خیبر پختونخوا میں سیلاب کی تباہ کاریاں: بونیر میں ریلیف کے لیے این او سی لازمی قرار

اردو نیوز  |  Aug 20, 2025

خیبر پختونخوا کے بالائی علاقوں میں سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد ریسکیو آپریشن آخری مراحل میں داخل ہو چکا ہے جبکہ متاثرہ علاقوں میں ریلیف سرگرمیاں زور شور سے جاری ہیں۔ سیلاب سے صوبے کے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ضلعے بونیر میں متاثرہ افراد کو ریلیف دینے کے لیے بڑے پیمانے پر عطیات اور امداد پہنچائی جا رہی ہے جس میں حکومتی اداروں کے ساتھ نجی اور غیرملکی ادارے بھی حصہ لے رہے ہیں۔

بونیر کے متاثرہ گاؤں کی امداد کے لیے ملک بھر میں عطیات جمع کرنے کے لیے کیمپ بھی لگائے گئے ہیں جبکہ سیلاب متاثرہ افراد کے کھانے پینے کے لیے امدادی سامان بھیج دیا گیا ہے جو مقامی رضاکار تنظیموں کے ساتھ مل کر تقسیم کیا جا رہا ہے۔ امدادی تقسیم کرنے کے لیے اجازت نامہ لازمی قراربونیر کی ضلعی انتظامیہ نے سماجی تنظیموں، این جی اوز اور ڈونرز کو پابند کیا ہے کہ وہ ریلیف کا سامان تقسیم کرنے کے لیے اے ڈی سی سے اجازت نامہ لازمی حاصل کریں۔اس سلسلے میں ریلیف کی سرگرمیوں کے لیے متعلقہ حکام سے منظوری لینا پڑے گی، حکام کے مطابق ادارے کی جانچ پڑتال کے بعد انہیں متاثرہ علاقوں میں امداد تقسیم کرنے کی اجازت دی جائے گی۔ فلاحی ادارے کے لیے ڈسٹرکٹ سوشل ویلفیئر سے اتھارٹی لیٹر، امدادی سامان کی فہرست اور سماجی بہبود تنظیمی آرڈیننس 1961 کے تحت این او سی حاصل کرنا ضروری ہے۔ ضلعی انتظامیہ کا موقفایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریلیف سید اکرم شاہ کا موقف ہے کہ بونیر میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے اور تاحال لاپتا افراد کی تلاش کے لیے ریسکیو آپریشن جاری ہے۔ اس صورت حال میں امدادی سرگرمیوں کے انتظامات میں شفافیت کے لیے این او سی کو مشروط کردیا گیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ سرکاری اور غیر سرکاری ادارے ریلیف کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں جبکہ دیگر ادارے بھی امداد دینے کے لیے متاثرہ علاقوں کا رُخ کر رہے ہیں۔ ’امدادی سرگرمیوں کے دوران بدانتظامی سے بچنے کے لیے انتظامیہ سے این او سی حاصل کرنا ضروری ہے تاکہ امدادی سامان مستحق افراد تک پہنچ سکے۔‘ اے ڈی سی ریلیف سید اکرم شاہ کا کہنا ہے کہ این او سی کا مقصد ہرگز فلاحی اداروں پر اعتراض نہیں بلکہ وہ ایک طریقہ کار کے تحت ریلیف کا مرحلہ مکمل کرنا چاہتے ہیں۔کن متاثرہ علاقوں میں امداد کی ضرورت ہے؟ ضلع بونیر، سوات، شانگلہ اور صوابی میں ریلیف کا کام جاری ہے، تاہم ان میں کچھ ایسے مقامات بھی ہیں جہاں امدادی سامان پہنچانے میں تاخیر ہوئی۔ان علاقوں میں بونیر اور شانگلہ کے دُورافتادہ گاؤں شامل ہیں جہاں سڑکوں کی بندش کی وجہ سے رسائی مشکل ہے۔ بونیر کے رضاکار حمید اللہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ بشونئی اور قادرنگر میں متعدد خاندان سرکاری امداد سے محروم ہیں، تاہم این جی اوز کی جانب سے ریلیف ان تک پہنچا دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ الخدمت فاؤنڈیشن کی جانب سے ہر متاثرہ فرد تک امداد پہنچ رہی ہے، تاہم ابھی بھی کئی افراد امداد کے منتظر ہیں۔ متاثرہ افراد کو کن چیزوں کی ضرورت ہے؟رضاکار حمید اللہ کے مطابق بہت سارے فلاحی ادارے اور سماجی تنظیمیں کھانے پینے کی اشیا تقسیم کر رہے ہیں۔ ضرورت سے زیادہ اشیا کی تقسیم سے خوراک ضیاع ہو رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ متعدد خاندانوں کے گھر مکمل طور پر تباہ ہو گئے ہیں، ان افراد کے پاس پہننے کو کپڑے اور جُوتے تک نہیں ہیں۔’متاثرہ افراد کو پینے کے پانی کی ضرورت ہے کیونکہ سیلاب کی وجہ سے متعدد واٹر چینل سیلاب میں بہہ چکے ہیں۔ اس لیے انہیں پانی فراہم کیا جائے، جبکہ بعض علاقوں میں ادویات کی بھی ضرورت ہے۔‘ دوسری جانب خیبر پختونخوا کے وزیر برائے ریلیف نیک محمد نے ریلیف کے کاموں میں تیزی کے ساتھ ساتھ شفافیت کا خیال رکھنے پر زور دیا ہے جائے تاکہ متاثرہ افراد امداد سے محروم نہ رہ سکیں۔ان کا کہنا ہے کہ اس وقت صوبے کے سیلاب سے متاثرہ تمام اضلاع میں ریلیف کے کام جاری ہیں، پی ڈی ایم اے اور دیگر ادارے حکومت کی سرپرستی میں امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔دوسری جانب پی ڈی ایم اے نے وزیراعلٰی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی ہدایت پر متاثرہ اضلاع کو 89 ٹرکوں پر مشتمل امدادی سامان بھجوا دیا ہے۔ امدادی سامان میں خیمے، گدے، بستر، کچن سیٹس، ترپال، چٹائیاں، مچھر دانیاں، جنریٹرز اور روزمرہ استعمال کی دیگر اشیا شامل ہیں۔ صوبائی حکومت کی ہدایت پر پی ڈی ایم اے کی جانب سے متاثرہ اضلاع کی ضلعی انتظامیہ کو 80 کروڑ روپے کے فنڈز جاری کیے گئے ہیں۔ پی ڈی ایم اے کے مطابق صوبے کے سب سے زیادہ متاثرہ ضلعے بونیر کی انتظامیہ کو بھی 50 کروڑ روپے کا امدادی فنڈ دیا گیا ہے۔واضح رہے کہ سیلاب سے خیبر پختونخوا میں مجموعی طور پر 385 افراد جان کی بازی ہار گئے ہیں جبکہ 185 زخمی ہوئے ہیں۔ سیلاب کی وجہ سے 1398 گھر مکمل طور پر تباہ ہو گئے ہیں۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More