ہمدردی کر رہی ہو یا ڈرا رہی ہو۔۔ 16 سالہ بیٹی کے قتل پر عظمیٰ طاہر کی غمزدہ باپ کو تسلی ! صارفین پیشہ ورانہ حدود یاد دلانے پر مجبور ہوگئے

ہماری ویب  |  Jul 28, 2025

"اتنا قریب کیوں کھڑی ہو؟ لگ رہا ہے وہ شخص غیر آرام دہ محسوس کر رہا ہے"

"یہ بھی تو ہراسانی ہی ہے!"

"کیا ضرورت ہے ہاتھ پکڑنے کی؟"

یہ وہ جملے ہیں جو اس وقت سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ویڈیو پر کیے جا رہے ہیں جس میں معروف اینکر اور صحافی عظمٰی طاہر کو ایک مقتول بچی کے والد کو تسلی دیتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن اس ویڈیو نے جہاں کچھ افراد کے لیے جذباتی لمحہ پیش کیا، وہیں بہت سے صارفین کے لیے یہ منظر غیر موزوں، غیر پیشہ ورانہ اور تکلیف دہ ثابت ہوا۔

واقعہ ایک 16 سالہ بچی کے بہیمانہ قتل کے بعد پیش آیا، جب بچی کو مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا گیا۔ عظمٰی طاہر، جو ’’پردہ فاش‘‘ اور ’’خفیہ‘‘ جیسے کرائم بیسڈ شوز کی میزبان کے طور پر شہرت رکھتی ہیں، جائے وقوعہ پر پہنچیں اور مقتولہ کے والد کو تسلی دینے کی کوشش کی۔ وہ کیمرے کے سامنے کھڑی ہو کر متاثرہ والد کو اللہ پر بھروسا رکھنے اور انصاف کے لیے لڑنے کی تلقین کرتی نظر آئیں۔

لیکن اس سارے منظر میں جو بات ناظرین کو کھٹکی، وہ یہ تھی کہ عظمٰی طاہر متاثرہ شخص کے حد سے زیادہ قریب کھڑی تھیں، ان کا ہاتھ تھامے ہوئے تھیں، اور ان کے انداز سے باپ کی ذہنی کیفیت مزید بوجھل دکھائی دی۔

سوشل میڈیا پر بحث چھڑ گئی

ویڈیو سامنے آتے ہی صارفین کی جانب سے تنقید کا طوفان آگیا۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس قسم کی قریبی جسمانی موجودگی ایسے نازک لمحے میں کسی طور بھی مناسب نہیں، خاص طور پر جب سب کچھ کیمرے پر ہو رہا ہو۔ کچھ نے اسے غیر پیشہ ورانہ صحافت قرار دیا، جبکہ کئی صارفین نے یہ سوال اٹھایا کہ کیا ایسے لمحات میں کیمرے کو بند نہیں ہونا چاہیے؟

جہاں تنقید کرنے والے موجود ہیں، وہیں کچھ صارفین نے عظمٰی طاہر کی نیت پر شک نہ کرنے کا مشورہ دیا۔ ان کے مطابق وہ ایک صحافی کے ساتھ ساتھ ایک عورت بھی ہیں جنہوں نے ایک باپ کے دکھ کو محسوس کرتے ہوئے اسے سہارا دینے کی کوشش کی۔ لیکن یہ دلیل بھی ماننا ہوگا کہ صحافت میں جذبات اور حدود کے بیچ ایک باریک لکیر ہوتی ہے، جسے عبور کرنا اکثر ناپسندیدہ نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔

یہ واقعہ ایک بار پھر اس بحث کو جنم دیتا ہے کہ صحافت میں انسانی جذبات کا احترام کیسے کیا جائے؟ اور کہاں رک جانا چاہیے؟ عظمٰی طاہر کے اس ویڈیو نے ضرور کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں جن کا جواب صحافتی اخلاقیات کے دائرے میں تلاش کیا جانا چاہیے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More