوش بھی ہیں۔

وہ اب اس امید پر پاکستان واپس لوٹے ہیں کہ قانونی طریقے سے ایک بہتر زندگی گزاریں گے اور دوبارہ کبھی اس طرح کے غیر قانونی دھندے کا حصہ نہیں بنیں گے۔

پاکستان میں ہر سال ہزاروں افراد بہتر مستقبل کے خواب لیے غیرقانونی طریقے سے یورپ جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ کسی حد تک کامیاب بھی ہو جاتے ہیں، لیکن اکثریت ایسے حالات کا شکار ہوتی ہے جو ان کے لیے ناقابلِ تلافی نقصان کا باعث بنتے ہیں۔

غیرقانونی طریقے سے بیرونِ ملک جاتے ہوئے بیسیوں پاکستانی اب تک جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ اس سنگین صورتحال کے پیش نظر حکومتِ پاکستان نے حالیہ عرصے میں غیر قانونی امیگریشن کی روک تھام کے لیے سخت اقدامات کیے ہیں۔

وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ غیرقانونی طور پر بیرون ملک جانے والوں کے نام پانچ سال کے لیے پاسپورٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کیے جائیں گے (فوٹو: اے پی پی)وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ جو افراد غیرقانونی طور پر بیرون ملک جائیں گے، ان کے نام پانچ سال کے لیے پاسپورٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کیے جائیں گے تاکہ وہ اس مدت کے دوران بین الاقوامی سفر نہ کر سکیں۔

علاوہ ازیں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے ایسے درجنوں ایجنٹوں کو گرفتار کیا ہے جو شہریوں کو غیرقانونی طریقے سے بیرون ملک بھجوانے میں ملوث تھے۔

وفاقی حکومت صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر غیرقانونی امیگریشن کی روک تھام کے لیے مسلسل کوششیں کر رہی ہے، تاہم اب بھی بعض افراد خطرناک اور غیر قانونی راستے اختیار کر کے یورپ جانے کی کوشش کرتے ہیں۔

انسانی سمگلنگ اور غیرقانونی امیگریشن کے خلاف کام کرنے والے میجر ریٹائرڈ بیرسٹر محمد ساجد مجید کا کہنا ہے کہ آپ اگر غیر قانونی طور پر برطانیہ سمیت کسی بھی ملک میں داخل ہوں گے، تو آپ کو وہاں شدید شکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ دنیا اب صرف آپ کے بیان کردہ مؤقف یا جعلی دستاویزات پر اعتبار نہیں کرتی، بلکہ اگر آپ کا قانونی سٹیٹس مکمل طور پر درست نہ ہو تو آپ کو غیر قانونی تارک وطن ہی تصور کیا جاتا ہے۔

ساجد مجید کے مطابق جو افراد غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک جاتے ہیں، ان کے لیے زندگی نہایت اذیت ناک ہو جاتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ایسے تارکین وطن نہ تو سرعام کام کر سکتے ہیں، نہ اطمینان سے کھا پی سکتے ہیں، اور نہ ہی ہسپتال جا سکتے ہیں۔ انہیں ہر وقت چھپ کر کام کرنا پڑتا ہے۔ کئی بار تو وہاں بھی ان پر مقدمے بنتے ہیں یا سزا سنائی جاتی ہے، اور جب وہ پاکستان واپس آتے ہیں تو ان کا نام پاسپورٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کر دیا جاتا ہے، جس کے باعث وہ دوبارہ سفر کرنے کے قابل نہیں رہتے۔‘

ساجد مجید کے مطابق جو افراد غیرقانونی طریقے سے بیرون ملک جاتے ہیں ان کے لیے زندگی نہایت اذیت ناک ہو جاتی ہے (فائل فوٹو: روئٹرز)انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’ماضی میں پاکستانی شہری ’ڈنکی‘ لگا کر بیرون ملک جاتے تھے اور پھر جھوٹے بیانات یا سیاسی پناہ کی بنیاد پر مستقل سکونت حاصل کر لیتے تھے۔لیکن اب حالات بدل چکے ہیں۔‘

’پاکستان سے جھوٹے سیاسی کیسز کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے، جس کے بعد متعدد ممالک نے پاکستان کے ساتھ معاہدے کیے ہیں، اور جعلی دعوؤں پر پناہ کی درخواستیں اب مسترد ہو رہی ہیں۔‘

ساجد مجید نے اس امر کی بھی نشاندہی کی کہ وہ کئی ایسے افراد کو جانتے ہیں جو گزشتہ 20 سے 30 سال سے غیر قانونی طور پر بیرون ممالک میں رہ کر غلاموں کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

’انہیں عام مزدوروں کی نسبت 50 فیصد کم اُجرت دی جاتی ہے، اور مسلسل یہ دھمکی دی جاتی ہے کہ انہوں نے اگر آواز بلند کی، تو انہیں پولیس یا امیگریشن حکام کے حوالے کر دیا جائے گا۔ اسی خوف کی وجہ سے وہ ایک مجرم کی طرح زندگی گزارتے ہیں اور برسوں تک اپنے خاندان سے رابطہ تک نہیں کر پاتے۔‘

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستانی حکومت کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ بیرون ملک جانے کے لیے غیر قانونی راستوں کا مکمل خاتمہ کیا جائے، کیونکہ اس کے ذریعے صرف پیسے کا نقصان نہیں ہوتا بلکہ یہ سفر انسانی جان کے لیے بھی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More