"قاری نے بچے پر اتنا ظلم کیا کہ وہ جان سے چلا گیا، میں نے اس بچے کی کمر کی تصویر دیکھی، بہت دل دکھا، میت کی تصویر بھی دیکھی اور اُس ظالم قاری کا چہرہ بھی، یہ سب دیکھ کر اندر سے لرز گیا۔ نہ یہ دین ہے، نہ ہمارے نبی ﷺ کی تعلیم۔ ایک دن کی غیر حاضری پر بھی بچے کو پیار سے سمجھایا جا سکتا تھا، لیکن اس پر اتنا تشدد کیا گیا کہ وہ بچہ دنیا سے ہی رخصت ہو گیا۔ مجھے سوچ کر دل دہلتا ہے کہ اُس کے ماں باپ پر کیا بیت رہی ہو گی۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ایک حافظ جیسے ہی فارغ ہوتا ہے، ہم اُسے بغیر تربیت کے جماعت میں بٹھا دیتے ہیں، ایک سوٹی تھما دیتے ہیں، اور وہ سوٹی بے دردی سے جہاں چاہے استعمال کرتا ہے۔ والدین بھی بے خبر ہیں، صرف چاہتے ہیں کہ بچہ حافظ بنے چاہے اس کی کھال ہی کیوں نہ اُتار دی جائے۔ میں کہتا ہوں ایسا حافظ بن بھی جائے تو دل سے مسلمان نہیں بنے گا، کیونکہ مار پیٹ سے ہدایت نہیں آتی۔" مولانا طارق جمیل
سوات کے ایک دینی مدرسے میں 12 سالہ فرحان کی ہولناک موت نے نہ صرف والدین بلکہ پورے معاشرے کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ وہ معصوم بچہ جو کل تک قرآن کے الفاظ رٹ رہا تھا، آج قبر میں خاموش سو گیا ہے, اور الزام ہے اس پر جسے استاد کہا جاتا تھا۔
معروف مبلغ مولانا طارق جمیل نے اس سفاک واقعے پر دل گرفتہ بیان دیتے ہوئے سچائی کی وہ تصویر کھینچی ہے جو اکثر پردوں میں چھپی رہتی ہے۔ ان کے الفاظ صرف مذمت نہیں، بلکہ ہمارے تربیتی نظام، دینی مدارس اور والدین کے طرزِ فکر پر ایک بھرپور تنقید بھی ہے۔
مولانا کے مطابق، مدارس میں نوخیز اساتذہ کو بغیر تربیت کے بچوں پر مسلط کر دیا جاتا ہے۔ ہاتھ میں سوٹی تھما دی جاتی ہے، اور پھر وہ اپنی فرسٹریشن، غصہ یا غلط فہمی کا بوجھ ان نونہالوں پر اتارتے ہیں جو دین سیکھنے آتے ہیں۔ والدین کو بھی بس ایک ہی فکر ہوتی ہے: "ہمارا بچہ حافظ بن جائے، چاہے وہ تکلیف میں ہو، یا عزت نفس سے محروم!"
فرحان کی موت محض ایک سانحہ نہیں، ایک سماجی المیہ ہے۔ ابتدائی رپورٹ کے مطابق، مدرسے کے مہتمم کے بیٹے پر بھی سنگین الزامات ہیں کہ وہ فرحان سے ناجائز مطالبات کرتا تھا۔ جب فرحان نے انکار کیا، تو اُسے مار مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
21 جولائی کو فرحان کی لاش خوازہ خیلہ اسپتال لائی گئی، جسم پر تشدد کے واضح نشانات تھے۔ فرحان کے چچا صدر ایاز نے پولیس کو بتایا کہ قاری محمد عمر، اُس کا بیٹا احسان اللّٰہ، ناظم مدرسہ عبد اللّٰہ اور ایک اور شخص بخت امین، سب اس جرم میں شریک ہیں۔ ان سب کے خلاف مقدمہ درج ہو چکا ہے۔