’ہم دونوں ماں بیٹی ابھی اپنے رشتہ داروں کے گھر کے پاس ہی پہنچی تھیں کہ ایک زوردار آواز آئی۔ یکدم روشنی ختم ہو گئی اور بارش اس قدر برسی جیسے آسمان ٹوٹ پڑا ہو۔ ایک طوفان میرے گھر کی طرف آ رہا تھا۔‘
یہ الفاظ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی رہائشی 48 سالہ سکینہ بی بی کے ہیں جن کے خاندان کے چھ افراد کلاؤڈ برسٹ یعنی بادل پھٹنے سے بارشوں اور سیلابی ریلے میں بہہ گئے۔ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں حکام کے مطابق حالیہ بارشوں اور کلاؤڈ برسٹ سے 13 ہلاکتیں ہوئی ہیں۔
کشمیر کی سٹیٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی رپورٹ کے مطابق 350 مکانات متاثر ہوئے جن میں 79 مکمل تباہ اور 271کو جزوی طور پر نقصان پہنچا ہے۔
ان میں سے ایک گھر سکینہ بی بی کا تھا جن کے خاندان میں اب کوئی مرد نہیں رہا۔ اس کلاؤڈ برسٹ میں صرف ایک گھر ہی نہیں بلکہ ایک نسل مٹی میں دفن ہو گئی ہے۔
پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد سے 50 کلومیٹر دور پہاڑی علاقہ سرلی سچہ میں آنے والی اس تباہی کے نتیجے میں سکینہ بی بی کا بیٹا نوید، سات سالہ پوتا اور خاندان کے دیگر چار افراد زندگی کی بازی ہار گئے۔
اس المناک حادثے میں صرف سکینہ بی بی اور ان کی بیٹی زندہ بچے کیونکہ وہ اس کلاؤڈ برسٹ کے وقت اپنے رشتہ داروں کے ہاں موجود تھیں۔
سکینہ بی بی گاؤں نڑیاں کی رہائشی ہیں۔ ان کے شوہر دو سال قبل وفات پا چکے ہیں۔ ان کا ایک ہی بیٹا نوید اور سات سالہ پوتا اس خاندان کے مرد تھے۔
’ملبے سے میرے گھر کے چھ افراد کو نکال کر میرے سامنے رکھ دیا گیا‘
سکینہ بی بی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’میری تو دنیا ہی ختم ہو گئی، اب زندہ رہنا میرے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا۔ سب نے ہی جانا ہے مگر جس طرح میرا خاندان ختم ہو گیا، یہ صدمہ مجھے اب جینے نہیں دے گا۔‘
کلاؤڈ برسٹ کی وجہ سے ہونے والی اس تباہی کا ذکر کرتے ہوئے سکینہ بی بی کا کہنا تھا کہ جمعرات کے روز شام چار بجے کا وقت تھا ’میرا بیٹا نوید بارش میں بھیگا ہوا گھر واپس آیا اور کہاکہ ’اماں، مجھے ایک کپ چائے اپنے ہاتھ سے بنا کر دے دیں‘۔‘
’میں نے چائے بنانا شروع کی تو دیکھا کہ میرے گھر میں چینی نہیں ہے۔ تو میں اپنے پڑوس میں رشتہ دار کے گھر چینی لینے نکلی۔ میری بیٹی آمنہ بھی میرے ساتھ آ گئی۔‘
’طوفان آتے دیکھ کر بیٹی آمنہ سے کہا بھائی کو آواز دو، اپنی اور بچوں کی جان بچا کر نکلے مگر طوفان کا شور اتنا تھا کہ وہاں کسی کی آواز نہیں آ رہی تھی۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ ’دیکھتے ہی دیکھتے چند سیکنڈ میں طوفان میرے گھر کو ساتھ بہا کر لے گیا۔ میرا گھر اس طوفان میں ملیا میٹ ہو گیا جس میں میرا بیٹا، میری بہو اور ان کے چار بچے موجود تھے۔‘
’اپنے بچوں کو ان بے رحم موجوں کے حوالے کیسے کرتی اسی لیے گھر کی طرف قدم بڑھانے کی کوشش کی مگر میرا جسم ساتھ نہیں دے رہا تھا۔ میرے قدم زمین کے ساتھ چپک چکے تھے، میرا دماغ سن ہو گیا تھا۔‘
اُن کے بقول جب وہ کچھ وقت گزرنے کے بعد اپنا گھر دیکھنے نکلیں تو وہاں کچھ نہیں تھا اور ایک بڑا سیلابی ریلہ اس جگہ سے گزر رہا تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’پوری رات کی تلاش کے بعد پتھروں اور ملبے سے میرے گھر کے چھ افراد کو نکال کر میرے سامنے رکھ دیا گیا۔‘
’میرا بیٹا، جو مجھ سے آخری بار چائے مانگ رہا تھا، میں وہ بھی نہ دے سکی۔ مجھے کیا پتہ تھا، میرا بیٹا چائے پئے بغیر ہی مجھے چھوڑ جائے گا۔‘
’چند سیکنڈ میں سب کچھ ختم ہوتے دیکھا‘
زندہ بچ جانے والی سکینہ بی بی کی بیٹی آمنہ اس واقعے کے بعد خوفزدہ ہیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ ’تیز بارش آئی اور ہمارا گھر دب گیا گھر کے سب لوگ دب گئے۔ اب میں اور اماں اکیلے رہ گئے ہیں۔‘
اس المناک حادثے میں ہلاک ہونے والوں کی اگلے روز سرلی سچہ میں ایک ساتھ نمازِ جنازہ ادا کی گئی۔
نمازِ جنازہ میں شریک گاؤں کے رہائشی قاسم احمد نے بتایا یہ واقعہ اس علاقے کے لیے انتہائی دردناک ہے یہاں جب ایک ساتھ چھ جنازے ادا کیے گئے تو ہر فرد افسردہ تھا۔ اس گھر کے تمام افراد ہلاک ہو گئے صرف ایک خاتون اور ان کی دو بیٹیاں زندہ بچی ہیں، جن میں سے ایک شادی شدہ ہے۔
انھوں نے بتایا کہ اس خاندان کے تمام مرد ختم ہو چکے ہیں۔
’یہ صرف چھ اموات نہیں، بلکہ ایک نسل کا خاتمہ ہے۔ کہا سنا تھا کہ چند سیکنڈ میں سب کچھ ختم ہو جاتا ہے، اب ہم نے اپنی آنکھوں سے چند سیکنڈ میں سب کچھ ختم ہوتے دیکھا ہے۔‘
’گذشتہ سالوں میں موسم مکمل طور پر بدل چکا ہے‘
اسی گاؤں کے ایک اور رہائشی اور سکول ٹیچر راجہ محمد صادق نے بتایا: ’یہ علاقہ برسوں سے آباد ہے، مگر اس سے پہلے ایسے موسم کبھی نہیں دیکھے گئے گذشتہ تین چار سال سے موسم مکمل طور پر بدل چکا ہے۔ کبھی اچانک خوفناک بارشیں ہوتی ہیں، تو کبھی بالکل خشک سالی ہو جاتی ہے۔‘
’جب بارشیں ہوتی ہیں، تو اس قدر خطرناک ہوتی ہیں کہ جانی و مالی نقصان ہو جاتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا ’ہماری اس وادی، کوٹلہ میں اس مرتبہ کئی مقامات پر نالوں میں شدید طغیانی آئی۔ پل ٹوٹ گئے، سکول، دکانیں اور گھر تباہ ہوئے، کئی ایکڑ زرعی زمین ختم ہو گئی۔‘
چونکہ دیہی علاقوں میں لوگوں کا گزر بسر انھی زمینوں سے ہوتا ہے، اب جب یہ زمینیں نہیں رہیں تو لوگ مزید مشکلات کا شکار ہوں گے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’ایسے موسم دیکھ کر اب خوف آتا ہے۔ بچے اتنے ڈر گئے ہیں کہ ہلکی سی بارش میں بھی سہم جاتے ہیں۔‘
وادی کوٹلہ میں حالیہ بارشوں میں مچھیارہ اور بھیڑی نالہ میں بھی شدید طغیانی آئی جس کی وجہ سے آٹھ دکانیں، ایک سکول اور ایک پل ٹوٹ گیا۔
صادقہ بالا کے مقام پر پل ٹوٹنے سے 50 ہزار افراد کی آبادی کا زمینی رابطہ کٹ چکا ہے۔
دیہی رابطہ سڑکیں بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہیں۔
وادی کوٹلہ سے ممبر اسمبلی جاوید ایوب نے بتایا کہ بارشوں سے جانی و مالی نقصانات زیادہ ہوئے ہیں۔ خاص طور پر پل ٹوٹنے سے ایک بڑی آبادی کا زمینی رابطہ کٹ گیا تھا جسے عارضی طور پر سنیچر کے روز بحال کیا گیا ہے اور ابھی صرففور بائی فور گاڑیاں ہی اس سے گزر سکتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ قدرتی آفات ہیں، کسی فرد کے اختیار میں نہیں تاہم لوگوں کو خود احتیاط کرنا ہو گی۔ بارش کے دوران سفر نہ کیا جائے اور خطرناک جگہوں پر رہائش سے اجتناب کیا جائے۔‘
خیبر پختونخوا میں سیلاب کی تباہ کاری سے ہلاکتیں 300 سے زائد: ’گھر والوں سے فون پر کہا کہ گھر سے نکل جاؤ مگر جب وہاں پہنچا تو کُچھ باقی نہیں بچا تھا‘دریائے سوات کے سیلابی ریلے میں بہہ جانے والا خاندان: ’میں پاگلوں کی طرح فون ملاتا رہا لیکن بیوی بچوں سے رابطہ نہ ہوسکا‘اسلام آباد: ڈی ایچ اے میں والد کے ساتھ بہہ جانے والی لڑکی کی تلاش کا عمل ختم کرنے کا فیصلہ، غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کر دی گئیپاکستان اور انڈیا سمیت دنیا بھر میں ’فضا میں اڑتے دریا‘ جو تباہیوں کا باعث بن رہے ہیںخیبر پختونخوا میں 300 سے زیادہ ہلاکتیں: ’ایسا لگا جیسے زلزلہ آیا ہو‘
ادھر خیبرپختونخوا میں پی ڈی ایم اے کے مطابق صوبے کے مختلف اضلاع میں جمعرات کے رات شروع ہونے والی بارشوں اور سیلابی ریلوں کے باعث مختلف حادثات میں اب تک 314 افراد ہلاک اور 156زخمی ہوئے ہیں۔
ضلع مانسہرہ اور بٹگرام کے سرحدی علاقے میں پہاڑ کے اوپر شدید بارش ہوئی، اس مقام پر صرف نو مکان اور ان مکانوں میں جوائنٹفیملی سسٹم کے تحت کئی خاندان رہائش پذیر ہیں۔ جمعے کی راتبارش کافی شدید تھی۔
یوسف اور مختار کے گھر ایک دوسرے کے آگے پیچھے ہیں۔ یہ ایک دوسرے کے رشتہ دار بھی ہیں اور دونوں گھروں میں جوائنٹ فیملی سسٹم ہے۔
مختار کہتے ہیں کہ ’میں نے اور یوسف نے ایسی بارش کا کم ہی مشاہدہ کیا تھا۔ ہم دونوں جاگ رہے تھے۔ دونوں گھروں میں موجود بچے اور خواتین سو چکے تھیں۔ ایسے میں وہ ہی ہوا جس کا خدشہ تھا کہ رات کے تین بجے یکم دم ہی تیز سیلابی ریلہ آیا۔‘
’مجھے ایسے لگا کہ جیسے زلزلہ آ گیا ہو کیونکہ پانی کے ریلے میں موجود ملبہ جس میں بڑے بڑے پتھر تھے آکر میرے مکان سے ٹکرائے۔‘
’گھر میں موجود بچے اور خواتین ڈر کر جاگ گے تھے۔ میں نے فورا سب کو اکٹھا کیا اور مکان کے ایک ایسے کونے میں لے گیا جہاں پر مجھے لگتا تھا کہ وہ محفوظ رہ سکتے ہیں۔‘
پانی کے اس خوفناک ریلے نے گزرنے میں تقریباً آدھا گھنٹہ لیا۔
مختار کے مطابق ’گھر رہائش کے قبل نہیں رہا اور ساز و سمان پانی میں بہہ گیا۔‘ مگر اس لحاظ سے خوش قسمت رہےکہ ان کے گھرانے میں کوئی جانی نقصاں نہیں ہوا۔
مگر یوسف اتنے خوش قسمت ثابت نہیں ہوئے۔ اس پانی کے ریلے میں ان کےبیٹے، پوتے، پوتیاں، گھر کی بہوؤں سمیت 17 افراد ہلاک ہو گئے جبکہ ان کے گھر میں بٹگرام سے آئے ہوئے تین مہمان جو کہ رشتے میں ان کی بھتیجی، اس کا خاوند اور بچہ شامل تھا، اس پانی میں بہہ گئے ہیں۔ خود یوسف کو بھی پانی بہا کر لے گیا مگر وہ بچ گئے تھے۔
BBC
یوسف یاد کرتے ہیں کہ وہ خوفناک آوازیں سننے پر نیند سے بیدار ہوئے تھے۔ ’اٹھا تو دیکھا کہ سارے مکان میں پانی بھر چکا ہے اور بھاری پتھر پڑے ہیں۔‘
’اپنے گھر والوں کو آوازیں دیتا آگے بڑھ رہا تھا مگر کوئی جواب نہیں دے رہا تھا۔‘ وہ بتاتے ہیں کہ اس کے بعد پانی کا تیز بہاؤ انھیں بھی بہا لے گیا تھا۔
وہ ایک پتھر کے ساتھ لگ کر رُکے تو کچھ لوگوں نے ان کی مدد کی اور انھیں بچا لیا۔
Getty Images
مختار کہتے ہیں کہ ’جب سیلابی ریلا میرے مکان سے ٹکرایا تو اس وقت ایسے لگا تھا کہ جیسے زلزلہ ہو۔ در ودیوار ہل گئے تھے۔ شاید یہ اس وجہ سے تھا کہ بھاری ملبہ جس میں پتھر تھے وہ مکان سے ٹکرائے تھے۔ جس سے ساری دیواریں ٹوٹ گئیں تھیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے بچوں اور خواتین کو مکان کے پچھلے حصے میں اکٹھا کیا۔ پانی سارے گھر میں تھا۔ پچھلا حصہ کچھ اوپر تھا وہاں پر پانی کم تھا۔ گھر کا سامان پانی میں بہہ رہا تھا۔ ہم لوگ اس وقت کلمے اور قران پاک کی تلاوت کرتے رہے تھے۔‘
مختار کا کہنا تھا کہ ’شدت کے ساتھ سیلابی ریلا آدھے گھنٹہ تک چلتا رہا اور اس کے بعد مزید چالیس منٹ تک پانی کم ہوا تو میں باہر نکلا اور دیکھا کہ یوسف کے گھر کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔
’میرے گھر کا صرف ایک حصہ جہاں ہم محفوظ تھے۔ کچھ بچا تھا، باقی ایسے لگتا تھا کہ یہاں پر کبھی کوئی تعمیرات تھی ہی نہیں۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ یوسف کے اہل خانہ کی تلاش شروع کی گئی مگر کسی کا کچھ پتا نہ چل سکا۔
اربن فلڈنگ سے جانی اور مالی نقصانت: بچاؤ کیسے مُمکن ہے؟اسلام آباد: ڈی ایچ اے میں والد کے ساتھ بہہ جانے والی لڑکی کی تلاش کا عمل ختم کرنے کا فیصلہ، غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کر دی گئیبابو سر ٹاپ پر جاری ریسکیو اور تلاش کا آپریشن ختم، آٹھ لاپتہ سیاحوں کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کر دی گئیپانی خاموشی سے آیا اور سب کچھ اجاڑ گیا: ’قیامت خیز طوفان‘ جس نے امریکی ریاست ٹیکساس کو ہلا کر رکھ دیا