بیمار مسلمان مسافر پر تشدد کی افسوس ناک ویڈیو نے ہنگامہ بپا کردیا۔۔ بھارت کا متعصب چہرہ بے نقاب ! دیکھیں

ہماری ویب  |  Aug 02, 2025

بھارت خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہتا ہے، مگر اس جمہوریت کے پردے کے پیچھے اقلیتوں کے ساتھ ہونے والا سلوک آئے دن دنیا کے سامنے آتا جا رہا ہے۔ حالیہ واقعہ بھارتی ایئرلائن 'انڈی گو' کی پرواز میں پیش آیا جہاں ایک مسلمان مسافر کو نہ صرف ذہنی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا بلکہ مذہبی تعصب کے زیرِ اثر ایک اور مسافر کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بھی بننا پڑا۔

32 سالہ حسین احمد مجمدار پرواز سے قبل گھبراہٹ میں مبتلا ہوئے اور عملے سے درخواست کی کہ انہیں طیارے سے اتار دیا جائے۔ یہ ایک طبی و ذہنی مسئلہ تھا، جسے کسی مہذب معاشرے میں ہمدردی سے دیکھا جاتا۔ لیکن بھارت میں ایک مسلمان کی پریشانی کو برداشت کرنے کے بجائے، اسے طعنہ، غصہ اور پھر ہاتھ کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک ہندو مسافر نے تاخیر پر جھنجھلاہٹ نکالتے ہوئے حسین احمد کو طیارے کے اندر تھپڑ دے مارا, محض اس لیے کہ وہ ایک مسلمان تھا اور سفر سے قبل ذہنی طور پر پریشان تھا؟

یہ رویہ صرف ایک فرد کا غصہ نہیں بلکہ اُس سوچ کا نتیجہ ہے جو آج کے بھارت میں مسلمانوں کے خلاف منظم طریقے سے پروان چڑھائی جا رہی ہے۔ جہاں ایک مسلمان کی کمزوری کو جرم، اور اس کے وجود کو بوجھ سمجھا جاتا ہے۔

ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو آسام میں حسین احمد کے اہلِ خانہ نے انہیں پہچان لیا اور دعویٰ کیا کہ وہ اس واقعے کے بعد سے لاپتہ ہیں۔ نہ ان کا فون آن ہے، نہ ہی ان کی کوئی خبر۔ اہلِ خانہ نے ایف آئی آر درج کرا دی ہے، لیکن بھارت جیسے ملک میں، جہاں اقلیتوں کی شکایات اکثر فائلوں میں دبا دی جاتی ہیں، انصاف کی امید کم ہی ہے۔

حسین کو تھپڑ مارنے والے شخص کو کلکتہ ایئرپورٹ پر حراست میں تو لیا گیا، مگر یہ گرفتاری محض دنیا کو دکھانے کے لیے ایک رسمی اقدام دکھائی دیتی ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ بھارت کے اندر ایسا ماحول کیوں بن چکا ہے جہاں ایک مسلمان کی زندگی، اس کی عزت، اور اس کے جذبات سب کچھ بے معنی ہو چکے ہیں؟

یہ واقعہ بھارت کی اُس اصل تصویر کو بے نقاب کرتا ہے جسے اکثر عالمی میڈیا یا تو نظر انداز کرتا ہے یا سافٹ ونگ سیاست کے پردے میں چھپا دیتا ہے۔ جب ایک ذہنی دباؤ کے شکار شخص کے ساتھ ایسا سلوک ہوتا ہے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہاں عام مسلمان کو روز مرہ زندگی میں کن حالات کا سامنا ہوتا ہوگا۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More