Getty Imagesوزارت اعلیٰ کا عہدہ سنبھالتے ہی علی امین نے 'صحت انصاف کارڈ' کو دوبارہ شروع کر دیا تھا
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما علی امین گنڈا پور 20 ماہ خیبر پختونخوا کی وزارت اعلیٰ کے عہدے پر فائز رہنے کے بعد مستفعیٰ ہو گئے ہیں۔
بطور وزیر اعلیٰ اُن کا یہ دور بظاہر مشکلات سے بھرپور رہا جس میں ناصرف انھیں اپنے صوبے میں انتظامی و سکیورٹی مسائل کا سامنا رہا بلکہ اپنی ہی پارٹی کے چند حلقوں کی مخالفت کا بھی۔
تجزیہ کاروں کے مطابق بطور وزیر اعلیٰ علی امین کے کندھوں پر دوہری ذمہ داری کا بوجھ رہا، ایک طرف تو انھیں صوبے کے چیف ایگزیکٹیو کی حیثیت سے گورننس، سکیورٹی اور معاملات کو دیکھنا تھا تو دوسری طرف تحریک انصاف کے کارکنان کی جانب سے اُن پر یہ دباؤ بھی تھا کہ اپنے عہدے اور صوبے کے وسائل کا استعمال کرتے ہوئے وہ بانی تحریک انصاف عمران خان کی رہائی کو یقینی بنائیں یا اس کے لیے سازگار ماحول پیدا کریں۔
ان حالات اور توقعات کے بیچ انھوں نے اپنے دور کے 20 ماہ کیسے گزارے؟ اس بارے میں تجزیہ کار کہتے ہیں کہ علی امین نے بعض معاملات میں چند اہم فیصلے لیے تاہم بعض مقامات پر وہ توقعات کے برعکس ناکام نظر آئے۔
گورننس اور حکومتی منصوبے
خیبر پختونخوا میں اگرچہ گذشتہ 20 ماہ میں کسی بڑے منصوبے کا آغاز نہیں کیا جا سکا تاہم علی امین کا دعویٰ رہا ہے کہ اس مختصر دورانیے میں وہ صوبے کو مالی طور پر مستحکم کرنے میں کامیاب ہوئے اورمعاشی مشکلات کے باوجود رواں مالی سال کے لیے ان کی حکومت نے سرپلس بجٹ پیش کیا۔
وزارت اعلیٰ کا عہدہ سنبھالتے ہی علی امین نے 'صحت انصاف کارڈ' کو دوبارہ شروع کر دیا تھا جو سابقہ وفاقی عبوری حکومت کے دور میں معطل کر دیا گیا تھا۔
علی امین سے قریب سمجھے جانے والے ایک سینیئر عہدیدار کے مطابق اس کے لیے انشورنس کمپنی کے واجبات ادا کیے گئے اور ساتھ میں 'صحت انصاف کارڈ پلس' کا آغاز کیا گیا جبکہ مردان میں انھوں نے صحت انصاف کارڈ میں آؤٹ ڈور پیشینٹس یعنی 'او پی ڈی' کو شامل کرنے کا منصوبہ بھی شروع کیا۔
Getty Imagesعلی امین گنڈا پور 20 ماہ خیبر پختونخوا کی وزارت اعلیٰ کے عہدہ پر فائز رہنے کے بعد مستفعیٰ ہو گئے ہیں
علی امین نے خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع کے لیے ایک موٹر وے کا اعلان تو کیا اور اس کے پی سی ون کی منظوری بھی دی لیکن اس پر عملدرآمد شروع نہیں ہو سکا، اسی طرح چشمہ رائٹ بینک کینال سے لفٹ ایریگیشن کینال کی منظوری بھی حاصل کی، لیکن یہ منصوبہ بھی ان کے دور میں شروع نہ ہو سکا۔
گذشتہ 20 ماہ کے دوران علی امین نے صوبائی کابینہ کے اجلاس تواتر سے بلائے اور اُن میں یا تو بذات خود شریک ہوئے یا اسلام آباد سے آن لائن ان میں شرکت کرتے رہے۔
ان اجلاسوں میں تعلیم سے متعلق منصوبوں کے اعلانات کیے گئے جن میں سکالر شپس سکیم اور دیگر سٹوڈنٹ کارڈز کے اجرا کی بات تو کی گئی لیکن عوامی سطح پر یہ سکیمیں زیادہ مقبول نہ ہو سکیں۔
خیبرپختونخوا میں حالیہ سیلابی صورتحال کے بعد امدادی پیکجز کے اعلانات کیے گیے جبکہ شدت پسندی کے واقعات میں ہلاک اور زخمی اہلکاروں کے لیے پیکج میں اضافہ کیا تاہم اس دورانیے میں ان پر یہ تنقید ضرور ہوتی رہی کہ وہ ان حملوں کا نشانہ بننے والے پولیس اہلکاروں کے جنازوں میں شریک نہ ہوئے۔
صحافی محمود جان بابر کا کہنا ہے کہ جس طرح دیگر صوبوں کے وزارئے اعلیٰ سکرین پر آ کر اپنے منصوبوں کو تشہیر کرتے رہے ہیں، علی امین اپنے دور اقتدار میںصوبے کے گئے چند کاموں کی اس انداز میں تشہیر نہ کر سکے۔
عمران خان کی رہائی کے لیے تحریکیں اور ناکامیوں پر تنقید؟
علی امین سے بطور وزیر اعلیٰ پی ٹی آئی کے کارکن اور رہنماؤں کا جو اہم مطالبہ تھا وہ عمران خان کی رہائی تھا۔ ان کی بطور وزیر اعلیٰ تعیناتی کے بعد بھی ان کا تشخص اسی انداز میں پیش کیا گیا کہ وہ اپنے اقدامات میں جارحانہ ہیں اور عمران خان کی رہائی کے لیے وہ دو قدم آگے بڑھ کر اقدامات اٹھائیں گے۔
انھوں نے بذات خود عہدہ سنبھالنے کے بعد متعدد مرتبہ اس معاملے پر گفتگو کی اور دعویٰ کیا کہ وہ دن دور نہیں جب عمران خان عوام میں موجود ہوں گے، تاہم ایسا نہ ہو سکا۔
وزارت اعلیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد علی امین نے اس کے لیے کوششیں ضرور کیں، لیکن ان کوششوں میں ناکامی کے بعد اُن پر کارکنان کی جانب سے یہ الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ جب بھی اس نوعیت کی تحریک کامیابی کے قریب ہوتی تو علی امین منظر سے غائب ہو جاتے۔
پشاور میں صنم جاوید کے ’مبینہ اغوا‘ کا مقدمہ درج: ’سبز رنگ کی ویگو نے ہماری گاڑی کو روک لیا‘ ’پی ٹی آئی کو تقسیم کرنے میں علیمہ خان کا بنیادی کردار ہے‘: علی امین گنڈاپور اور عمران خان کی بہن آمنے سامنے کیوں؟پنجاب کی وزیر اطلاعات کی ’فیک ویڈیو‘ پھیلانے کا الزام: ایک سال قبل درج ہونے والا مقدمہ اور پی ٹی آئی سوشل میڈیا کارکن فلک جاوید کی گرفتاری’یہ ویڈیو لنک ٹرائل نہیں، واٹس ایپ ٹرائل ہے‘: جی ایچ کیو حملہ کیس میں عمران خان کی پیشی کے دوران کیا ہوا؟
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار فرزانہ علی کا کہنا ہے کہ علی امین نے مارچ 2024 میں وزارت اعلیٰ کا عہدہ سنبھالا تو شروع کے چند ماہ میں انھوں نے عمران خان کی رہائی کے معاملے پر بھرپور احتجاج کیے۔
انھوں نے کہا کہ عمران خان کی رہائی کا مطالبہ لیے انھوں نے اسلام آباد تک مارچ کی قیادت کی اور پابندیوں اور رکاوٹوں کے باوجود اسلام آباد کے ڈی چوک تک پہنچنے میں کامیاب بھی ہو گئے،تاہم یہاں سے انھیں ناکام لوٹنا پڑا۔
فرزانہ علی کا کہنا تھا کہ علی امین نے شاید ڈی چوک سے واپسی کارکنوں کو ریاستی اقدامات سے بچانے کے لیے کی تھی کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ اگر وہ وہیں رہتے تو کارکنان کا زیادہ جانی نقصان ہو سکتا تھا۔
علی امین نے گذشتہ سال 26 نومبر کو بھی ایک دفعہ پھر اسلام آباد جانے کی کوشش کی تھی اور جب وہ ڈی چوک پہنچے تو اُن پر مبینہ طور پر فائرنگ کی گئی جبکہ کافی کارکنان زخمی یا گرفتار ہوئے۔
اگرچہ علی امین وہاں سے ایک بار پھر نکل کر خیبرپختونخوا پہنچنے میں کامیاب رہے مگر اس ناکامی کے بعد ان پر بڑے پیمانے پر پارٹی کے اندر سے تنقید کی گئی اور ان پر اسٹیبلشمنٹ سے مبینہ گٹھ جوڑ کا الزام عائد کیا گیا۔
صوبے اور وفاق کے درمیان تعلقات
تجزیہ کاروں کے مطابق وفاق سے تعلق کی بات کی جائے تو اس ضمن میں علی امین گنڈا پور کی کوئی حکمت عملی زیادہ کامیاب ہوتی نظر نہیں آئی۔
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار محمود جان بابر کے مطابق علی امین گنڈا پور پر جماعت کے اندر اور چند رہنماؤں کی جانب یہ دباؤ رہا کہ وہ وفاق کے ساتھ سختی سے پیش آئیں، تاہم اگر مجموعی جائزہ لیا جائے تو گذشتہ 20 ماہ میں علی امین نے وفاقی حکومت کے ساتھ تعلقات بہتر رکھے۔
تجزیہ کار علی اکبر کا کہنا ہے کہ علی امین گنڈا پور پر گذشتہ کچھ ماہ میں اسٹیبلشمنٹ اور وفاق کے حامی کی چھاپ لگ گئی تھی اور ان پر یہ الزام عائد کیا جاتا تھا کہ وہ دونوں جانب کھیل رہے ہیں یعنی ایک طرف بانی پی ٹی آئی سمیت دیگر رہنماؤں اور کارکنان کو تسلی دیتے تو دوسری جانب وہ وفاق اور اسٹیبلشمنٹ کو بھی راضی رکھنے کی پالیسی پر گامزن رہے۔
اس بارے میں محمود جان بابر کا کہنا ہے کہ علی امین کو پارٹی کی جانب سے جس کام کے لیے وزارت اعلیٰ کا عہدہ دیا گیا اور ان سے جو توقعات تھیں وہ اس پر پورا نہیں اُترے اور بظاہر انھوں نے بیچ کے راستے کا انتخاب کیا۔
Getty Images
انھوں نے کہا کہ ایک ہی وقت میں یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ عمران خان کو بھی خوش رکھ پاتے اور وفاق اور اسٹیبلشمنٹ کو بھی۔
پاکستان تحریک انصاف کی خاتون رہنما زلیخا مندو خیل نے کہا کہ علی امین کے لیے ماحول کچھ زیادہ سازگار نہیں تھا۔
انھوں نے کہا کہ ان سے پارٹی کارکنوں اور رہنماؤں کی بنیادی توقع یہ تھی کہ وہ عمران خان کی رہائی کو بنیادی مطالبہ بنائیں مگر چونکہ اُن پر خود بھی مقدمات تھے اور دیگر معاملات تھے اس لیے وہ اس معاملے میں توقعات کے برعکس پیچھے رہ جاتے تھے۔
علی امین کی 'تنہا پرواز'
پاکستان تحریک انصاف میں اختلافات کی باتیں تو ایک عرصے سے جاری ہیں اور یہ کہا جاتا رہا ہے کہ سینیئر قیادت میں شامل افراد علی امین سے خوش نہیں تھے۔
محمود جان بابر کے مطابق گذشتہ 20 ماہ کے دوران بظاہر علی امین پارٹی میں دیگر قائدین اور رہنماؤں کو ساتھ لے کر نہیں چل سکے اور بعض معاملات میں حد سے زیادہ خود اعتمادی کا شکار ہوئے۔
خیبر پختونخوا میں علی امین پر یہ الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ انھوں نے وزیر اعلیٰ بننے کے لیے ایسے رہنماؤں کو انتخابات کے وقت صوبائی اسمبلی کے ٹکٹ نہیں دیے تھے جو آگے چل کر وزارت اعلیٰ کے مضبوط امیدوار ہو سکتے تھے۔ ایسے رہنماؤں میں عاطف خان، اسد قیصر، شہرام ترکئی وغیرہ شامل ہیں۔
پارٹی کے اندر جاری یہ کشمکش گزشتہ ماہ پشاور میں 27 ستمبر کے جلسے میں کھل کر سامنے آئی جب کارکنوں نے علی امین کے خلاف نعرہ بازی کی گئی اور انھیں تقریر تک نہیں کرنے دی گئی۔
فرزانہ علی کا کہنا ہے کہ علی امین کے عمران خان کے اہلیہ اور بہن کے ساتھ بھی اختلافات سامنے آئے تھے لیکن علی امین نے کسی حد تک انھیں بہتر کرنے کی کوشش کی تھی۔
تجزیہ کار مشتاق یوسفزئی کا کہنا ہے پی ٹی آئی میں لوگ صرف عمران خان کو لیڈر مانتے ہیں اور اگر کوئی یہاں وزیر اعلیٰ یا بڑے عہدے پر آتا ہے تو انھیں بھی عمران خان کے فیصلے کے مطابق دیکھا جاتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ علی امین کی غلطی یہ تھی کہ وہ نہ تو جماعت کے اندر رہماؤں اور کارکنوں سے بنا کر رکھ سکے اور نہ ہی وہ وفاق میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اور وفاقی حکومت کے ساتھ زیادہ بہتر تعلقات رکھ پائے، اس لیے وہ نہ اِدھر کے رہے اور نہ اُدھر کے۔ ۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ علی امین کی خوش قسمتی تھی کہ عمران خان پابند سلاسل تھے اگر وہ باہر ہوتے تو ان حالات میں شاید علی امین زیادہ دیر تک حکومت نہ چلا سکتے۔
علیمہ خان، اسٹیبلشمنٹ یا امن و امان: عمران خان نے علی امین گنڈاپور کو ہٹانے کا فیصلہ کیوں کیا؟وزیرِ اعلیٰ علی امین گنڈاپور کو ہٹانے کا فیصلہ: ’سہیل آفریدی کا بڑا امتحان شروع، خیبرپختونخوا کی وزارت اعلیٰ پھولوں کی سیج نہیں‘علی امین گنڈا پور: کے پی ہاؤس میں ’پراسرار گمشدگی‘ سے خیبرپختونخوا اسمبلی کی ’سرپرائز انٹری‘ تکپی ٹی آئی میں اندرونی اختلافات: کیا واقعی معاملات ’مائنس عمران خان‘ تک پہنچ چکے ہیں؟علی امین گنڈاپور کی ’حکمت عملی‘ اور تحریک انصاف کا ڈی چوک احتجاج جو ’پارٹی کے لیے کئی سوال چھوڑ گیا‘’یہ ویڈیو لنک ٹرائل نہیں، واٹس ایپ ٹرائل ہے‘: جی ایچ کیو حملہ کیس میں عمران خان کی پیشی کے دوران کیا ہوا؟