ٹرمپ کے ’عظیم دوست‘: انڈیا میں امریکہ کے نئے نامزد سفیر کو ’نئی دہلی کے چہرے پر طمانچہ‘ کیوں قرار دیا جا رہا ہے؟

بی بی سی اردو  |  Sep 01, 2025

Getty Imagesگور کی عمر 39 سال ہے اور وہ انڈیا میں سب سے کم عمر امریکی سفیر ہوں گے

انھوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کی لکھی کئی کتابیں شائع کیں، سنہ 2024 کی صدارتی مہم کے لیے لاکھوں ڈالر جمع کیے اور امریکی صدر کے دوسرے دور صدارت کے دوران واشنگٹن میں وفادار ساتھیوں کو بھرتی کروایا۔

اب یہی شخصیت یعنی سرجیو گور انڈیا میں ٹرمپ کے دائیں ہاتھ بننے جا رہے ہیں۔ وہ وہاں انڈیا کے علاوہ جنوبی و وسطی ایشیا کے کئی ملکوں کے ساتھ امریکی تعلقات کی نگرانی کریں گے۔

گذشتہ ہفتے ٹرمپ نے سرجیو گور کو انڈیا میں امریکی سفیر نامزد کیا ہے۔ انھوں نے گور کو ’عظیم دوست‘ قرار دیا جن پر انھیں ’مکمل اعتماد‘ ہے اور جو اُن کا ایجنڈا آگے بڑھا سکتے ہیں۔

38 سالہ گور ایک ایسے وقت میں انڈیا کے لیے امریکی سفیر بنے ہیں جب دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں کیونکہ ٹرمپ نے انڈیا پر بھاری ٹیرف عائد کیے ہیں۔

گور کی تعیناتی پر انڈیا میں ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے۔ کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ باہمی تعلقات کے لیے یہ بہتر ہے کہ ایسا شخص آئے جو ٹرمپ کا قریبی ساتھی ہو۔ لیکن بعض نے ٹرمپ کے فیصلے پر سوال اٹھایا کہ انڈیا کے نئے امریکی سفیر اب دیگر جنوبی و وسطی ایشیائی ملکوں پر بھی نظر رکھیں گے، خاص کر پاکستان جس کے ساتھ انڈیا کا سفارتی بحران جاری ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ گور کو دیے جانے والے وسیع علاقائی مینڈیٹ سے واشنگٹن نے انڈیا کو پاکستان کے ساتھ جوڑا ہے۔

واشنگٹن میں امریکی خارجہ پالیسی پر نظر رکھنے والے تھنک ٹینک ’کونسل آف فارن ریلیشنز‘ سے منسلک الیسا ایئرز کا کہنا ہے کہ ’خصوصی ایلچی کا اضافی عہدہ ممکنہ طور پر کچھ چیلنجز پیدا کرے گا، کم از کم انڈیا میں۔ انڈیا عام طور پر پاکستان کے ساتھ جوڑے جانے کو ترجیح نہیں دیتا۔‘

وائٹ ہاؤس کے سابق سینیئر اہلکار اور امریکی فارن پالیسی کونسل سے منسلک لارینس ہاس کا کہنا ہے کہ ہو سکتا ہے ٹرمپ نے دلی کو اشارہ دیا ہو کہ وہ نہیں سمجھتے انڈیا میں امریکی سفیر کا ہونا ایک ’فُل ٹائم جاب‘ ہے۔

ہاس نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں تصور کر سکتا ہوں کہ انڈین قیادت تضحیک محسوس کرے گی۔ یہ انڈیا اور امریکہ کے تعلقات میں مزید خرابی کا باعث بن سکتا ہے۔‘

’گور کا سفارتی اور علاقائی تجربہ محدود ہے‘Getty Imagesٹرمپ کی جانب سے انڈیا پر ٹیرف عائد کیے جانے کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات سردمہری کا شکار ہیں

انڈیا کو 2009 میں ایسی ہی صورتحال کا سامنا تھا جب اطلاعات کے مطابق اوباما انتظامیہ نے رچرڈ ہولبروک کو پاکستان، افغانستان اور انڈیا کے لیے خصوصی ایلچی نامزد کرنے پر غور کیا تھا۔

تاہم اوباما کے مقابلے ٹرمپ مختلف طریقے سے کام کرتے ہیں۔

اپنے پیشرو کی جانب سے احتیاط برتنے کے برعکس ٹرمپ نے کھلے عام چار روزہ لڑائی کے بعد پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ بندی کرانے کا کریڈٹ لیا جس کی انڈیا تردید کرتا ہے اور کہتا ہے کہ سیز فائر کے لیے کسی بیرونی قوت نے مداخلت نہیں کی تھی۔

ٹرمپ انتظامیہ نے تجارتی معاہدے کے لیے بھی انڈیا پر دباؤ ڈالا اور اس کے ڈیری و زراعت جیسے شعبوں تک رسائی مانگی۔ انڈیا ان شعبوں کو محفوظ رکھنا چاہتا ہے۔

یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا گور کی انڈیا میں موجودگی دلی اور واشنگٹن کے درمیان تعلقات میں بہتری لائے گی یا وہ وہاں ٹرمپ کی لاٹھی اور بھی زور سے چلانے جا رہے ہیں۔

ہڈسن انسٹیٹیوٹ میں سینٹر فار سٹریٹیجی اینڈ امریکن سٹیٹ کرافٹ سے منسلک بِل ڈریکسل کا کہنا ہے کہ چونکہ فیصلہ سازی پر ٹرمپ خود اثر انداز ہوتے ہیں اس لیے انڈیا میں ایسا سفیر ہونا ضروری ہے جو ان کے لیے باہمی تعلقات میں بڑا اثاثہ ثابت ہو۔

ڈریکسل کہتے ہیں کہ 'تاہم گور کو ابھی بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ ان کا سفارتی اور علاقائی تجربہ محدود ہے۔'

ایئرز اس بات سے متفق ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ گور کی صدر سے قربت پالیسی کی ممکنہ پیچیدگیوں میں ’پیشرفت‘ کا باعث بن سکتی ہے۔

تاہم ہاس کہتے ہیں کہ گور کے پاس سفارتی تجربے کی کمی ہے جو کہ پہلے سے خراب تعلقات کے لیے مزید مسئلے پیدا کر سکتی ہے۔ ان کے مطابق امریکہ کو ایسا ایلچی تعینات کرنے چاہیے تھا جو صورتحال میں بہتری لائے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے شک ہے دلی اس تعیناتی کو چہرے پر طمانچہ سمجھے گی اور اسے اس بارے میں ثبوت کے طور پر دیکھا جائے گا کہ ٹرمپ کو انڈیا کے ساتھ تعلقات کے بارے میں کوئی فکر نہیں ہے۔‘

ٹرمپ خاندان کے دوست گور کی شہرت کا رازGetty Imagesگور کی صرف ٹرمپ ہی نہیں ان کے پورے خاندان سے اچھی دوستی ہے

خیال ہے کہ گور کی صرف ٹرمپ ہی نہیں ان کے پورے خاندان سے اچھی دوستی ہے، بشمول ایوانکا ٹرمپ، جیرڈ کشنر اور ڈونلڈ ٹرمپ جونیئر۔

کشنر نے گور کو ’آسان‘ اور ’قابل اعتماد‘ شخیصت کا حامل قرار دیا ہے۔ کانگریس کے سابق رکن میٹ گیٹز نے ان کی شخصیت کے تفریحی پہلو اجاگر کیے جیسے وہ پام بیچ پر ’میک امریکہ گریٹ آگین‘ کی پارٹیوں پر ڈی جے بنا کرتے تھے۔

تاہم مغربی میڈیا انھیں ٹرمپ کا سب سے قابل اعتماد سپاہی کہتا ہے جو ہر صورت ذمہ داری سرانجام دیتا ہے۔

یہ سمجھا جاتا ہے کہ گور صدارتی تعیناتیوں کے لیے امیدواروں کی ٹرمپ سے وفاداری کا جائزہ لیا کرتے تھے۔ جون میں ایلون مسک نے انھیں ’سانپ‘ سے تشبیہ دی تھی۔ اخبار نیو یارک ٹائمز کی ایک خبر کے مطابق گور نے ابھی تک اپنی مستقل سکیورٹی کلیئرنس کے لیے دستاویزات جمع نہیں کرائیں۔

وائٹ ہاؤس کا اصرار ہے کہ گور کے پاس فعال کلیئرنس ہے اور وہ تمام تقاضوں پر پورا اُترتے ہیں۔

گور کو مقبولیت کیسے ملی، یہ غیر واضح اور دلچسپ ہے۔ وہ اپنا تعلق یورپی ملک مالٹا سے بتاتے ہیں لیکن وہ دراصل 1986 میں ازبکستان میں پیدا ہوئے تھے جب یہ اس وقت سوویت یونین کا حصہ تھا۔

اطلاعات کے مطابق انھوں نے اپنا بچپن مالٹا میں گزارا اور 12 سال کی عمر میں امریکہ منتقل ہو گئے۔

گور سکول اور کالج کے دنوں سے ریپبلکن سیاست میں دلچسپی لیتے تھے۔ اس وقت ان کا نام گورکھوسکی تھا جسے مختصر کر کے گور رکھ دیا گیا۔

وہ سنہ 2008 میں ریپبلکن نیشنل کمیٹی میں جونیئر سٹافر بنے۔ ایک بار انھوں نے ایک تقریب کے دوران گلہری کا کاسٹیوم پہنا تھا تاکہ یہ ظاہر کر سکیں کے بارک اوباما ایک ایسی تنظیم سے وابستہ ہیں جو ووٹر فراڈ میں ملوث ہے۔

فاکس نیوز میں دو سال گزارنے کے بعد گور نے کئی ریپبلکن سیاستدانوں کے ساتھ کام کیا، پھر 2020 میں ٹرمپ کی فنڈ ریزنگ ٹیم کا حصہ بن گئے۔

ایک سال بعد وہ ڈونلڈ ٹرمپ جونیئر کے ساتھ ’وننگ ٹیم پبلشنگ‘ کے شریک بانی بن گئے جہاں ٹرمپ کی کئی کتابوں کی اشاعت کی گئی۔ ان میں ’سیو امریکہ‘ نامی فوٹو بُک بھی شامل ہے۔

سنہ 2022 سے وہ فلوریڈا کے ایک گھر کے مالک ہیں جو ٹرمپ کی رہائش گاہ مار اے لاگو سے کچھ ہی دوری پر ہے۔ وہ یہاں اکثر آتے جاتے رہتے ہیں۔

عمران خان کو ’ٹرمپ جیسا لیڈر‘ کہنے والے رچرڈ گرینل جنھیں ٹرمپ نے صدارتی ایلچی نامزد کیاالزامات اور دھمکیوں کا تبادلہ: ڈونلڈ ٹرمپ اور ایلون مسک کا دوستی سے عداوت تک کا سفرمارکو روبیو: امریکہ کے نامزد سیکرٹری خارجہ جنھیں ٹرمپ نے ’بے خوف جنگجو‘ قرار دیاایلون مسک کے محکمے کا ایسا دعویٰ جسے انڈین اپنی ’بے عزتی‘ اور ’انتخابی عمل میں مداخلت‘ کہہ رہے ہیںغزہ میں رقص کرتے ٹرمپ، بکنی میں ملبوس مرد اور بلند عمارتیں: امریکی صدر کی جانب سے پوسٹ کردہ ویڈیو پر تنقید کیوں ہو رہی ہے؟ٹرمپ کا ’بِگ بیوٹی فل بجٹ‘ اور 370 کھرب ڈالر امریکی قرض: کیا عالمی کرنسی خطرے میں پڑ سکتی ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More