’ہمیں فقیر بنا دیا گیا ہے‘: پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری جہاں ’چیک ملنے میں مہینوں لگ جاتے ہیں‘

بی بی سی اردو  |  Sep 08, 2025

BBCاداکار سید محمد احمد کا کہنا ہے کہ ’ہم لوگوں کو فقیر بنا دیا گیا ہے‘

پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری دنیا بھر میں دھوم مچا رہی ہے مگر یہاں کام کرنے والے فنکاروں کو کئی مسائل کا سامنا ہے۔

کچھ عرصہ قبل ہدایت کار مہرین جبار، اداکار اور مصنف سید محمد احمد، اداکارہ صحیفہ جبار خٹک، علیزے شاہ اور فیضان خواجہ نے سوشل میڈیا پر چند مسائل کا تذکرہ کیا جن میں معاوضہ ملنے میں تاخیر کا مسئلہ بھی شامل تھا۔

اس سے قبل رمشاء خان اورخوشحال خان بھی اپنے انٹرویوز میں ادائیگیوں کے مسئلے پر بات کر چکے ہیں لیکن یہ مسائل محض یہاں تک ہی محدود نہیں ہیں۔

ان شکایات کے سبب ہم نے پاکستان کی ڈرامہ انڈسٹری سے وابستہ چند افراد سے بات کی اور یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ انڈسٹری کے حالات سازگار کیوں نہیں ہیں۔

ادائیگی میں تاخیر: ’سب ایک دوسرے پر الزام لگاتے ہیں‘

ڈرامہ ’میں منٹو نہیں ہوں‘ میںکام کرنے والے اداکار سید محمد احمد کا کہنا ہے کہ اُن کی عمر اجازت نہیں دیتی کہ وہ بیک وقت ایک سے زیادہ ڈراموں میں کام کریں۔ لیکن انھیں امید ہوتی ہے کہ ’ایک سے نہیں تو دوسرے ڈرامے سے پیمنٹ آ جائے گی۔‘

سید محمد احمد کا کہنا ہے کہ چیک آنے میں کم از کم چھ سے سات مہینے لگ جاتے ہیں۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’سب سے زیادہ تکلیف اس وقت ہوتی ہے جب وہ آپ کو جواب نہ دیں۔ پھر آپ آہستہ آہستہ درخواستوں پر آ جاتے ہیں۔ پھر اپنے گھر کے حالات بیان کرتے ہیں۔ اس کے بعد کہیں جا کر آپ کو ایک چیک ملتا ہے۔‘

BBCسید محمد احمد کا کہنا ہے کہ چیک آنے میں کم از کم چھ سے سات مہینے لگ جاتے ہیں

محمد احمد کہتے ہیں کہ ایک اداکار کو مکمل ادائیگی تقریباً تین سے چار حصّوں میں دی جاتی ہے۔

کینیڈا سے آن لائن انٹرویو میں اداکارہ صحیفہ جبار خٹک نے بی بی سی کو بتایا کہ پروجیکٹ سائن کرنے کے بعد ’جو پہلا چیک ملنا ہوتا ہے وہ صرف کنٹریکٹ کی حد تک ہوتا ہے۔ کوئی چیک نہیں ملتا۔‘

اس بارے میں جب ہدایت کار مہرین جبار سے بات کی گئی تو انھوں نے کہا کہ ’انڈسٹری میں پیمنٹ کے معاملے پر ہر کوئی ایک دوسرے کو الزام دیتا ہے۔ پروڈکشن ہاؤسز کہتے ہیں کہ انھیں چینلز کی طرف سے پیسے نہیں ملے۔ چینلز کہتے ہیں کہ ایڈورٹائزرز انھیں دیر سے پیسے دیتے ہیں۔ کوئی پروفیشنل سسٹم نہیں ہے۔‘

’ہسپتال لے جانے کے بجائے کہا گیا کیمرا رول کرتے رہیں‘

تاخیر سے ادائیگیوں کے علاوہ اداکاروں کی سکیورٹی کے بارے میں بھی خاطر خواہ اقدامات نہ ہونے کی بھی شکایات ہیں۔

صحیفہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ایک ڈرامے کے سیٹ پر ہونے والے واقعے پر انھیں ایف آئی آر کٹوانی پڑی تھی کیونکہ ان کے پروڈیوسر کافی غصے والے تھے اور سیٹ پر ’بندوقیں لے آئے تھے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’ایسے معاملات کے لیے ایک آرٹسٹ کے پاس کوئی قانونی حق نہیں ہے۔‘

اداکارہ حاجرہ یامین اس وقت ڈرامہ ’میں منٹو نہیں ہوں‘ میں نظر آ رہی ہیں۔ اُنھوں نے بتایا کہ کنٹریکٹ میں کوئی بھی بات فنکار کے فائدے کی نہیں ہوتی۔

انھوں نے بتایا کہ ’کئی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ میں سیٹ پر زخمی ہوئی ہوں۔ میرا خیال رکھنے کی بجائے مجھے گھر بھیج دیا گیا۔‘

محمد احمد نےبتایا کہ ایک دفعہ جب سیٹ پر ان کی آنکھ میں شیشہ چبھ گیا تو انھیں ہسپتال لے جانے کی بجائے یہ کہا گیا کہ ’کیمرا رول کرتے رہیں، یہ شوٹ میں کام آئے گا۔‘

’یہی چیز اگر آپ کے کسی لیڈ فنکار کے ساتھ ہوتی اور خون بہہ رہا ہوتا تو اسے فوراََ ہسپتال پہنچایا ہوتا۔‘

اس بات کی توثیق اداکار فیصل قریشی نے بھی کی۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’مین لیڈ کے علاوہ ہمارے یہاں اگر کوئی ایکٹر سیٹ پر بیمار ہوجائے یا اس کو کوئی چوٹ لگ جائے تو پروڈکشن ہاؤس اس کا کوئی خاص خیال نہیں رکھتا۔‘

ڈرامہ انڈسٹری کا ایک اور بہت اہم مسئلہ بقول مہرین جبار کے بقول ’ٹائمنگ‘ کا ہے۔ ’کچھ اداکار وقت پر نہیں آتے اور ان کی وجہ سے وقت پر آنے والے اداکاروں کو پریشانی ہوتی ہے۔‘

’عشق ابدی‘: محبت، تفریح یا شہرت کے حصول کا خطرناک جُواعصمت چغتائی: فحاشی کے مقدمے کا سامنا کرنے والی بےباک ادیبہ جنھوں نے موت کے بعد بھی دنیا کو چونکا دیا’نمونوں میں کوئی نشہ آور یا زہریلی چیز نہیں پائی گئی‘: اداکارہ حمیرا اصغر کی موت سے جڑے اہم سوالوں کے جوابپاکستانی اداکاراؤں کی کئی روز پرانی تعفّن زدہ لاشیں اور شوبز میں احساس تنہائی: ساتھی فنکار کیا کر سکتے ہیں؟BBCحاجرہ یامین چاہتی ہیں کہ پاکستان کے فنکار ایک دوسرے کی مدد کریںڈرامہ انڈسٹری کے مسائل کیسے حل کیے جائیں؟

بابر جاوید نے بطور پروڈیوسر سینکڑوں ڈرامے بنائے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 80 سے 90 فیصد مسائل کی وجہ صفِ اول کے اداکار ہیں کیونکہ اگر وہ ’کنٹریکٹ سائن کر کے غائب ہو جائیں تو کوئی کچھ نہیں کرسکتا۔ وہ اکثر شوٹ کی تاریخیں بھی آٹھ سے دس مہینے تک آگے بڑھا دیتے ہیں۔‘

انھوں نے بی بی سی کے ساتھ خصوصی گفتگو میں بتایا کہ اس وقت 90 فیصد پروڈکشن ہاؤسز کے اپنے ٹی وی چینلز ہیں۔ ’تو اصل مسئلہ پروڈیوسر کا نہیں، چینلز کا ہے جو پیسے نہیں دے رہے۔‘

انھوں نے کہا کہ بعض شوز کے کنٹریکٹس میں صاف صاف لکھا ہوتا ہے کہ پیسے ’90 دنوں میں ملیں گے۔ مگر پیسے 150 یا 160 دن تک آتے ہیں لیکن فنکار پھر بھی بار بار اُسی شو میں جاتے ہیں۔‘

یہی بات جب اداکاروں سے پوچھی گئی تو ان کا کہنا ہے کہ وہ کام کرنا تو نہیں چھوڑ سکتے۔

حاجرہ یامین کا کہنا ہے کہ ’پروڈکشن ہاؤسز ہیں ہی کتنے؟ کام تو کرنا ہے نا؟ وہ تو نہیں رُک سکتا۔‘

’اس انڈسٹری کا اتنا کھلا ذہن نہیں ہے کہ یہ ایک ایکٹر کی طرف سے انکار سن سکیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ اگر آپ نے کسی پروڈکشن ہاؤس کو انکار کیا ہے تو وہ کافی عرصے تک آپ کو کام نہیں دیں گے۔‘

دوسری جانب صحیفہ جبار کا کہنا ہے کہ ’ہمارے پروڈیوسرز ان آرٹسٹس کے ساتھ بار بار کام کرتے ہیں جن کی وجہ سے سیٹ پر مسائل ہوتے ہیں کیونکہ انھوں نے مقبول ڈرامے دیے ہوتے ہیں۔‘

’اس کے بعد پروڈیوسرز شکوہ کرنے کا حق کھو دیتے ہیں۔‘

BBCہدایت کار مہرین جبار نے کہا کہ ’اس انڈسٹری میں پیمنٹ کے معاملے پر ہر کوئی ایک دوسرے کو الزام دیتا ہے۔‘’پروڈیوسر سے توقع نہیں، آرٹسٹ سے ہے‘

اداکاروں نے ہمیں بتایا کہ اپنے تلخ تجربوں کے بعد انھوں نے مختلف طریقے اپنائے۔

جہاں سید محمد احمد نے آواز بلند کرنا شروع کی تو وہیں صحیفہ اپنے کنٹریکٹ میں لکھوانے لگیں کہ اگر ان شرائط عمل نہیں کیا جاتا تو وہ سیٹ پر جانا چھوڑ سکتی ہیں۔

اگر کوئی پروڈیوسر ان کے پیسوں میں سے ٹیکس کاٹ رہا ہے تو حاجرہ ٹیکس کی رسیدیں دینے پر زور دیتی ہیں اور اپنے ساتھی اداکاروں کو بھی یہی ترغیب دیتی ہیں۔

حاجرہ نے کہا کہ ’پروڈیوسرز سے تو مجھے کوئی توقع نہیں ہے لیکن آرٹسٹ کمیونیٹی سے ہے۔ ہم ایک دوسرے کا سپورٹ سسٹم بن سکتے ہیں۔‘

مہرین جبار کا کہنا ہے کہ ’پروڈکشن ہاؤسز کو چاہیے کہ وہ سیٹ پر اسی وقت جائیں جب انھیں پتا ہو کہ ان کے پاس اپنے اخراجات کے لیے پیسے ہیں‘ جبکہ بابر جاوید کا کہنا ہے کہ ’چینلز کو ہی لیڈ لے کر انڈسٹری میں بہتری لانی ہوگی۔‘

انھوں نے کہا کہ چیلنز کو چاہیے کہ ’وہ آرٹسٹس کی ہیلتھ انشورنس کروائیں کیونکہ اصل کرتا دھرتا وہی ہیں۔‘

قانونی طور سے دیکھا جائے تو پرفارمنگ آرٹسٹس کے لیے کوئی مخصوص لیبر قوانین نہیں ہیں جن کے تحت وہ اپنا مقدمہ لڑ سکیں۔

البتہ ایڈووکیٹ سپریم کورٹ عطا اللہ کنڈی نے بی بی سی کو بتایا کہ اداکار کسی بھی کنٹریکٹ یا معاہدے کی خلاف ورزی کی صورت میں سول کورٹس سے رجوع کرسکتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ عموماً ان میں مقدمات میں تاخیر ہوتی ہے لیکن وہ اپنی رقم وصول کرنے کے لیے اپیل کرسکتے ہیں۔

’کیا ڈرامہ ہے‘: وہ شو جس کے نقادوں کے تبصرےڈرامے سے زیادہ وائرل ہو جاتے ہیںڈرامہ ’تن من نیل و نیل‘ کے شجاع اسد: ’مردوں کے ریپ پر اداکار شرمندہ ہوتے ہیں کہ میں یہ کردار کیوں کروں‘جب ضیا محی الدین کو احساس ہوا ان کی منزل ریڈیو نہیں تھیٹر ہےوہ اداکار جو اپنے عروج پر امیتابھ بچن سے زیادہ فیس لیتے تھے’عشق ابدی‘: محبت، تفریح یا شہرت کے حصول کا خطرناک جُوا
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More