اسلام آباد فوڈ اتھارٹی کے ڈائریکٹر عرفان میمن نے کہا ہے کہ گدھے کے گوشت کی برآمدگی کے بعد اب اس بات کی تحقیقات کی جا رہی ہیں کہ وہ کہاں سپلائی کیا جا رہا تھا۔
پیر کو ڈائریکٹر عرفان میمن نے کہا کہ گوشت کے حوالے سے اطلاعات ایک ہفتے سے موجود تھیں، تاہم اس میں ملوث عناصر کو رنگے ہاتھوں پکڑنے کے لیے پوری منصوبہ بندی کی گئی۔
ان کے مطابق ’جب ہماری ٹیم وہاں پہنچی ایک ہزار کلو گرام کٹا ہوا گوشت اور 40 زندہ گدھے ملے۔‘
عرفان میمن نے کہا کہ چھاپے کے وقت غیرملکی قصائی کو موقع پر جبکہ چوکیدار کو بعدازاں حراست میں لیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہر زاویے سے امر کی تحقیقات کی جا رہی ہیں کہ گوشت کہاں سپلائی کیا جا رہا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اس بات کی تحقیقات بھی ہو رہی ہیں کہ اس سے قبل کتنے گدھے ذبح ہوئے اور ان کا گوشت کہاں تقسیم ہوا۔
ان کے مطابق ’گوشت کچھ غیرملکی شہریوں کو سپلائی کرنے کے حوالے سے بھی رپورٹس ہیں جبکہ اسلام آباد سے باہر بھجوانے سے متعلق اطلاعات بھی ملی ہیں۔‘
تاہم انہوں نے یہ وضاحت بھی کی کہ ’ابھی تک کسی قسم کا ثبوت موجود نہیں ہے کہ حتمی رائے دی جا سکے۔‘
ڈائریکٹر فوڈ کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں تمام ریستوران کی انسپکشن اچانک دوروں کے ذریعے کی جاتی ہے جو رات کے وقت بھی ہوتے ہیں۔
تاہم دو سال قبل تک گدھوں کے گوشت کے حوالے سے کوئی اطلاع نہیں ملی تھی۔
خیال رہے اتوار کو فوڈ اتھارٹی کی ایک کارروائی میں ترنول کے علاقے سے 25 من گدھے کا گوشت برآمد ہوا تھا۔
جس کے بعد ڈپٹی ڈائریکٹر اسلام آباد فوڈ اتھارٹی ڈاکٹر طاہرہ صدیق نے بتایا تھا کہ 40 سے زائد زندہ گدھے بھی برآمد کیے گئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ملوث افراد کے خلاف مقدمات درج کرنے کے احکامات دے دیے گئے ہیں جبکہ برآمد ہونے والے گوشت کو تلف کیا جا رہا ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ موقع پر موجود ایک غیر ملکی شہری کو بھی پولیس کے حوالے کیا گیا۔