غزہ میں نقل مکانی ’جس کی حالیہ دہائیوں میں مثال نہیں ملتی‘

بی بی سی اردو  |  Oct 08, 2025

ماہرین نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ غزہ کی آبادی کو جس نقل مکانی کا سامنا کرنا پڑا ہے’اس کی مثال نہیں ملتی‘اور ’دوسری جنگ عظیم کے بعد اس نوعیت کی کوئی چیز دیکھنے کو نہیں ملی ہے۔‘

تنازعات، جبری نقل مکانی اور بین الاقوامی قانونکے ماہرین، مؤرخین اورماہرین تعلیمکہتے ہیں کہ ایک چھوٹے اور گنجان آباد علاقے میں محفوظ مقامات کا فقدان اور بار بار نقل مکانی انتہائی غیر معمولی ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق غزہ کے 21 لاکھ باشندوں میں سےہر 10 میں ایک فرددو سال سے جاری جنگ کے دوران اپنا گھر چھوڑ چکا ہے۔

سرحدیں عملی طور پر سیلڈ کر دی گئی ہیں۔ اسرائیل نے بار بار لوگوں کو مخصوص علاقوں کو چھوڑنے کا حکم دیا ہے، جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر آبادی کی نقل و حرکت ہوئی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ اعلانات حماس کو نشانہ بنانے کے دوران شہریوں کی حفاظت کے لیے کیے گئے 'غیر معمولی اقدامات' کا حصہ ہیں۔

انسانی حقوق کی بعض تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ صورتحال لوگوں کو جبری طور پر نقل مکانی پر مجبور کرنے کے مترادف ہے۔

سنہ 2024 میں ڈنمارک رفیوجی کونسل کی تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ غزہ میں تنازع کے دوران خاندانوں نے اوسطاً چھ بار نقل نکل مکانی کی اور بعض خاندانوں نے تو 19 بار تک پناہ گاہیں بدلیں۔

حالیہ ہفتوں میں غزہ شہر میں اسرائیل کی تازہ ترین کارروائی نے ایک بار پھر لاکھوں افراد کو نقل مکانی پر مجبور کر دیا ہے۔

دو چھوٹے بچوں، ماں اور ایک نرس سوہا مصلح کو بھی غزہ کے بہت سے لوگوں کی طرح ایک کے بعد ایک علاقے سے نکلنے پرمجبور کیا گیا کیونکہ اسرائیل نے اپنی کارروائیوں کو وسعت دی تھی اور پورے علاقے کو تباہ کر دیا تھا۔

آکسفورڈ یونیورسٹی میں بشریات اور جبری نقل مکانی پر تحقیق کرنے والے پروفیسر ڈان چٹی کا کہنا ہے کہ 'دوسری جنگ عظیم کے بعد سے غزہ میں نقل مکانی جیسی مثال نہیں ملتی اور ایسا بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد کی وجہ سے نہیں بلکہ حالات کے لحاظ سے ہے۔'

انھوں نے کہا کہ 'غزہ میں فلسطینیوں کے پاس جانے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ لوگ ایک غیر محفوظ جگہ سے دوسری غیر محفوظ جگہ بھاگنے پر مجبور ہیں۔'

اسرائیل اکثر کتابچے، ایس ایم ایس پیغامات اور سوشل میڈیا پر پیغامات بھیجتا ہے جس میں غزہ کے باشندوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ مخصوص علاقوں کو 'خالی کر دیں'۔

اس نے جنگ کے دوران لوگوں پر بار بار زور دیا ہے کہ وہ المواسی کے علاقے میں منتقل ہوجائیں، جو ایک چھوٹا سا ریتیلا ساحلی علاقہ ہے جس میں بہت کم سہولیات ہیں اور جسے اسرائیل نے 'محفوظ علاقہ' قرار دیا ہے ، لیکن یہاں بار بار بمباری کی گئی ہے۔

اسرائیلی ڈیفنس فورسز نے بی بی سی کو بتایا کہ غزہ بھر میں انخلا کے نوٹس 'شہریوں کی حفاظت کے لیے' جاری کیے جاتے ہیں اور 'رہائشیوں کو انخلا کے مخصوص راستوں اور راہداریوں کے ذریعے اپنی حفاظت کے لیے انخلا کے قابل بنایا جاتا ہے۔'

اس کا کہنا ہے کہ وہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق کام کرتے ہیں۔

آئی ڈی ایف حماس پر 'شہری ماحول میں سرائیت کرنے' کا الزام عائد کرتی ہے اور کہتی ہے کہ وہ محفوظ قرار دیے گئے علاقوں کو نشانہ نہیں بناتے بلکہ ان علاقوں کے اندر خطرات اور عسکری سرگرمیوں کے خلاف کارروائی کرتے ہیں۔

Getty Imagesنقل مکانی کی لہریں

اس طرح کے احکامات کا اثر غزہ کے کچھ حصوں میں خیموں اور عارضی پناہ گاہوں کی بڑے پیمانے پر بار بار منتقلی کے صورت میں سیٹلائٹ سے بنائی گئی تصاویر میں صاف نظر آتا ہے۔

مثال کے طور پر المواسی کے قریب حماد سٹی کا نواحی حصہ مئی 2024میں خیموں سے بھرنا شروع ہوا تھا، کیونکہ اسے 'محفوظ علاقے' کا حصہ قرار دیا گیا تھا۔ اس جولائی تک وہ زمین جو پہلے خالی تھی پوری طرح بھری ہوئی تھی۔

اس کے بعد سے اسرائیل نے دو بار رہائشیوں کو یہ جگہ چھوڑنے کا حکم دیا ہے۔

دونوں بار اس علاقے کو خیموں سے صاف کر دیا گیا تھا لیکن بعد میں جب اسرائیل نے اسے دوبارہ 'ہیومینیٹیرین زون' میں شامل کیا تو یہ دوبارہ بھر گیا۔

ایسا ایک بار اگست 2024میں ہوا تھا، جب آئی ڈی ایف نے کہا تھا کہ اسرائیل میں راکٹ داغنے کے لیے قریبی علاقے کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ دوسری بار ایسا تقریبا ایک سال بعد ہوا تھا۔

BBC

سوہا اور ان کا خاندان 2024 کے موسم بہار میں قریبی علاقے دیر البلح جاتے ہوئے حمد شہر کے قریب سے گزرا۔

وہ کہتی ہیں کہ 'بعض اوقات آپ اپنے ساتھ صرف اپنی زندگی لے جاسکتے ہیں اور پھر آپ کو سب نئے سرے شروع کرنا پڑتا ہے۔'

انھوں نے آٹھ مرتبہ نقل مکانی کی اور کچھ مرتبہ وہ جنگ کے دوران آبادی کی بڑی نقل و حرکت کا بھی حصہ تھیں۔ سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد ابتدائی ہفتوں میں وہ شمالی غزہ سے لے کر خان یونس شہر اور پھر جنوب میں رفح تک گئیں۔ لیکن یہاں بھی اسرائیل نےزمینی حملے شروع کیے۔

نقل مکانی کے اس سلسلے کی وجہ سے غزہ کے شہروں اور علاقوں کی آبادی سکڑ گئی۔

غزہ کی پٹی کی دو شمالی گورنریٹس نے جنگ کے پہلے چار مہینوں میں اپنی آبادی کا تین چوتھائی حصہ کھو دیا تھا۔

رفح نے 2024کے اوائل میں کئی مہینوں تک اپنی جنگ سے پہلے کی آبادی سے تقریبا چار گنا زیادہ لوگوں کو پناہ دی، پھر اسرائیل نے لوگوں کو یہ جگہ بھی چھوڑنے کو کہا۔

آج رفح تقریباً مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے اور وہاں بہت کم لوگ رہ گئے ہیں۔ زیادہ تر افراد غزہ کے دو وسطی علاقوں خان یونس اور دیر البلح کی طرف روانہ ہوئے جن کی مشترکہ آبادی اس وقت تقریبا تین گنا بڑھ گئی ہے۔

BBC’ایک پٹی میں پھنسے ہوئے لوگ‘

یروشلم کی ہیبریو یونیورسٹی میں ہولوکاسٹ پر تحقیق کرنے والے پروفیسر ڈینیئل بلاٹمین کا کہنا ہے کہ غزہ میں نقل مکانی دنیا بھر کے دیگر علاقوں میں ہونے والی نقل مکانی سے مختلف ہے کیونکہ یہاں لوگ 'محاصرے میں ہیں، یہ عمل بار بار دہرایا جا ریا ہے اور یہاں مہلک حالات' ہیں۔

وہ کہتے ہیںکہ 'غزہ میں عام شہری ایک محاصرے میں گھرہ ہوئی پٹی کے اندر پھنس گئے ہیں، انھیں بار بار گنجان آباد علاقوں میں منتقل ہونے کا حکم دیا گیا۔‘

ہیبریو یونیورسٹی میں بین الاقوامی قانون کے پروفیسر یووال شانی کا کہنا ہے کہ غزہ کی صورتحال اس لحاظ سے 'بے مثال ہے' کہ 'شہری آبادی کی اکثریت تنازع سے متاثرہ علاقے کو مکمل طور پر چھوڑنے میں ناکام رہی ہے۔'

Getty Images

ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل اور حماس دونوں اپنی کارروائیوں میں شہری آبادی کو خطرے میں ڈال رہے ہیں اور اسرائیل اور مصر کے ساتھ اپنی سرحدیں کھولنے کے لیے بین الاقوامی دباؤ کا فقدان ہے۔

یونیورسٹی آف فلوریڈا میں ہولوکاسٹ سٹڈیز کے پروفیسر نارمن جے ڈبلیو گوڈا کا کہنا ہے کہ اس قسم کی ' جبری نقل مکانی بدترین ہے'، لیکن ان کا خیال ہے کہ 'اگر یہ نہ ہوتا تو اسرائیلیوں نے شہریوں کو انتباہ دیے بغیر حماس کے ٹھکانوں پر حملہ کیا ہوتا۔'

ان کا کہنا ہے کہ 'سیف زونز' کے لیے تنازعے میں شامل تمام فریقین کی رضامندی درکار ہوتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ حماس 'اس سیف زون کو تسلیم کر سکتی تھی' جسے اسرائیل نے المواسی میں قائم کرنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ 'اسے کارروائیوں کے لیے استعمال کرتی رہی۔'

حالیہ مہینوں میں غزہ کی پٹی کا 80فیصد سے زیادہ حصہ یا تو اسرائیلی فوج کے کنٹرول میں رہا ہے یا رہائشیوں کو وہاں سے نکلنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق جولائی میں یہ تعداد 88فیصد تک پہنچ گئی تھی۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اس کے کچھ حصے ملبے سے ڈھکے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے رہنے کی جگہ مزید محدود ہو گئی ہے اور زندگی کے حالات مشکل ہو گئے ہیں۔

بے گھر ہونے والے غزہ کے باشندوں کو انتہائی بھیڑ کا سامنا ہے۔

غزہ میں پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ساتھ کام کرنے والے اداروں کے ایک گروپ کے اعداد و شمار کے مطابق پورے علاقے میں خیموں اور پناہ گاہوں میں رہنے والے لوگوں کے پاس فی شخص اوسطاً نصف مربع میٹر جگہ ہے۔

یہ اییسا ہے کہ 4 بائی 5 میٹر کے کمرے میں 40افراد رہیں۔

اگرچہ اس علاقے میں کمیونٹی کچن ، پانی کی تقسیم کے مقامات اور فیلڈ کلینک کام کر رہے ہیں تاہم امدادی اداروں کا کہنا ہے کہ ان کی خدمات کی تیزی سے بڑھتی ہوئی طلب کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے مشکلات کا سامنا ہے۔

اسرائیل پر غزہ کی پٹی میں داخل ہونے والی خوراک اور امداد کی راہ میں 'منظم رکاوٹ' ڈالنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

آئی ڈی ایف نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ غزہ میں خوراک، طبی سامان اور پناہ گاہوں کے آلات کی ترسیل میں اضافہ کر رہا ہے اور اس کی طرف سے اس بات پر زور دیا گیا کہ 'جنوب میں بنیادی ڈھانچے کو متوقع آبادی کے حجم کے لیے تیار کیا گیا ہے'۔

بہت سے فلسطینیوں کے لیے یہ صورتحال اس سے مماثلت رکھتی ہے جسے وہ نکبہ (تباہی) کہتے ہیں، جب اسرائیل کے قیام کی جنگ کے وقت 1948-49 میں تقریبا 750ساڑھے سات لاکھ فلسطینی فرار ہوگئے تھے یا انھیں اپنے گھروں سے بے دخل کردیا گیا تھا۔

بہت سے غزہ کے باشندے اس نسل سے ہی ہیں، جن میں برطانیہ میں فلسطینی مشن کے سربراہ حسام زوملوت بھی شامل ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ 'اچھی طرح جانتے ہیں کہ 1948 میں کیا ہوا تھا'۔

'ایک بار جب انھیں اسرائیلی فوج کی طرف سے انخلا کرنے کے لیے کہا جاتا ہے تووہ کبھی بھی اپنے شہر واپس نہیں جا سکیں گے۔ یہ نکبہ کے دوران ہوا تھا اور ان کے ساتھ دوبارہ یہی ہو رہا ہے۔'

ان کا کہنا ہے کہ اسرائیلی 'غزہ کے باقی ماندہ حصے کو تباہ کر رہے ہیں'، لہذا غزہ میں بے گھر ہونے والے لوگوں کے پاس'واپس جانے کی کوئی جگہ نہیں ہے'۔

وہ مزید کہتے ہیں 'یہ ڈیزائن کے لحاظ سے نقل مکانی ہے۔'

BBC'سنجیدہ سوالات'

ہیومن رائٹس واچ اور اقوام متحدہ کے کمیشن نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اسرائیل نسل کشی کا ارتکاب کر رہا ہے، دونوں نے رپورٹوں میں کہا ہے کہ جبری نقل مکانی اس شکل میں ہوئی ہے جو جنگی جرم کے مترادف ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر (او ایچ سی ایچ آر) نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ بھی یہی نقطہ نظر رکھتے ہیں۔

او ایچ سی ایچ آر کے ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ نقل ماکانی عام طور پر 'قانونی انخلا کے سخت تقاضوں پر پورا نہیں اترتی' جس کی وجوہات میں 'احکامات کے بڑے پیمانے پر اور بار بار جار ی کرنا شامل ہیں، جو فوری فوجی ضروریات یا شہریوں کے تحفظ کے لیے نہیں ہوتے اور ان حملوں میں محفوظ پناہ گاہ کی تلاش میں نکلنے والے شہریوں کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔

بی بی سی سے بات کرنے والے متعدد ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ اس نقل مکانی کو جبری سمجھتے ہیں جو کہ بین الاقوامی قانون کے خلاف ہے۔

لندن میں اسرائیلی سفارت خانے نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ جبری نقل مکانی، جنگی جرائم اور نسل کشی کے الزامات کو یکسر مسترد کرتا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل نقصان کو کم کرنے کے لیے غیر معمولی اقدامات کرتا ہے۔

اس بیان میں کہا گیا ہے کہ انخلا 'عارضی ہے اور شہریوں کی زندگی کے تحفظ کے لیے ایسا کیا گیا ہے' اور 'بین الاقوامی انسانی قوانین کی سختی سے پاسداری کی گئی ہے۔'

اس میں مزید کہا گیا ہے کہ اسرائیل کا 'غزہ پر حکومت کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔'

اسرائیلی فوج نے سات اکتوبر 2023 کو جنوبی اسرائیل پر حماس کے حملے کے جواب میں غزہ میں اپنی عسکری مہم کا آغاز کیا تھا، حماس کے حملے میں تقریبا 1,200افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ 251افراد کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔

حماس کے زیرِ انتظام وزارت صحت کے مطابق غزہ میں اسرائیلی حملوں میں اب تک 66000 سے زیادہ افراد ہلاک اور تقریبا 170000 زخمی ہوئے ہیں۔

اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ سات اکتوبر 2023سے غزہ کے تقریباً 92 فیصد گھروں کو نقصان پہنچا ہے یا پھر تباہ کیا گیا ہے۔

یہ اندازہ مقامی وزارت ہاؤسنگ کے اعداد و شمار پر مبنی ہے۔

سوہا، ان کے شوہر اور ان کے دو بچے اب وسطی غزہ کے شہر نصیرات میں اپنے والدین اور بھائی اور بہن کے اہل خانہ کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ یہ تمام افراد ایک رشتہ دار کے تباہ شدہ ایک بیڈروم والے اپارٹمنٹ میں رہتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ 'ہم اس میں رہ رہے ہیں اور گزارا کر رہے ہیں۔ کیونکہ بہرحال یہ خیمے سے بہتر ہے۔'

’عرب عوام عراق کو نہیں بھولے‘: کیا سابق برطانوی وزیرِ اعظم ٹونی بلیئر غزہ کا انتظام سنبھال سکتے ہیں؟ٹرمپ کی دوستی اور نتن یاہو کی مشکل: امن معاہدے سے جان چھڑانا اسرائیلی وزیراعظم کو کتنا مہنگا پڑ سکتا ہے؟ٹرمپ کا غزہ منصوبہ اور مبہم اصطلاحات میں فلسطینی ریاست کا ذکر: ایک اہم قدم جسے چند بڑی رکاوٹوں کا سامنا ہےکیا اسرائیل ایک بار پھر قطر میں حماس کے رہنماؤں کو نشانہ بنا سکتا ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More