AFP via Getty Imagesفلسطینی وزارتِ صحت کے مطابق اب تک اسرائیلی حملوں اور کارروائیوں می 65 ہزار کے قریب فلسطینی مارے جا چکے ہیں
اقوام متحدہ کے تحقیقاتی کمیشن کی جانب سے اسرائیل پر غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے الزامات اس رپورٹ کی بنیاد پر لگائے گئے ہیں جس کے مطابق 2023 میں حماس کے ساتھ جنگ کے آغاز کے بعد سے اسرائیل بین الاقوامی قانون کے تحت کسی معاملے کو نسل کشی قرار دیے جانے کے لیے درکار پانچ اقدامات میں سے چار کا مرتکب ہوا ہے۔
اس تفصیلی رپورٹ میں شواہد پیش کیے گئے ہیں اور کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے نسل کشی کے کنونشن کی خلاف ورزی کی ہے جو 1948 میں نو تشکیل شدہ اقوام متحدہ کی طرف سے منظور کیا گیا تھا۔
نسل کشی کا لفظ ، اور وہ کنونشن جس نے اسے جرم کے طور پر بیان کیا تھا، نازی جرمنی کے تحت چھ کروڑ یہودیوں کی نسل کشی سے براہ راست متاثر تھا۔
نسل کشی کی تعریف 1948 کے کنونشن میں کی گئی ہے، جس کا مقصد ایک قومی، نسلی، نسلی یا مذہبی گروہ کو مکمل طور پر یا جزوی طور پر تباہ کرنا ہے جو اس تازہ معاملے میں غزہ کے فلسطینی ہیں۔
اسرائیل ان تمام الزامات کی تردید کرتا ہے کہ غزہ میں اس کے طرزعمل نے جنگی قوانین اور بین الاقوامی انسانی قوانین کی تشکیل کرنے والے معاہدوں اور کنونشنز کی خلاف ورزی کی ہے۔ وہ اپنے اقدامات کو شہریوں کے تحفظ کے لیے دفاع کے طور پر پیش کرتا ہے اور اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ اقدامات سات اکتوبر 2023 کو حماس اور اسلامی جہاد کی طرف یرغمالی بنائے گئے اسرائیلی شہریوں کی رہائی پر مجبور کرنے کے لیے ہیں۔ ان یرغمالیوں میں سے اندازہ ہے کہ 20 اب بھی زندہ ہیں۔
اسرائیلی فوج نے غزہ پر حملہ، حماس کے حملوں میں 1200 افراد کی ہلاکت اور 251 اسرائیلیوں کے اغوا کے بعد کیا تھا۔ فلسطینی وزارتِ صحت کے مطابق اب تک اسرائیلی حملوں اور کارروائیوں می 65 ہزار کے قریب فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔
یہی نہیں بلکہ غزہ کی زیادہ تر آبادی بارہا نقل مکانی پر مجبور ہوئی ہے جبکہ اس علاقے میں 90 فیصد مکانات یا تو تباہ ہو چکے ہیں یا انھیں نقصان پہنچا ہے۔ اس صورتحال میں غزہ میں صحت عامہ، پانی اور صفائی کا نظام بھی تباہ ہو چکا ہے۔
AFP via Getty Imagesغزہ میں اسرائیل کی جارحیت میں تیزی آ رہی ہے اور فضائی حملوں میں بہت سی عمارتوں کو تباہ کیا گیا ہے
اسرائیلیوں نے اس رپورٹ کو حماس سے متاثرہ یہود مخالف جھوٹ قرار دیا ہے۔ یہ رپورٹ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی جانب سے قائم کردہ تحقیقاتی کمیشن نے مرتب کی۔ اسرائیل اور امریکہ نے اس کونسل کا بائیکاٹ کیا ہے اور دونوں ممالک کا کہنا ہے کہ وہ ان کے خلاف تعصب رکھتی ہے۔
لیکن اس رپورٹ کے نتائج اسرائیل کے طرز عمل کی بڑھتی ہوئی بین الاقوامی مذمت میں اضافہ کریں گے ، جو اسرائیل کے روایتی مغربی اتحادیوں کے ساتھ ساتھ خلیجی عرب بادشاہتوں کی طرف سے بھی ہو رہی ہے جو ابراہم معاہدے کے تحت اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لائی تھیں۔
آئندہ ہفتے نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں برطانیہ، فرانس، آسٹریلیا، کینیڈا اور دیگر ممالک ایک آزاد فلسطینی ریاست کی خودمختاری کو تسلیم کرنے والے ہیں۔
یہ اقدام علامتی قدم سے کہیں زیادہ ہوگا۔ اس سے اس تنازعے کے مستقبل کے بارے میں بحث بدل جائے گی جو ایک صدی سے زیادہ عرصہ قبل شروع ہوئی تھی جب یورپ سے صہیونی یہودی فلسطین میں آباد ہوئے تھے۔
اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے اس قدم کو یہود مخالف اور ’حماس کی دہشت گردی‘ کا انعام قرار دیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ دریائے اردن اور بحیرۂ روم کے درمیان زمین کے کسی بھی حصے میں فلسطینیوں کو کبھی بھی آزادی حاصل نہیں ہو گی کیونکہ ایک فلسطینی ریاست اسرائیلیوں کو خطرے میں ڈال دے گی۔ اسرائیلی مذہبی قوم پرستوں کا خیال ہے کہ یہ زمین خدا کی طرف سے صرف یہودیوں کو عطا کی گئی تھی۔
اسرائیل کی وہ پالیسیاں جو غزہ میں ’انسانوں کے پیدا کردہ‘ قحط کا باعث بنیںغزہ میں امدادی مقامات کی سکیورٹی پر مامور اسلام مخالف ’امریکی بائیکر گینگ‘ جس کے ارکان خود کو ’صلیبی جنگجو‘ کہتے ہیں
تحقیقاتی رپورٹ میں غزہ کے اندر اور اسرائیل کی جیلوں میں فلسطینیوں کے خلاف کارروائیوں کی تفصیل دی گئی ہے۔
الزامات کی ایک لمبی فہرست میں اسرائیل کی جانب سے شہریوں کو نشانہ بنانا شامل ہے جن کی حفاظت کرنا اس کی قانونی ذمہ داری ہے۔ اس کے علاوہ ’غیر انسانی حالات کا نفاذ بھی ہے جو فلسطینیوں کی ہلاکت کا سبب بنتے ہیں اور جن میں خوراک ، پانی اور ادویات سے محرومی بھی شامل ہے۔‘
خوراک کی ہنگامی صورتحال کا جائزہ لینے والے بین الاقوامی ادارے آئی پی سی کے مطابق ، یہ اس ناکہ بندی کا حوالہ ہے جس نے غزہ میں قحط کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر فاقہ کشی کو جنم دیا ہے۔
اقوام متحدہ کی نئی رپورٹ میں اس وقت غزہ شہر میں جبری نقل مکانی کی تفصیل بھی دی گئی ہے جب اسرائیلی فوجنے وہاں موجود تمام شہریوں کو جنوب کی طرف جانے کا حکم دیا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس سے تقریباً دس لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں۔
غزہ میں اسرائیل کی جارحیت میں تیزی آ رہی ہے اور فضائی حملوں میں بہت سی عمارتوں کو تباہ کیا گیا ہے جن میں وہ بلند عمارتیں بھی شامل ہیں جو غزہ شہر کی علامت ہیں اور جنھیں اسرائیلی فوج حماس کے ’دہشت گرد ٹاورز‘ قرار دیتا ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے 'پیدائش کو روکنے کے لیے اقدامات' نافذ کیے ہیں۔ اس سے مراد غزہ کے سب سے بڑے فرٹیلٹی کلینک پر ہونے والے حملہ ہے ہیں جس میں مبینہ طور پر تقریباً چار ہزار جنین اور نطفوں کے ایک ہزار نمونے اور غیر زرخیز انڈے تباہ ہوگئے تھے۔
AFP via Getty Imagesرپورٹ کے مطابق اسرائیل غزہ میں غیر انسانی حالات کے نفاذ کا ذمہ دار ہے جو فلسطینیوں کی ہلاکت کا سبب بنتے ہیں’سب کچھ ایک منٹ میں ختم ہو گیا‘: غزہ کے آئی وی ایف سینٹر پر اسرائیلی حملے جس نے متعدد جوڑوں کا والدین بننے کا خواب توڑ دیا’آزاد فلسطینی ریاست کو دفن کرنے‘ کا اسرائیلی ’ای ون سیٹلمنٹ‘ منصوبہ ہے کیا؟
فوجی کارروائی کے نتائج کے ساتھ ساتھ ، اقوام متحدہ کی رپورٹ میں نسل کشی پر اکسانے کے لیے تین اسرائیلی عہدیداروں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
ان میں اس وقت کے وزیر دفاع یواو گیلنٹ ہیں، جنھوں نے نو اکتوبر 2023 کو کہا تھا کہ اسرائیل ’انسانی جانوروں‘ سے لڑ رہا ہے۔ وزیراعظم نیتن یاہو کی طرح گیلنٹ کو بھی پہلے ہی بین الاقوامی فوجداری عدالت کی جانب سے جنگی جرائم کے لیے وارنٹ گرفتاری کا سامنا ہے۔
نیتن یاہو پر غزہ کی جنگ کا موازنہ عمالیق کے نام سے جانے والے دشمن کے خلاف یہودیوں کی لڑائی کی کہانی سے کرکے اشتعال انگیزی کا الزام بھی ہے۔ بائبل میں خدا یہودیوں سے کہتا ہے کہ وہ تمام عمالیقی مردوں، عورتوں اور بچوں کے ساتھ ساتھ ان کے مال اور ان کے جانوروں کو بھی ختم کردیں۔
تیسرے عہدیدار صدر اسحاق ہرزوگ ہیں جنھوں نے جنگ کے پہلے ہفتے میں غزہ کے فلسطینیوں کی حماس کے خلاف نہ اٹھنے پر مذمت کی تھی۔ انھوں نے 13 اکتوبر 2023 کو کہا کہ ’'یہ ایک پوری قوم ہے جو ذمہ دار ہے۔‘
قانونی طور پر نسل کشی کے جرم کو ثابت کرنا مشکل ہے۔
جن لوگوں نے نسل کشی کا کنونشن تیار کیااور پھر حالیہ مقدمات میں عالمی عدالتِ انصاف کی طرف سے کی جانے والی تشریحات نے اس بارے میں اعلیٰ قانونی معیار مقرر کیا ہے۔
جنوبی افریقہ کی جانب سے بین الاقوامی عدالت انصاف میں ایک مقدمہ پیش کیا گیا ہے کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی کی ہے۔ اس مقدمے کا فیصلہ ہونے میں کئی سال لگیں گے۔
لیکن غزہ میں جنگ جاری ہے اور شاید موجودہ اسرائیلی جارحیت کے ساتھ مزید بڑھ رہی ہے ، اقوام متحدہ کی رپورٹ جنگ کے بارے میں دنیا کی رائے کو اس بارے میں مزید منقسم کر دے گی۔
ایک طرف ایسے ممالک ہیں جو غزہ میں قتل و غارت گری اور تباہی کے فوری خاتمے کا مطالبہ کرتے ہیں اور اسرائیل کے محاصرے کی وجہ سے پیدا ہونے والے قحط کی مذمت کرتے ہیں۔ ان میں برطانیہ اور فرانس شامل ہیں۔
دوسری طرف اسرائیل اور امریکہ ہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ اسرائیل کو اہم فوجی امداد اور سفارتی تحفظ فراہم کر رہی ہے جس کے بغیر اسرائیلیوں کو غزہ میں جنگ اور مشرق وسطیٰ کے دیگر حصوں میں اس کی بمباری کی مہم جاری رکھنے میں مشکل پیش آ سکتی ہے۔
غزہ میں امداد کی مد میں دیے جانے والے ’فوڈ باکسز‘: ’یہ راشن پیٹ تو بھرتا ہے لیکن غذائیت سے خالی ہے‘غزہ میں بھوک کا راج: 'میرا بیٹا 40 کلو کا تھا، 10 کلو کا رہ گیا ہے'غزہ میں مرنے والوں کے لواحقین جو اپنے پیاروں کے آخری الفاظ دل سے لگائے زندہ ہیں: ’میں جواب نہ بھی دوں تو پھر بھی مجھ سے بات کرنا‘نڈھال بدن، ہاتھوں پر چھالے اور خوراک کی قلت: غزہ کے ہسپتال میں لاغر اور خوفزدہ بچوں کی کہانیغزہ پر ’قبضے‘ کے اسرائیلی منصوبے کے بعد جنگ بندی پر بات چیت کی کوئی وجہ باقی نہیں رہی: حماسجنگ بندی کے باوجود غزہ پر اسرائیلی حملوں کے پیچھے چھپی نتن یاہو کی حکمت عملی اور نیا امریکی منصوبہ