نیپال میں سوشل میڈیا کی بندش کے خلاف پھوٹنے والی احتجاج کی لہر میں 19 ہلاکتوں کے بعد پابندی ہٹا لی گئی ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق حکومتی وزیر، کابینہ اور وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ترجمان پرتھوی سوبا گورونگ نے منگل کو بتایا کہ پچھلے ہفتے سوشل میڈیا پر عائد کی گئی پابندی کو ختم کر دیا گیا ہے۔
یہ اقدام ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب سوشل میڈیا کی بندش پر ہونے والے پرتشدد احتجاج میں 19 ہلاک اور سو زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔
مظاہرین حکومت سے سوشل میڈیا پر عائد پابندی ختم کرنے اور بدعنوانی کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر رہے تھے۔
گورونگ نے روئٹرز کو بتایا کہ ’ہم نے سوشل میڈیا شٹ ڈاؤن کا سلسلہ ختم کر دیا ہے اور اب وہ کام کر رہا ہے۔‘نیپال کے وزیراعظم کے پی شرما اولی کا کہنا ہے کہ وہ کچھ ’خودغرض عناصر کی دراندازی‘ کی وجہ سے ہونے والے تشدد کے واقعات پر افسردہ ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت مرنے والوں کے لواحقین کو امداد فراہم کرے گی اور زخمیوں کا علاج مفت کیا جائے گا۔پیر کو رات گئے ان کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں مزید کہا گیا تھا کہ ’تمام واقعات، نقصانات اور ان کی وجوہات جاننے کے لیے تحقیقاتی پینل بنایا جائے گا جو 15 روز میں اپنی رپورٹ پیش کرے گا تاکہ اس امر کو یقینی بنایا جا سکے کہ ایسا دوبارہ نہ ہو۔‘سوشل میڈیا کی بندش پر کئی شہروں میں پھیلنے والی احتجاج کی لہر کے منتظمین نے اس کو ’جنریشن زی کا مظاہرہ‘ قرار دیا ہے۔مظاہرین حکومت سے سوشل میڈیا پر عائد پابندی ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)منتظمین کے مطابق یہ احتجاج نوجوانوں کی مایوسی کو ظاہر کرتا ہے اور اس کی وجہ حکومت کی جانب سے بدعنوانی سے نمٹنے اور معاشی مواقع بڑھانے کے لیے اقدامات نہ ہونے کو سمجھا جاتا ہے۔نیپالی حکومت نے پچھلے ہفتے ملک میں متعدد سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تک رسائی بند کر دی تھی، جن میں فیس بک بھی شامل تھی، اس کے بعد ملک کے نوجوانوں میں غصے کی شدید لہر پیدا ہوئی اور احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا۔دوسری جانب حکومت نے اس کی وضاحت کچھ یوں پیش کی تھی کہ صرف ان پلیٹ فارمز کو بند کیا گیا جنہوں نے حکومت کے پاس رجسٹریشن نہیں کروائی اور جعلی آئی ڈیز اور نفرت انگیز مواد شیئر کرنے میں ملوث ہیں۔