جودھ پورکی شاہی ریاست، برطانوی ہندوستان میں بمبئی اور کراچی کے درمیان چلتی ’سِندھ میل‘ نام کی مسافر ریل گاڑی کے راستے میں آتی تھی۔
سنہ 1947میں جب برصغیر برطانوی تسلط سے آزاد ہو کر انڈیا اور پاکستان میں تقسیم ہوا تو جودھ پور برصغیر کےرقبے میں ایک تہائی اور آبادی میں چوتھائی ان لگ بھگ 600 شاہی ریاستوں میں شامل تھا جنھیں فیصلہ کرنا تھا کہ آزاد رہیں یا کسی ایک ملک سے جُڑیں۔
تاریخی شواہدبتاتے ہیں کہ اگر وائسرائے لوئی ماؤنٹبیٹن کا دباؤ نہ ہوتا تو جودھ پور شاید پاکستان سے الحاق کر لیتا اور اس سے جڑی کئی اور ریاستوں کو بھی اس پر آمادہ کیا جا سکتا۔
اگر ایسا ہو جاتا توکم از کم وہ رابطہ نہ ٹوٹتا جو تقسیمِ ہند کے بعد بین الملکی ٹرین سے جودھ پور کا پاکستانی شہروں حیدرآباد اور کراچی سےکبھی رہا کبھی نہیں۔
لوگ جودھ پور اور آس پاس کی ریاستوں کے راجاؤں کے تعاون سے بنیجودھ پور سے حیدرآباد تک 650 کلومیٹر طویل پٹری پر اس ٹرین میں سفر کرتے رہتے، جسے صحافی اے بی آریسر کے مطابق ’راجا جی ریل‘ (راجا کی ریل) بھی کہا جاتا تھا۔
’راجستھان میں تقریباً ہر چار سال بعد خشک سالی آتی تھی، اور قحط زدہ لوگ اناج کی تلاش میں اسی ٹرین پرزرخیز سندھآتے۔ کچھ یہیں آباد ہو جاتے جبکہ کچھ اپنے گھروں کے لیے چاول اور گندم خرید کر واپس چلے جاتے۔‘
انسائکلوپیڈیا برٹینیکا کی تحقیق ہے کہ سنہ 1818 میں برطانوی عمل داری میں آئی جودھ پور، انتظامی اکائی راجپوتانہ ایجنسی کی سب سے بڑی ریاست تھی۔ اس کا علاقہ انڈیا کی موجودہ ریاست راجستھان کے وسطی اور جنوب مغربی حصوں کے بیشتر علاقے پر مشتمل تھا۔ جودھ پور نے 1949 میں باضابطہ طور پر راجستھان میں شمولیت اختیار کی تھی۔
شاہی ریاستوں کا مرتبہ توپوں کی سلامی کی تعداد (زیادہ سے زیادہ 21 ) سے طے ہوتا تھا۔ جودھ پور کے راجا کو 15 توپوں کی سلامی کا درجہ حاصل تھا۔
جان زُبرزِسکی نے اپنی کتاب ’ڈی تھرونڈ: پٹیل، مینن اینڈ دی انٹیگریشن آف پرنسلی انڈیا‘ میں لکھتے ہیں کہ اگر(بانی پاکستان محمد علی) جناح اپنی قراقلی ٹوپی کے لیے کوئی نایاب جواہر تلاش کر رہے تھے تو وہ جودھ پور ہوتا۔
کرسٹوفر سنیڈن نے اپنی کتاب ’انڈرسٹینڈنگ کشمیر اینڈ کشمیریز‘ میں لکھا کہ جناح نے مسلم اکثریتی ریاستوں کو پاکستان میں شامل ہونے کی ترغیب دینے کے ساتھ ساتھ غیر مسلم حکمرانوں مثلاً برودا، اندور اور ٹراونکور سے بھی یہ کہا کہ اگر وہ پاکستان میں شامل ہونے سے ہچکچاتے ہیں توانڈیا سے علیحدگی اختیار کرلیں تاکہ انڈیا کا رقبہ کم سے کم رہے۔
’جناح نے ہندو اکثریتی ریاستوں کو بھی پاکستان میں شامل ہونے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی اور انھیں ایک طرح کا ’خالی چیک‘ پیش کیا: یعنی ہندو حکمران اپنی شرائط پر پاکستان میں شمولیت اختیار کر سکتا تھا۔ ان میں سب سے اہم ریاست جودھ پور تھی، جو جغرافیائی طور پر پاکستان کے ساتھ متصل تھی اور بآسانی پاکستان میں شامل ہو سکتی تھی۔‘
’جودھ پور کو انڈیا میں شامل کرنا ایک نازک معاملہ تھا کیونکہ اس کے ہندو حکمران نے انڈیا میں شمولیت پر آزادی سے ایک ہفتہ قبل ہی رضامندی ظاہر کی۔ یہ فیصلہ اس وقت ممکن ہوا جب انڈین حکومت کی طرف سے کچھ اہم رعایتیں دی گئیں اور آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی طرف سے سخت دباؤ ڈالا گیا۔‘
ایچ وی ہاڈسن اپنی کتاب ’دی گریٹ ڈیوائڈ‘ میں لکھتے ہیں کہ جودھ پوربہترین مثال ہے کہ جناح کس حد تک جانے کو تیار تھے تاکہ چند ریاستوں کو پاکستان سے ملایا جا سکے اور اس کے برعکس لارڈ ماؤنٹ بیٹن ان کوششوں کو روکنے کے لیے کس قدر سرگرم تھے۔
’پاکستان کی سرحد سے متصل جودھپور ایک راجپوت ریاست تھی۔ وہاں کی آبادی زیادہ تر ہندو تھی اور حکمران بھی ہندو تھا۔ مہاراجا نے جناح اور دیگر مسلم رہنماؤں، بشمول نوابِ بھوپال، سے کئی ملاقاتیں کیں اور وہ تقریباً پاکستان میں شمولیت پر آمادہ ہو چکے تھے۔‘
زُبرزیسکی لکھتے ہیں کہ ’ریاست نے اپریل 1947 میں دستور ساز اسمبلی میں شمولیت اختیار کر لی تھی اورمہاراجا اُمَید سنگھپُرعزم تھے کہ ان کی ریاست کا مستقبل انڈین یونین کے ساتھ ہے مگر دو ماہ بعد ان کی اچانک موت سے اقتدار ان کے بیٹےہنونت سنگھکو منتقل ہوا۔‘
’نوجوان، کم تجربہ کار، وجیہہ مگر ضدی ہنونت سنگھ کو ہوا بازی، انگریز دلہنوں، رقص کی محفلوں اورجادوگریسے خاص شغف تھا۔ جادوگری کا شوق اتنا سنجیدہ تھا کہ وہ بعد میں لندن کے معروف میجک سرکل کے رکن بھی منتخب ہوئے۔‘
یوسف پٹھان کی چند تصویروں سے شروع ہونے والی بحث: ادینا مسجد یا آدیناتھ مندر؟تاج محل ایک مقبرہ ہے یا مندر اور اس کے تہہ خانے میں موجود ’22 کمرے‘ کیا ہیں؟لکھنؤ کے نوابوں کا ایسٹ انڈیا کمپنی کو دیا گیا قرض جس کا چند روپوں کا سُود آج بھی ان کے ورثا حاصل کرتے ہیںفیض آباد میں نواب شجاع الدولہ کی ’دلکُشا کوٹھی‘ جہاں اب ہندو دیوی دیوتاؤں کی مورتیاں نصب ہوں گی
زُبرزِسکی کے مطابق گدی سنبھالنے کے بعد ہنونت سنگھ نے اعلان کیا کہ ان کی ریاست دستور ساز اسمبلی میں شامل رہے گی۔ ان کی تخت نشینی کی تقریب میں بھوپال کے نواب حمیداللہ خانکی موجودگی، جو دستاویزِ الحاق کو ’موت کا پروانہ‘ قرار دیتے تھے، اس قیاس کو جنم دیتی تھی کہ وہ نئے راجا کو جناح کے قریب لانا چاہتے ہیں۔
’اگست کے اوائل میں جودھ پور کے دیوان کاڈمبی وینکٹاچار نے ماونٹ بیٹن کو اطلاع دی کہ ہنونت سنگھ نے آزادی حاصل کرنے کا فیصلہکر لیا ہے۔ یہ فیصلہ جناح سے ایک ملاقات کے بعد ہوا، جس میں حمیداللہ اور مسلم لیگ کے قانونی مشیر محمد ظفراللہ خانبھی موجود تھے۔‘
’جناح سیدھا مدعے پر آئے۔ انھوں نے ہنونت سنگھ کو پیشکش کی کہ جودھپور اگر 15 اگست کو آزادی کا اعلان کر کے پاکستان سے الحاق کر لے تو اسےکراچی بندرگاہکے آزادانہ استعمال، اسلحے کی درآمد کی آزادی، جودھ پور تا حیدرآباد (سندھ) ریلوے پر اختیار، اور قحط زدہ علاقوں کے لیے غلے کی فراہمیجیسی مراعات دی جائیں گی (جودھ پور تا حیدرآباد ریلوے وہی ہے جس کا ابتدامیں ذکر ہے)۔
زُبرزِسکی کے مطابق اگرچہ جودھ پور کی صرف 22 فیصد آبادی مسلمان تھی لیکن جناح کی پیشکش میں ایکتاریخی منطق ضرور تھی۔ قدیم زمانے میں جودھ پور کے زیرِنگیں علاقے مشرقی سندھ کے عمرکوٹ سے لے کر دریائے سندھ کے کنارے واقعحیدرآباد تک پھیلے ہوئے تھے۔
’سنہ 1843 میں جنرل سر چارلس نیپئر کے سندھ پر قبضے کے بعد یہ علاقے جودھ پور سے چھن گئے تھے اور بطورِ تاوان ریاست کو محضسالانہ دس ہزار روپے کرایہ دیا جانے لگا تھا جو تقریباً ایک صدی تک نہیں بڑھایا گیا۔‘
مورخکے ایم پنیکر کے مطابق ’مہاراجا پاکستان کی مدد سے پورے راجستھان کا ایک طرح سے شہنشاہبننے کے خواب سے مسحور ہو گئے تھے۔‘
زُبرزِسکی لکھتے ہیں کہ ماونٹ بیٹن ایک وقت میں نوابِ بھوپال حمید اللہ خان کو ہندوستان میں اپنا دوسرا بہترین دوستقرار دیتے تھے۔ ’یہاں تک کہ جولائی 1947 تک وہ انھیں آمادہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ جناح کو قائل کریں کہ ہندوستان اور پاکستان دونوں کے لیے ایک ہی گورنر جنرل (یعنی خود ماونٹ بیٹن) ہوں۔‘
’مگر اب دونوں ایک دوسرے کےمخالف خیموں میں تھے۔ جب ماونٹ بیٹن کو ہنونت سنگھاور جناحکی ملاقات کی خبر ملی تو وہ خفا ہوئے۔‘
’نواب حمید اللہکا مؤقف مگر اخلاقی تھا۔ وہ طویل عرصے سے ماونٹ بیٹن کو سمجھا رہے تھے کہ تقسیم کا منصوبہدراصل ریاستی ہندوستان اور بالادستی (پیرا ماؤنٹسی)کے نظریے کے زوال کا سبب بنے گا۔ انھوں نے15 جون 1947کو ماونٹ بیٹن کو لکھا کہ ’کسی نے یہ سوچنے کی زحمت نہیں کی کہ ریاستوں کا ردِ عمل کیا ہو گا۔ دراصل ریاستوں کو اس طرح نظرانداز کیا گیا، جیسے وہ ہندوستان کا حصہ ہی نہ ہوں۔‘
زُبرزِسکی لکھتے ہیں کہ ’ماونٹ بیٹن نے ان کے دلائل رد کر کے انھیں انڈیا سے الحاقکا مشورہ دیا۔ اس کے جواب میں نواب نے ایک طویل خط لکھا، جس میں انھوں نے کانگریس پر الزام لگایا کہ وہ ریاستوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے جبر، رشوت اور دھونس جیسے ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔‘
’ان کا مزید کہنا تھا کہ برطانوی حکومت بھی ان حربوں میں کانگریس کی پشت پناہی کر رہی ہے۔ انھوں نے تلخی سے پوچھا ’کیا ہم ایک خالی چیک لکھ دیں اور اسے کانگریس کے رہنماؤں کے حوالے کر دیں کہ وہ اس پر اپنی مرضی کی رقم بھریں؟‘‘
زُبرزِسکی لکھتے ہیں کہ بعد ازاں نواب حمید اللہ نے اُدَے پور کے مہارانا بھوپال سنگھ کو ہدف بنایا۔ ان کے اصرار پر ہنونت سنگھنے کوشش کی کہ مہارانا کو پاکستان سے الحاقپر آمادہ کریں۔ اس منصوبے کے پیچھے منطق یہ تھی کہ اُدے پور مغرب میں جودھ پور اور وسطی ہند کی ریاستوں اندور اور بھوپالکے درمیان رابطے کی ایک کڑی تھا۔
’اگر مہارانا راضی ہو جاتے تو بھوپال، اندور کے راستے پاکستان سے زمینی اتصال حاصل کر لیتا اور یوں نواب حمید اللہ اپنی دیرینہ خواہش پوری کر سکتے تھے۔‘
’لیکن جودھ پور کے دیوان وینکٹاچار نے حکومتِ ہند کے سیکرٹری برائے داخلہ امور ایچ وی آر آینگر کو ایکخاص قاصدکے ذریعے دستی نوٹ بھجوایا کہ حکمران سے جناح نے رابطہ کیا اور انھیں انڈین ڈومینین سے باہر رہنے پر آمادہ کر لیا۔ آینگر نے فوراً وہ نوٹ (سردار ) پٹیل کو دکھایا جنھوں نے کہا کہ اگر جودھ پور،اُدَے پور، اِندور، بھوپال کا اتحاد بن گیا تو یہ ’انڈیا کے دل میں خنجر‘ کے مترادف ہو گا۔‘
زُبرزِسکی لکھتے ہیں کہ سب کچھ ٹھیک ہوتا دکھائی دے رہا تھا۔ آخری ملاقات میں جناح نے ڈرامائی انداز میں اپنا دستخط شدہ ایک خالی صفحہ مہاراجا ہنونت سنگھ کے حوالے کیا اور کہا کہ ’اپنی تمام شرائط خود لکھ لیں۔‘
’ایک لمحے کو لگا کہ مہاراجا واقعی ایسا کر لیں گے مگر عین وقت پر ان کے اے ڈی سی، کرنل ٹھاکر کیسری سنگھ نے مداخلت کی اور انھیں ماں سے مشورہ کیے بغیر دستخط کرنے سے روک دیا۔ ہنونت سنگھ جودھ پور واپس گئے، جہاں ماں اور گرو دونوں نے انھیں سمجھایا کہ ایک ہندو ریاست کا مسلم اکثریتی ملک سے الحاق تباہ کن ہو گا۔‘
ہاڈسن لکھتے ہیں کہ ان کے ساتھ جناح سے آخری ملاقات میں موجود جیسلمیر کے مہاراج کمار نے کہا کہ وہ پاکستان میں صرف ایک شرط پر شامل ہوں گے کہ اگر ہندو اور مسلمانوں میں جھگڑا ہوا تو وہ مسلمانوں کا ساتھ نہیں دیں گے۔ اس بات نے مہاراجا جودھ پور کو جھنجھوڑ دیا۔
اس کے بعد زبرزیسکی کے مطابق وہ دلی میں ماؤنٹ بیٹن سے ملے۔
لیکن ہاڈسن نے لکھا کہ مہاراجا کو دلی میں وائسرائے ہاؤس طلب کیا گیا تو ماؤنٹ بیٹن نے انھیں سمجھایا کہ اگرچہ انھیں قانونی طور پر پاکستان میں شامل ہونے کا حق حاصل ہے مگر اس فیصلے کے نتائج پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ یہ تقسیم کے اصولوں کے خلاف ہو گا اور ریاست میں فرقہ وارانہ فساد کو ہوا دے سکتا ہے۔
زبرزیسکی کے مطابق وائسرائے نے مہاراجا سے کہا کہ وہ ان کے والد کے دوست رہے ہیں اور یقیناً ان کے والد انڈیا کے ساتھ ہوتے۔
ہاڈسن نے لکھا ہے کہ ’لیکن جب یہ دلیل بھی کارگر نہ ہوئی تو وی پی مینن نے مہاراجا کو یقین دلایا کہ انڈیا وہ تمام رعایتیں دے گا جن کا جناح نے وعدہ کیا: اسلحے کی درآمد، قحط زدہ علاقوں کے لیے خوراک اور بندرگاہ تک ریل کی تعمیر۔ انھوںنے دوٹوک انداز میں کہا کہ آپ پاکستان کے ساتھجا ہی نہیں سکتے۔ آپ کے جاگیردار، عوام اور حتیٰ کہ آپ کی والدہ بھی اسے قبول نہیں کریں گے۔‘
ویپلا پنگونی (وی پی) مینن کو انڈیا کے وزیرداخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل نے شاہی ریاستوں کو انڈیا میں شامل کرنے کا کام سونپا تھا۔
ہاڈسن نے لکھا کہ آخر میں سردار پٹیل نے فیصلہ کن وار کیا کہ ’آپ چاہیں تو انڈیا سے باہر رہ سکتے ہیں لیکن اگر اس کے نتیجے میں آپ کی ریاست میں بدامنی ہوئی تو انڈیاکی حکومت آپ کی کوئی مدد نہیں کرے گی‘۔
یہ سنتے ہی مہاراجا کے پسینے چھوٹ گئے۔ انھوںنے فوراً کہا کہ ’میں ابھی ماؤنٹ بیٹن کے پاس جا کر الحاق پر دستخط کرتا ہوں۔‘
دستخط کے بعد مینن کے بقول مہاراجا نے اچانک ’ریوالور‘ نکال کر کہا کہ ’میں آپ کی ڈکٹیشن قبول نہیں کرتا۔‘
مینن نے سرد لہجے میں جواب دیا کہ’یہ بچوں جیسے تماشے بند کریں۔‘
اونکار سنگھ ببرانے ’ایک مہاراجا کی انترکتھا‘ میں لکھا ہے کہ یہ ایک مذاق تھا۔’ریوالور‘ دراصل سونے کی ملمع کاری کیا ہوا ایک قلم تھا ۔
زبرزیسکی کے مطابق ماؤنٹ بیٹن نے بھی اس واقعے کو ہنسی میں اڑا دیا۔ برسوں بعد، مہاراجا نے وہ قلم تحفے میں ماؤنٹ بیٹن کو دے دیا، جنھوں نے اسے بعد میں ’میجک سرکل‘ کے میوزیم کو عطیہ کر دیا۔ 2013 میں یہ قلم برطانیہ کے رائل آرموریز میوزیم کو تیرہ ہزار پاؤنڈ میں فروخت ہوا۔
’اگرچہ جودھ پور نے بالآخر انڈیاسے الحاق کر لیا مگرانڈیاکے لیے اصل اطمینان کی بات یہ تھی کہ ادے پور کے راجا بھوپال سنگھ نے پاکستان کی پیشکش ٹھکرا دی۔‘
ہاڈسن کے مطابق انڈیا کی ریاستی وزارت کو خوف تھا کہ اگر جودھ پور پاکستان سے جا ملا تو دوسرے راجپوت حکمران، جیسے ادے پور، بھی اسی راہ پر چل سکتے ہیں، جس سے پاکستان کے ساتھ ایک متصل راجپوت اتحاد بن سکتا تھا۔لیکن جودھ پور، جیسلمیر اور بیکانیر، جن میں بیکانیر کے راجا نے انڈیاسے الحاق کی مہم میں سب سے آگے بڑھ کر کردار ادا کیا، سب نے آخرکار انڈیا سے الحاق کے دستاویز پر دستخط کر دیے۔
ہاڈسنکا تجزیہ ہے کہ اس وقت لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو ریاستوں کے معاملے میں ایک عظیم کامیابی کا احساس ہوا۔ تمام توقعات کے برعکس، زیادہ تر ریاستوں نے انڈیا یا پاکستان میں شمولیت اختیار کر لی تھی اور وہ افراتفری اور بغاوت جس کا خطرہ برطانوی اقتدار کے خاتمے پر تھا، ٹل گئی تھی۔
وہ لکھتے ہیں ’لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے یہ پالیسی سب سے پہلے راجاؤں کے سامنے رکھی تھی۔ انھوںنے خود کہا تھا کہ ’یہ میری سکیم ہے‘۔ انھوںنے ہر موقع پر اسے نافذ کرنے کے لیے ذاتی طور پر مداخلت کی، خاص طور پر مشکل حالات میں۔‘
جدید جنوبی ایشیا کے مورخیعقوب خان بنگش کےمطابق جب ماؤنٹ بیٹننے مہاراجا کو طلب کر کے عملاً انھیں انڈیاسے الحاق پر مجبور کیا ’یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ ماؤنٹ بیٹن بطور وائسرائے اور گورنر جنرل کا کس حد تکانڈیاکے حق میں جھکاؤ تھا حالانکہ جودھ پور کو اختیار حاصل تھا کہ وہانڈیا یا پاکستان میں سے کسی ایک سے الحاق کرے یا آزاد ریاست کے طور پر قائم رہے۔‘
بنگش کتاب ’اے پرنسلی افیئر: دی ایکسیشن اینڈ انٹیگریشن آف دی پرنسلی سٹیٹس آف پاکستان 1947-1955‘ کے مصنف ہیں۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اسی طرح اِندور کے مہاراجا نے بھی جناح صاحب سے استفسار کیا تھا کہ اگر وہ پاکستان سے الحاق کریں تو اس کی شرائط اور ممکنہ فوائد کیا ہوں گے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جودھ پور واحد ہندو اکثریتی ریاست نہیں تھی جسے پاکستان سے الحاق میں دلچسپی تھی۔
وہ لکھتے ہیں کہ ’اگر جودھ پور پاکستان سے الحاق کر لیتا تو راجستھان کی کئی دیگر ریاستوں کو بھی اس راستے پر آمادہ کیا جا سکتا تھا۔ جودھ پور چونکہ راجستھان کے وسط میں واقع ہے، اس لیے اس کے پاکستان میں شامل ہونے سے جے پور، اُدے پور اور الوَر پر دباؤ بڑھ جاتا، اور اگر اِندور بھی پاکستان کا حصہ بن جاتا تو برصغیر کے نقشے میں پاکستان کی جغرافیائی وسعت میں ڈرامائی اضافہ ہو جاتا۔‘
تاہم ایسا نہ ہو سکا۔
بنگش کے مطابق ’اگر یہ سب ہو جاتا تو یقیناً انڈیا کا ردِعمل شدید ہوتا کیونکہ یہ سب ہندو اکثریتی ریاستیں تھیں جن کے حکمراں بھی ہندو تھے۔ یوں پاکستان کا ’مسلم ریاست‘ ہونے کا نظریاتی دعویٰ بھی کسی حد تک متاثر ہوتا۔‘
’لیکن ماؤنٹ بیٹن نے جودھ پور اور اندور پر دباؤ ڈال کر ایسا ہونے نہیں دیا تاکہ پاکستان کی کہانی اس سمت میں آگے بڑھ ہی نہ سکے۔‘
تاج محل ایک مقبرہ ہے یا مندر اور اس کے تہہ خانے میں موجود ’22 کمرے‘ کیا ہیں؟یوسف پٹھان کی چند تصویروں سے شروع ہونے والی بحث: ادینا مسجد یا آدیناتھ مندر؟لکھنؤ کے نوابوں کا ایسٹ انڈیا کمپنی کو دیا گیا قرض جس کا چند روپوں کا سُود آج بھی ان کے ورثا حاصل کرتے ہیںفیض آباد میں نواب شجاع الدولہ کی ’دلکُشا کوٹھی‘ جہاں اب ہندو دیوی دیوتاؤں کی مورتیاں نصب ہوں گیشاہی ریاست ’ماناودر‘ کے پاکستان سے الحاق کا تنازع اور اس کے آخری حکمران کے پاکستان میں گزرے دنوں کی داستانجونا گڑھ کو پاکستان کے نئے ’سیاسی نقشے‘ میں شامل کرنے کی قانونی حیثیت کیا ہے؟