PA Media
برطانوی فوج کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کینیا میں ایک متنازع فوجی اڈے پر تعینات کچھ فوجی پابندی کے باوجود جنسی کارکنوں کو استعمال کر رہے ہیں۔
برٹش آرمی ٹریننگ یونٹ کینیا (باٹیک) کے سپاہی جنسی کارکنوں کو ’کم یا متعدل پیمانے‘ پر استعمال کرتے ہیں۔ اس تحقیقاتی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اس کے خاتمے کے لیے مزید کام کی ضرورت ہے۔
جولائی 2022 کے واقعات پر تحقیقات کرنے والی اس تفتیش کو مکمل ہونے میں دو سال سے زیادہ کا عرصہ لگا۔
اکتوبر 2024 میں باٹیک میں فوجیوں کے رویے کے بارے میں ایک تحقیق کے بعد آئی ٹی وی کو مزید جانچ پڑتال کے لیے یہ ٹاسک دیا گیا تھا۔ ان فوجیوں پر یہ الزامات بھی تھے کہ کچھ فوجی اہلکار مقامی خواتین کو جنسی تعلقات قائم کرنے کے بدلے پیسے دے رہے تھے۔
آئی ٹی وی کی دستاویزی فلم 2012 میں ایک مقامی خاتون ایگنیس ونجیرو کی موت کے بعد باٹیک کے بارے میں اٹھائے گئےخدشات کا احاطہ کرتی ہے۔ ایگنیس ونجیرو مبینہ طور پر فوجی اڈے پر تعینات ایک برطانوی فوجی کے ہاتھوں ماری گئی تھیں۔
اس کے بعد سے تربیتی مقام پر فوجیوں کے طرز عمل کے بارے میں الزامات کا سلسلہ جاری ہے، جو کینیا کے دارالحکومت نیروبی کے شمال میں 200 کلومیٹر شمال میں نانیوکی قصبے کے قریب واقع ہے۔
2022 میں برطانیہ کی وزارت دفاع نے فوج میں جنسی استحصال اور بدسلوکی کو روکنے کے لیے فوجیوں پر بیرون ملک جنسی کارکنوں کے استعمال پر پابندی لگا دی۔ برطانیہ کے چیف آف جنرل سٹاف جنرل سر رولی واکر نے ایک بیان میں کہا کہ فوج اپنی صفوں میں لوگوں کے جنسی استحصال کو روکنے کے لیے پُرعزم ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’میں نے جو سروس انکوائری شروع کی تھی اس کے نتائج سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ کینیا میں سیکس ورکروں سے تعلقات رکھنے کے بدلے لین دین اب بھی کم سے متعدل یعنی درمیانے درجے پر ہو رہا ہے۔ ایسا بالکل نہیں ہونا چاہیے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’برطانوی فوج میں جنسی استحصال اور بدسلوکی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ یہ برطانوی فوجی کے شایان شان نہیں اور اس کے فرائض سے بالکل متصادم ہے۔ اس عمل سے کمزور طبقات کو ہدف بنایا جاتا ہے اور ان لوگوں کو فائدہ پہنچتا ہے جو بدسلوکی اور استحصال سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔‘
سروس انکوائری کی تحقیقات چار افراد پر مشتمل ایک پینل نے کی جن میں فوج کے دو حاضر سروس افسران، ایک سرکاری ملازم اور ایک آزاد مشیر شامل تھے۔
اس انکوائری میں باٹیک میں تعینات فوجیوں کے رویے کی جانچ کی گئی اور فوج کے اُن نظاموں کا جائزہ لیا گیا جو اس کے ضابطہ جے ایس پی 769 کی خلاف ورزی کو روکنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ یہ ضابطہ فوجیوں کو جنسی تعلقات کے لیے رقم ادا کرنے پر پابندی لگاتا ہے۔
سابق برطانوی فوجیوں کا ’جنگی جرائم‘ کا اعتراف: ’بچوں سمیت نہتے قیدیوں کو قتل کیا، کئی بار سوئے ہوئے لوگوں پر گولیاں چلائیں‘برطانوی حکومت اور فوج پر ’جنگی جرائم چھپانے‘ کا الزاممبینہ جنگی جرائم کی تحقیقات: ’برطانیہ کی سپیشل ایئر سروس کو افغانستان میں قتل کرنے کی کھلی چھوٹ تھی‘کیا برطانوی سپیشل فورسز نے معصوم افغان بچے قتل کیے؟
رپورٹ میں 35 ایسے واقعات کی تفصیل دی گئی ہے جن میں کینیا میں موجود فوجیوں پر جنسی تعلقات کے لیے رقم ادا کرنے کا شبہ تھا اور یہ سب جولائی 2022 میں فوجیوں کے لیے ہدایت نامہ شائع ہونے کے بعد پیش آئے۔
اس مدت کے دوران 7666 برطانوی فوجی اس اڈے پر تعینات رہے۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان میں سے 26 کیس اس سال نومبر میں تمام فوجی عملے کے لیے نئے اصول پر تربیت شروع کرنے سے پہلے پیش آئے، اس کے بعد سے اب تک نو کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔ زیادہ تر کیسز میں یہ الزام کبھی ثابت نہیں ہوا کہ فوجیوں نے جنسی تعلقات کے لیے ادائیگی کی تھی۔
رپورٹ میں بیان کردہ تفصیلات کے علاوہ دفتر خارجہ نے بی بی سی کو بتایا کہ جنسی کارکنوں کے مبینہ استعمال کے کیسز کی تعداد پانچ سے بھی کم تھی۔ مبینہ واقعات انکوائری مکمل ہونے کے بعد رونما ہوئے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فوج کی طرف سے دی گئی تربیت اور کنٹرول کے اقدامات کے باوجود حقیقت یہ تھی کہ کینیا میں برطانیہ کے اہلکاروں کی طرف سے ’لین دین سے متعلق جنسی سرگرمی‘ اب بھی ہو رہی ہے، اور یہ کہ ’سطح کم اور متعدل کے درمیان ہے‘۔
رپورٹ میں اس مشق کو ختم کرنے کے لیے فوج کی کوششوں کا ذکر کیا گیا ہے، جس میں باقاعدہ تربیت اور ’شارک واچ‘ گشت کا استعمال شامل ہے جس کے تحت سارجنٹ یا اس سے بلند رینک کا ایک نان کمیشنڈ افسر تعینات کیا جاتا ہے تاکہ جب جونیئر اہلکار رات کے وقت اڈے سے باہر جائیں تو ان کے طرزِ عمل پر نظر رکھی جا سکے۔
فوج نے کہا ہے کہ وہ رپورٹ کی سفارشات پر عمل درآمد کرے گی، جس میں جنسی کارکنوں کا استعمال کرنے والے فوجیوں کو برخاست کرنا اور اضافی تربیت کا نفاذ شامل ہے۔
یہ رپورٹ باٹیوک میں فوجیوں کے طرز عمل کے بارے میں برسوں کے تنازعات کے بعد سامنے آئی جب 2021 میں سنڈے ٹائمز کی ایک تحقیقات سے یہ پتا چلا کہ ایگنیس ونجیرو کے قتل میں ایک برطانوی فوجی کے مبینہ ملوث ہونے کا انکشاف ہوا تھا۔
اس خبر میں بتایا گیا تھا کہ ایک بچے کی ماں کی لاش ایک ہوٹل کے قریب ایک سیوریج والے ٹینک میں پھینکی گئی تھی جہاں وہ لاپتہ ہونے والی رات فوجیوں کے ساتھ دیکھی گئی تھیں۔
اس کے علاوہ، کینیا میں اراکینِ پارلیمان باٹیک میں تعینات فوجیوں کی جانب سے مقامی آبادی کے ساتھ بدسلوکی کے وسیع تر الزامات کی تحقیقات کر رہے ہیں۔ عوامی سماعتوں میں یہ دعوے سامنے آئے ہیں کہ برطانوی فوجیوں کے رویے کی وجہ سے مقامی افراد زخمی ہوئے اور یہ بھی پتا چلا ہے کہ یہ فوجی کینیا کی لڑکیوں سے بچے پیدا کرتے ہیں اور پھر جب واپس اپنے وطن کا رخ کرتے ہیں تو انھیں بے یارومددگار چھوڑ جاتے ہیں۔
اس سال جون میں فوجی اڈے پر تعینات ایک فوجی کو ریپ کے الزام کے بعد واپس برطانیہ بھیج دیا گیا تھا۔
تازہ ترین رپورٹ پر سروس انکوائری کا کہنا ہے کہ اس نے کینیا کے بہت سے مقامی لوگوں سے بات کی ہے اور پتا چلا ہے کہ مقامی باشندوں کی ’بڑی اکثریت‘ باٹیک کیمپ کی موجودگی سے خوش ہے۔
سابق برطانوی فوجیوں کا ’جنگی جرائم‘ کا اعتراف: ’بچوں سمیت نہتے قیدیوں کو قتل کیا، کئی بار سوئے ہوئے لوگوں پر گولیاں چلائیں‘کینیا میں سیکس کے کاروبار میں بچوں کے استحصال کا انکشاف: ’ایسے گاہک بھی ہوتے ہیں جو ہمیشہ کم عمر لڑکیوں کے لیے آتے ہیں‘برطانوی سپیشل فورسز نے افغانستان میں غیر مسلح افراد کو قتل کیا: بی بی سی کی تحقیقاتی رپورٹڈیٹنگ ایپ، نقاب اور نائن ایم ایم پستول: برطانیہ میں پاکستانی خاندان نے بدلہ لینے کے لیے کیسے امریکی خاتون کی خدمات لیںمبینہ جنگی جرائم کی تحقیقات: ’برطانیہ کی سپیشل ایئر سروس کو افغانستان میں قتل کرنے کی کھلی چھوٹ تھی‘