پنجاب میں سیلاب: ’کمیٹیاں ڈال کر پلاٹ خریدے، سب کچھ بہہ گیا‘

اردو نیوز  |  Sep 01, 2025

دریائے راوی کے قریب قائم ایک ہاؤسنگ سوسائٹی کے رہائشی وقاص احمد ایک رکشہ ڈرائیور ہیں۔

انہوں نے اپنے تین بھائیوں کے ہمراہ محنت مزدوری کر کے اور کمیٹیاں ڈال کر چار پلاٹ خریدے، تاہم حالیہ سیلابی صورتِ حال کے باعث ان کے چاروں پلاٹ زیر آب آگئے ہیں اور اب وہ چوہنگ کے مقام پر قائم خیمہ بستی میں عارضی طور پر رہائش اختیار کیے ہوئے ہیں۔

پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں چوہنگ کے مقام پر کئی خیمہ بستیاں قائم کی جا چکی ہیں۔ ان خیمہ بستیوں میں راوی کنارے قائم ہاؤسنگ سوسائٹی کے رہائشی عارضی طور پر مقیم ہیں۔

ان میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جنہوں نے برسوں قسطیں ادا کر کے پلاٹ خریدے اور گھر تعمیر کیے تھے۔

وقاص احمد نے اردو نیوز کو بتایا کہ انہوں نے اپنے تین بھائیوں کے ساتھ مل کر کمیٹیاں ڈالی اور پلاٹ خریدے۔

وہ اپنے پلاٹس سے متعلق بتاتے ہیں کہ ’ہم چار بھائی ہیں۔ میں آٹو رکشا چلاتا ہوں۔ باقی بھائی مزدوری کرتے ہیں۔ ہمارے یہاں نجی سوسائٹی میں چار پلاٹ تھے۔ ہم نے کمیٹیاں ڈالیں، پیسے اکٹھے کیے اور اب تک دو پلاٹوں کے پیسے پورے کیے جبکہ دو کے ابھی باقی تھے کہ چاروں پلاٹس زیر آب آگئے۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’ان کی برسوں کی محنت رنگ لانے ہی والی تھی کہ سیلاب کی وجہ سے سارے خواب ادھورے رہ گئے۔‘

'اب تو ہمارا سارا سامان پانی میں بہہ گیا۔ چھتوں کا بھی پتا نہیں کہ گر گئیں یا نہیں۔ بس بچے اور خاندان والوں کو بروقت محفوظ مقام پر منتقل کیا اور اب خیمہ بستی میں قیام پذیر ہیں۔‘

خیمہ بستیوں میں رہنے والے اکثر متاثرین زمینیں بیچ کر اور قسطوں پر پلاٹ خرید کر اپنی محنت کی کمائی سے گھر بنانے کی امید رکھتے تھے تاہم اب سیلاب کی بے رحمی کا شکار ہو گئے ہیں۔

خیمہ بستیوں میں موجود متاثرین زیادہ تر دیہی پس منظر سے تعلق رکھنے والے مزدور اور چھوٹے کاروباری خاندان تھے۔ انہوں نے بہتر مواقع کی تلاش میں لاہور کی طرف ہجرت کی تھی۔

شمشاد نامی خاتون بھی خیمہ بستی کے ایک کونے میں بیٹھی اپنے بچوں کو دیکھ رہی ہیں۔

شمشاد بی بی نے دیپالپور میں اپنی زمین بیچ کر لاہور کی ایک ہاؤسنگ سوسائٹی میں دو پلاٹ خریدے اور گھر کی تعمیر کا خواب دیکھا (فوٹو: اردو نیوز)وہ اس حوالے سے بتاتی ہیں کہ ’میری پانچ بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔ ایک بیٹی کی شادی ہو گئی تھی۔ باقی چار بیٹیاں گھروں میں کام کرتی ہیں۔ بیٹا نعمان پینٹنگ کا کام کرتا ہے جبکہ عثمان بیوی کے ساتھ ایک گھر میں ملازم ہے۔‘

انہوں نے دیپالپور میں اپنی زمین بیچ کر لاہور کی ایک ہاؤسنگ سوسائٹی میں دو پلاٹ خریدے اور گھر کی تعمیر کا خواب دیکھا لیکن وہ سرِدست کرائے کے مکان سے جان نہیں چھڑا پائے۔

شمشاد کے شوہر 9 ماہ قبل وفات پا چکے ہیں۔ وہ اپنے شوہر کے ارادوں سے متعلق بتاتی ہیں کہ ’وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ لاہور میں کام زیادہ ہوتا ہے، ہمارے بچوں کے لیے مواقع ہوں گے۔ زمین بیچ کر وہاں گھر بنا لیں گے۔ اسی لیے ہم نے اپنی زمین بیچ کر 5 اور 6 مرلے کے دو پلاٹ لیے۔‘

لاہور آتے ہی ان کی بیٹیاں گھروں میں کام اور بیٹے محنت مزدوری کرنے لگے اور یوں انہوں نے پلاٹ کی قسطیں ادا کیں۔

ان کے بیٹے نعمان گھر بنانے کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ ’ہماری گھر بنانے کی خواہش تھی لیکن مکمل نہیں ہو سکی۔ ایک پلاٹ پر دیواریں اور بنیادیں بنی تھیں، چھت ڈالنی تھی۔ اب دونوں پلاٹوں کی قیمت تقریباً 60 لاکھ روپے بنتی ہے لیکن سب کچھ پانی میں بہہ گیا ہے۔‘

قریب ہی ایک اور خیمے میں محمد اقبال اور ان کی بیوی نیاز بی بی رہ رہے ہیں۔ ان کا خاندان بھی اسی سوسائٹی کا رہائشی تھا۔

نیاز بی بی نے کہا کہ ’میرے بچے اور ہم سب مل کر کام کر کے قسطیں دیتے تھے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)محمد اقبال نے اپنی بیوی کے نام پر پلاٹ خریدا تھا۔ انہوں نے اوکاڑہ منڈی احمد آباد میں 7 مرلے زمین بیچی اور لاہور میں 6 مرلے کا پلاٹ خرید کر اس پر گھر بنا لیا تھا۔ اس دوران انہوں نے اپنی 6 بیٹیوں کی شادی بھی کی جبکہ دو بیٹے آفس بوائے کے طور پر مختلف دفاتر میں کام کرتے ہیں۔

نیاز بی بی قسطوں کی ادائیگی سے متعلق بتاتی ہیں کہ ’میرے بچے اور ہم سب مل کر کام کر کے قسطیں دیتے تھے، پھر گھر بھی بنا لیا لیکن اب وہاں دیکھتے ہیں تو پانی ہی پانی نظر آتا ہے۔‘

محمد اقبال لاہور منتقل ہونے سے متعلق بتاتے ہیں کہ ’بچے لاہور میں کام کرتے تھے تو اس لیے ہم بھی یہاں آگئے۔ ہم نے بہتر مستقبل کی امید لیے یہ قدم اٹھایا تھا لیکن اب خیمہ بستی میں رہنے پر مجبور ہیں۔‘

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More