اس تحریر میں موجود تفصیلات کچھ قارئین کے لیے تکلیف دہ ہو سکتی ہیں۔
پھلوں کے کچھ ٹھیلے ہیں جن پر آم اور کیلے رکھے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ اسی مقام پر درجنوں افراد بھی کھڑے ہیں اور ان کے بیچ میں خون میں لت پت سرخ شلوار قمیض میں ملبوس ایک شخص اپنے زخمی بھائی کا سر گود میں رکھے بے بسی کی حالت میں بیٹھا ہوا ہے۔
ویڈیو میں نظر آنے والے دونوں ہی افراد شدید زخمی ہیں لیکن پھر بھی سر پر اُلٹی کیپ پہنا ہوا شخص کرکٹ بیٹ سے سُرخ شلوار قمیض پہنے شخص کے سر پر وار پر وار کیے جا رہا ہے۔
اس تشدد کے نتیجے میں دونوں بھائی راشد اور واجد ہلاک ہو گئے لیکن رائیونڈ میں ہونے والے یہ قتل کسی خاندانی دشمنی یا دیرینہ تنازع کا شاخسانہ نہیں تھے۔
اس بیہمانہ تشدد اور قتل کی وجہ چند منٹوں پر محیط بحث اور 30 روپے تھے۔
یہ واقعہ کب اور کیسے پیش آیا؟
دُوہرے قتل کا یہ مقدمہ راشد اور واجد کے والد سعید اقبال کی مدعیت میں اویس اور تیمور نامی دو بھائیوں کے خلاف تھانہ رائیونڈ سٹی میں درج کیا گیا۔
ایف آئی آر کے مطابق سعید اقبال نے پولیس کو بتایا کہ 21 اگست کو ان کے دودھ کے کاروبار سے منسلک بیٹے راشد اور واجد گھر واپس آ رہے تھے کہ راستے میں بھمبہ کے علاقے میں پھل خریدنے کے لیے رُک گئے، جہاں ان کا پھل کی ریڑھی کے مالک اویس اور ان کے بھائی تیمور سے جھگڑا ہوا۔
سعید اقبال کہتے ہیں کہ ان کے بیٹوں پر اویس، تیمور اور ان کے نامعلوم ساتھیوں نے ڈنڈوں اور کرکٹ بیٹ سے وار کیے جس کے نتیجے میں دونوں ہلاک ہوگئے۔
ایس پی انویسٹیگیشن صدر معظم علی نے بتایا کہ اس معاملے کے دونوں نامزد ملزمان کو پولیس نے گرفتار کر لیا ہے اور اس کی مزید تفتیش کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ یعنی سی سی ڈی کے حوالے کر دی گئی ہے۔
’ایسا کبھی دشمن کے بچوں کے ساتھ بھی نہ ہو‘
سعید اقبال ضلع قصور کے علاقے کوٹ رادھا کشن کے گاؤں رتی پنڈی کے رہائشی ہیں اور راشد اور واجد سمیت ان کے سات بیٹے اور ایک بیٹی ہیں۔
وہ اپنے دو جواں سال بیٹوں کی موت پر شدید رنجیدہ ہیں۔ انھوں نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ان کا تعلق میو برادری سے ہے اور وہ دودھ کی فروخت کے کاروبار سے منسلک ہیں۔
وہ کہتے ہیں جب یہ واقعہ پیش آیا اس وقت ان کے دونوں بیٹے برکی روڈ پر واقع اپنی دُکان پر دودھ پہنچا کر گھر واپس جا رہے تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’میرے ایک بیٹے کی زندگی کی قیمت 15 روپے پڑی، دونوں شیر جوان بیٹے 30 روپے کی خاظر مار ڈالے گئے۔ ایسے تو کوئی جانوروں کو بھی نہیں مارتا جیسے انھوں نے میرے بیٹے کو مارا۔‘
’ایک شخص ان کو بار بار کرکٹ بیٹ سے مارتا رہا اور قریب کھڑے لوگ موبائل فونز سے ویڈیوز بناتے رہے، یہ کیسا معاشرہ ہے؟ کسی نے اس کو روکنے کی کوشش نہیں کی۔‘
سعید اقبال نے دعا کرتے ہوئے مزید کہا کہ ’خدا کرے ایسا کبھی کسی دشمن کے بچوں کے ساتھ بھی نہ ہو۔‘
قدموں کے نشانات سے ملزموں کی شناخت کرنے والے ’کھوجی‘: قتل کی واردات جس میں ’کھرا‘ مقتولہ کے شوہر کی حویلی پر جا رکاوہ گاؤں جہاں سینکڑوں شوہر اپنی بیویوں کے ہاتھوں قتل ہوئےراولپنڈی میں ’غیرت‘ کے نام پر خاتون کا قتل: لاش قبرستان پہنچانے والا رکشہ ڈرائیور وعدہ معاف گواہ بن گیاقتل ہونے والی چھوٹی بہن کی مٹھی میں موجود بال، جن کی مدد سے پولیس مبینہ قاتل بڑی بہن تک پہنچی
مقتول لڑکوں کے بھائی ساجد اس دُوہرے قتل کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ لوگوں اور پولیس سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق یہ جھگڑا بحث و تکرار سے شروع ہوا تھا۔
’واجد اور راشد جس ریڑھی سے کیلے لینے رُکے تھے وہ اویس کی ملکیت تھی جبکہ اس کے قریب ہی اس کے بھائی تیمور کی بھی ریڑھی موجود تھی۔‘
ساجد کہتے ہیں کہ ’اویس نے ایک درجن کیلوں کے عوض 130 روپے مانگے، راشد نے اسے کہا کہ ان کے پاس صرف 100 روپے ہیں اور اس کے علاوہ پانچ، پانچ ہزار کے بڑے نوٹ ہیں۔ اویس نے کہا کہ وہ ایک درجن کیلے 100 روپے میں ہی لے جائیں۔‘
ساجد کے مطابق تیمور نے یہ بات سُن کر بد زبانی شروع کر دی جس پر ان کے بھائیوں نے کہا کہ ’تمہیں گالی دینے کا کوئی حق نہیں۔‘
راشد اور واجد کے بھائی نے مزید بتایا کہ تلخ کلامی کے بعد اویس اور تیمور نے ان پر کرکٹ بیٹ اور ڈنڈوں سے حملہ کر دیا۔
’وہاں موقع پر 250، 300 لوگ موجود تھے، میں تو ان کو مردہ ہی کہوں گا۔ کسی میں انسانی حِس نہیں تھی کہ اگر کوئی ناجائز کام کر رہا ہے تو اُسے روکیں۔‘
صدر سرکل کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس انویسٹیگیشن معظم علی نے بی بی سی کے نامہ نگار عمر دراز ننگیانہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ معاملہ پیسوں ہی سے شروع ہوا۔
معظم علی کے مطابق دونوں مقتول بھائیوں نے پھل خریدے تو ان کے پاس پیسوں کی ادائیگی کے لیے ایک پانچ ہزار اور دوسرا 100 روپے کا نوٹ تھا۔
’پھل فروش نے ان سے کہا کہ آپ 30 روپے کھلے دے دیں۔ انھوں نے کہا ان کے پاس نہیں ہیں تو اس نے کہا کہ پھر 30 روپے کے کیلے واپس نکال دیں۔ اس پر دونوں بھائیوں نے غیر مناسب زبان استعمال کرتے ہوئے کہا کہ اگر نکالنے ہی تھے تو ڈالے کیوں تھے۔‘
ایس پی انویسٹیگیشن صدر معظم علی نے بتایا کہ اس کے بعد دونوں پارٹیوں میں گالم گلوچ شروع ہوئی اور بات لڑائی جھگڑے تک آ گئی۔
’پہلے دونوں مقتول بھائیوں نے مل کر پھل فروش کو مارا پیٹا۔ جب بات زیادہ بڑھی تو قریب کی ریڑھی والوں نے ٹیلی فون کر کے پھل والے کے بھائیوں کو بلا لیا۔ وہ بھی آ گئے اور اردگرد کی ریڑھیوں والے بھی ساتھ مل گئے اور پھر انھوں نے دونوں بھائیوں کو مارا۔‘
ایس پی معظم علی کے مطابق بعد میں آنے والوں نے ڈنڈوں وغیرہ سے دونوں بھائیوں کو مارا جس کی وجہ سے ان کے سروں پر شدید چوٹیں آئیں، ان کو زخمی حالت میں ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ دونوں دم توڑ ہو گئے۔
خاندان کو راشد اور واجد پر تشدد کی اطلاع کس نے دی؟
مقتول بھائیوں کے والد سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیو کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’آپ واقعے کے بعد منظرِ عام پر آنے والی ویڈیوز میں دیکھ سکتے ہیں کہ واجد اپنے بھائی راشد کو گود میں لٹائے اسے پانی پلانے کی کوشش کر رہا ہے اور اسی دوران ایک شخص اس کے کان پر موبائل فون لگانے کی کوشش کر رہا ہے۔‘
سعید اقبال کہتے ہیں اسی شخص نے ان کے بیٹے سے گھر کا نمبر لیا اور ان کے معذور بیٹے آصف کو فون کر کے اس واقعے کی اطلاع دی۔
’مجھے جب اس واقعے کی اطلاع ملی تو میں دُکان کھلی چھوڑ کر موٹر سائیکل پر وہاں پہنچا اور کچھ ہی دیر میں ہمارے باقی رشتہ دار بھی وہاں پہنچ چکے تھے۔‘
سعید اقبال کہتے ہیں کہ وہ ایک ایمبولینس کے ذریعے اپنے بچوں کو رائیونڈ ہسپتال لے کر پہنچے تاہم ان کا دعویٰ ہے کہ ڈاکٹروں نے ان کو بتایا کہ ان کے بیٹوں کے سر پر شدید چوٹیں آئی ہیں اور یہ ’ہمارا کیس نہیں، اس لیے انھیں لاہور جنرل ہسپتال لے جائیں۔‘
’لوگ کہتے ہیں کہ میرا ایک بیٹا راشد موقع پر ہی دم توڑ چکا تھا لیکن دوسرے بیٹے واجد کی جان تو یقینی طور پر بچائی جا سکتی تھی۔ وہ جلد طبی امداد نہ ملنے اور ایک سے دوسرے ہسپتال منتقل کیے جانے کے سبب چل بسا۔‘
پولیس کے مطابق مقتولین کو ابتدائی طبی امداد پہنچانے میں تاخیر ضرور ہوئی تاہم اس بات کا تعین بعد کی تفصیلی تفتیش کرے گی کہ یہ تاخیر کتنی دیر کی ہوئی۔
'لوگ اُسے لِٹل میکسویل کہتے تھے'
مقتولین کے بھائی ساجد اپنے بھائیوں کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ واجد ان سے چھوٹے اور سب کے لاڈلے تھے۔
’واجد کرکٹر تھے اور مختلف کرکٹ کلبز کے لیے کھیلتے تھے۔ لوگ انھیں مختلف ٹورنامنٹس میں شرکت کے لیے لے جاتے تھے اور 10، 15 ہزار روپے بھی دیتے تھے۔‘
ساجد کا کہنا ہے کہ ان کے بھائی کا کھیلنے کا انداز آسٹریلوی کرکٹر گلین میکسویل سے ملتا تھا اور اسی لیے لوگ انھیں لِٹل میسکویل کہتے تھے۔
دوسرے بھائی راشد کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ان کے بڑے بھائی کی عمر 28 برس تھی اور وہ چار بچوں کے باپ تھے۔
’نجانے کیوں اپنوں نے گھر اُجاڑ دیا‘: نوشہرہ میں ادھار پر شروع ہونے والی تلخ کلامی جو تین سگے بھائیوں کے قتل پر ختم ہوئیجادو ٹونے کے الزام میں ایک ہی خاندان کے پانچ افراد کو قتل کرنے کا واقعہ جس نے پورے انڈیا کو ہلا کر رکھ دیاسرگودھا میں احمدی ڈاکٹر کا قتل: ’دھمکیاں ملنے کے باوجود وہ لوگوں کی خدمت میں مصروف رہتے تھے‘انڈیا کے ایک مندر میں ’ریپ کے بعد قتل ہونے والی 100 سے زیادہ لڑکیوں کو دفن کرنے والا‘ شخص گرفتارکیمسٹری آن ٹرائل: خاتون پروفیسر نے کیسے عدالت کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ انھوں نے اپنے شوہر کا قتل نہیں کیا